نظم ” دیکھ جس پر ہے آسرا میرا” کی تشریح

آج کی اس پوسٹ میں ہم عبد الرحمان بابا کی نظم ” دیکھ جس پر ہے آسرا میرا” کی تشریح پڑھیں گے ۔

نظم ” دیکھ جس پر ہے آسرا میرا” کی تشریح:

شعر نمبر 1 : 

دیکھ جس پر ہے آسرا میر

 ہے وہ مختار کل خدا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : آسرا (سہارا) ،  مختار کل( ہر چیز کا اختیار رکھنے والا)

مفہوم :  جس ہستی کا مجھے سہارا ہے وہ با اختیار اور قادر مطلق ہے ۔

تشریح :  رحمان بابا پشتو زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں ۔ ان کی شاعری امن و محبت ، انسان دوستی ، اخلاقیات اور خدا سے تعلق کو بیان کرتی ہے ۔ پروفیسر طہ خان نے ان کے کلام کا منظوم ترجمہ کیا ہے ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ مجھے دنیا و آخرت میں جس ہستی کا سہارا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ وہ مختار کل ہے ۔ اسے ہر اختیار حاصل ہے ۔ دنیا میں کسی کو بادشاہ وزیر یا کسی افسر کی مدد کا ذرا سا آسرا مل جائے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا جبکہ مجھے جس خدا کا آسرا ہے وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے ۔ وہ بادشاہ گر ہے ۔ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے ۔ اس کے سہارے کے بعد مجھے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ عزت ، ذلت ، زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ چنانچہ ہر مشکل گھڑی میں اسی قادر مطلق اور مختار کل خدا کو میں نے پکارا ہے ۔ وہی میرا حامی و مددگار ہے ۔

بقول شاعر :

خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے

کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے

مولانا الطاف حسین حالی

شعر نمبر 2 :

مدعی جتنے ہیں بزرگی کے

سب کا رہبر ہے رہنما میرا

مشکل الفاظ کے معانی : مدعی( دعویٰ دار) ،  بزرگی (عظمت  ، بڑھائی) ،  رہبر( رہنما  ، راہ دکھانے والا)

 مفہوم :  میرا خدا بڑائی کے ہر طالب کا رہبر اور رہنما ہے ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ دنیا میں ہر شخص عزت و شہرت اور عظمت کا خواہش مند ہے ۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے بادشاہی کا تاج عطا کرتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے شہرت کی بلندیوں پر بٹھا دیتا ہے ۔ عزت و ذلت ، شہرت و گمنامی اسی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے ۔ دنیا میں بڑائی کے بڑے بڑے دعویٰ دار آئے ۔ کبھی فرعون نے خدائی کا دعوی کیا تو کبھی نمرود خدا بن بیٹھا ۔ کبھی شداد اپنی خود ساختہ جنت بنا کر تکبر کا شکار ہوا لیکن سب نیست و نابود ہو گئے ۔ دنیا کو فتح کرنے والے کئی فاتح کئی جنگجو آئے لیکن آج ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں ۔ دنیا کا ہر متکبر اور بڑائی کا دعویٰ دار ایک دن زوال پذیر ہو گیا جبکہ خدا کی ذات ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ وہ زندہ اور پائندہ ہے ۔ اس کی عظمت و بزرگی کو کوئی زوال نہیں ۔

بقول شاعر

سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری

علامہ اقبال

شعر نمبر 3 : 

زیر احسان ہے نہ حاجت مند

بے نیازی کا منتہا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : زیر احسان (احسان مند) ،  حاجت مند (ضرورت مند) ،  بے نیازی( بے پرواہی ، غنی) ،  منتہا( انتہا  ، انتہائی حد ، آخری حد)

مفہوم :  میرا خدا ہر ضرورت سے بے نیاز اور مستغنی ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بے نیازی اور استغنا کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاجت اور ضرورت سے بے نیاز ہے ۔ اسے اپنے کام لینے کے لیے کسی کی مدد یا سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ وہ احد ، صمد ذات ہے ۔ اس کی صفت وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ۔ وہ اپنی ذات میں کامل ہے اور کسی کا محتاج نہیں ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ۔

 یا ایہا الناس انتم الفقرا الی اللہ واللہ غنی الحمید

ترجمہ : اے لوگو ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز اور قابل تعریف ہے .

سورۃ فاطر 15 آیت

اس لیے وہ کسی کا زیر احسان بھی نہیں وہ جو چاہتا ہے ہو جاتا ہے ۔ اس کا ارادہ  کسی چیز کو وجود بخشنے کے لیے کافی ہے۔ وہ روشنی کے لیے سورج کا محتاج نہیں ۔ وہ چاہے تو سورج کے بغیر بھی روشنی دے سکتا ہے ۔ جنت میں روشنی تو ہوگی لیکن سورج نہیں ہوگا وہ کسی سے متاثر نہیں ہوتا ۔ لوگوں کے رکوع و سجود حمد و ثنا اور تسبیح و تحلیل سے اس کی بڑائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ تو ہمیشہ سے اکبر ہے ۔ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے ۔ جس سے چاہے بادشاہت چھین لے اور جسے چاہے عطا کرے ۔ وہ جسے چاہے عذاب دے جسے چاہے معاف کرے ۔ کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ۔ وہ اپنی ذات اور صفات میں تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں نابود کر دے اور تمہاری جگہ دوسری مخلوق پیدا کر دے تم اپنے وجود میں اپنی بقا میں اللہ کے محتاج ہو جبکہ اللہ غنی ذات ہے ۔ وہ اپنی بقا اور اپنے افعال کے لیے کسی کا محتاج نہیں چنانچہ شاعر کہتا ہے میرا خدا بے نیازی کا منتہا ہے ۔ بقول شاعر :

گدا کو بادشاہ یا بادشاہ کو گدا کر دے

میرے مالک تو جب چاہے کسی کو کیا سے کیا کر دے

مالک ہے تو ، کریم ہے تو، بے نیاز ہے تو

نے حاجت عمل تجھے ، نے حاجت جواز

شعر نمبر 4  :

جس نے پیدا کیا عدم سے وجود

وہ ہے خلاق دوسرا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : عدم (کچھ نہ ہونا نا موجودگی) ،  وجود (ہستی ، حیات ،مخلوقات) ،  خلاق دوسرا( دو جہانوں کا پیدا کرنے والا)

مفہوم : میرا خدا ہے جس نے ہر مخلوق کو عدم سے وجود بخشا اور وہی دونوں جہانوں کا خالق ہے۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق کو بیان کرتا ہے۔  شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات اور اس میں ہر شے کو عدم سے وجود بخشا یعنی بغیر کسی مٹیریل اور مادے کے خدا نے ہر شے کو وجود بخشا ہے ۔ اس کی ایک صفت بدیع ہے ۔ جس کے بغیر جس کے معنی بغیر کسی مادے مثال اور نمونہ کے کسی چیز کو ایجاد کرنے کے ہیں جس کی کوئی مثال نظیر اور ماخذ و مصدر موجود نہ ہو ۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کا شاہکار ہے کہ اس نے تن تنہا اپنی قدرت و حکمت سے زمین و آسمان اور ان میں موجود مخلوقات کو وجود بخشا ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ۔

سورۃ بقرہ 117 آیت ترجمہ :  وہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔ جب وہ کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کے لیے اتنا ہی کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالی دو جہانوں کا خالق ہے اور احسن الخالقین ہے اس کی ہر تخلیق بے مثل اور بے نظیر ہے ۔ ہر تخلیق اس کے حسن تخلیق کی گواہی دیتی ہے ایک ذرے سے سورج تک ہر چیز میں ایک جہان مخفی ہے ۔ اس کی تخلیقات اتنی ہیں کہ ان سب کا احاطہ انسان کے بس سے باہر ہے ۔

شعر نمبر 5 : 

 وہی ہے صانع  صنعت کل

 وہی ہے سامع صدا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : صانع ( بنانے والا ، خالق ، موجد ، کاریگر ) ، صنعت کل (ہر بنی ہوئی چیز) ،  سامع صدا ( پکار سننے والا)

مفہوم : میرا خدا ہر چیز کا خالق ہے اور میری صداؤں کو سننے والا بھی ہے ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگری بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جس نے ہر چیز تخلیق کی صنعت کل کا صانع وہی ہے ۔ ہر مخلوق کا خالق وہی ہے ۔ اس کی تخلیقات بے شمار اور بے انتہا ہیں ۔ وہ احسن الخالقین ہے ۔ اس کی ہر تخلیق بے مثل اور لاریب ہے ۔ اس نے جو بھی شے تخلیق کی ہے بغیر کسی مادہ ، مثال اور نمونے کے تخلیق کی ہے۔  اس کی کاریگری کے نمونے ہر سو جہان میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی صنعت سامع کا ذکر کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہر صدا اور ہر پکار کو سننے والا ہے ۔ وہ صدا جو دل سے نکلے مگر لب اظہار تک نہ آ سکے ۔ وہ ذات اسے بھی سن لیتی ہے اس کی سماعت لامحدود ہے ۔ کوئی بلند آواز سے پکارے یا آہستہ وہ سب کی سن لیتا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ۔  سورۃ نمل 62 آیت ترجمہ :  اس کے سوا کون ہے جو بے قرار کی پکار سنتا ہے جب وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف دور کرتا ہے ۔

بقول شاعر :

وہ سنتا ہے سب کی دعا کر تو دیکھو

تم اپنے نصیب آزما کر تو دیکھو

چنانچہ شاعر کہتا ہے میرا رب میری ہر پکار اور دعا کو سنتا ہے ۔ میں سب گزارشات اسی کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔ وہی میرا کار ساز اور مددگار ہے ۔

شعر نمبر 6 :

ساری اقلیم شش جہات کے بیچ

حکمراں کاتب قضا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : اقلیم (ملک) ، شش جہات (چھ اطراف ، چھ سمتیں ، دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے)  اقلیم شش جہات( چھ اطراف کا ملک مراد تمام دنیا) ،  حکمراں( حاکم ) ، کاتب قضا( تقدیر لکھنے والا ، فیصلہ لکھنے والا)

مفہوم : ساری دنیا پر میرے خدا کی حکمرانی ہے اور وہی کاتب تقدیر ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی حکومت و سلطنت کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ساری کائنات میں فقط اسی کی حکمرانی قائم ہے ۔ وہی ہے جو اس وسیع و عریض کائنات کا نظام بہ حسن و خوبی چلا رہا ہے ۔ اس کی بادشاہت اور حکمرانی ہر شے پر قائم ہے ۔ زمین و آسمان ، پہاڑ ، سمندر ، چاند اور سورج سب اسی کے حکم کے پابند ہیں ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ۔

ترجمہ :  زمین و آسمان کی ہر چیز چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے اس کی فرمانبردار ہے ۔

83سورۃ ال عمران آیت نمبر

بقول شاعر :

  ہر ایک شے میں جھلک وہ اپنی ربوبیت کی دکھا رہا ہے

نظام اس کائنات کا جو بہ حسن و خوبی چلا رہا ہے

سروری زیبا فقط اسی ذات بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آزری

علامہ محمد اقبال

وی کاتب تقدیر ہے اس نے ہر ایک چیز کا اندازہ اور تقدیر مقرر کر رکھی ہے ۔ کوئی شے اس کے مقررہ اندازے سے تجاوز نہیں کرتی ۔ وہی زندگی اور موت دیتا ہے ۔ وہی بیماری اور شفا لاتا ہے ۔ امن و راحت ، زندگی و مصیبت ، خوشی و غم ، نشیب و فراز ہر کیفیت اور ہر حالت اسی کی لکھی تقدیر کے تحت پیش آتی ہے ۔

شعر نمبر 7 : 

اس کو پھر غیر کی نہیں حاجت

ساتھ ہے جس کے آشنا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : حاجت (ضرورت ) ، آشنا (دوست ، واقف کار مراد اللہ تعالیٰ )

مفہوم :  میرا خدا جس کا دوست ہو جائے اسے پھر کسی اور کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ جس کا حامی و مددگار خدا ہو اسے پھر کسی اور کی مدد کی حاجت نہیں رہتی ۔ اللہ تعالیٰ کل کائنات کا بادشاہ ہے ۔ اسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے ۔ وہ جو چاہے کر سکتا ہے جب انسان کو خدا کی مدد اور اس کا سہارا میسر ہو تو اسے کسی دشمن کا خوف نہیں رہتا ۔ لوگ دنیا کے دوستوں کی مدد اور ان کے سہاروں پر نازاں ہوتے ہیں جبکہ سب سے بڑا دوست اور حقیقی مددگار خدا ہے ۔ اس کا سہارا ملنے کے بعد پھر کسی غیر کے سہارے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ خدا کا سہارا ہر لحاظ سے کامل اور خدا کو ہر چیز پر قدرت حاصل ہے ۔ وہ مختار کل ذات ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ۔

ترجمہ :  اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو تمہاری مدد کر سکے ۔ مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ سورۃ ال عمران 160 آیت بقول شاعر :

خدا کے سوا چھوڑ دے سب سہارے

کہ ہیں عارضی زور کمزور سارے

مولانا الطاف حسین حالی

شعر نمبر 8 :

کیوں اے دربدر تلاش کروں

دل میں رہتا ہے دلربا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : در بدر (ایک دروازے سے دوسرے دروازے تک مراد ہر جگہ مارے مارے پھرنا) ،  دلربا دل( کو لبھانے والا محبوب مراد اللہ تعالیٰ) مفہوم :  میرا خدا میرا محبوب میرے دل میں بستا ہے ۔ اسے میں در بدر تلاش کیوں کروں۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ خدا کی ذات کو تلاش کرنے کے لیے مجھے در بدر سرگرداں رہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ میرا خدا میرا محبوب ہے ۔ وہ میرے دل میں بستا ہے ۔ یہ شعر تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے ۔ شاعر کا محبوب حقیقی اللہ تعالیٰ ہے جو اس کے دل میں جلوہ گر ہے ۔ وہ کائنات کی وسعتوں اور آسمان کی بلندیوں اور پہنائیوں میں نہیں سماتا بلکہ ایک بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہے ۔ مومن کا دل اللہ کا گھر ہے ۔

بقول شاعر :

ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکیں

میرا ہی دل ہے وہ جہاں تو سما سکے

میر درد

جس طرح ایک دنیا دار عاشق اپنے مجازی محبوب کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے ۔ اس کے دیدار اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار اور  بے تاب رہتا ہے ۔ اسی طرح اللہ کے عاشق اور صوفیا اس کے اس جلوہ حسن کو دیکھنے کے لیے جنگلوں ، وادیوں ، پہاڑوں اور صحراؤں میں سرگرداں رہتے ہیں ۔ وہ تارک الدنیا دنیا ہو جاتے ہیں ۔ ہزارہاں ریاضت و مشقت کے باوجود ان کی کوشش نا تمام رہتی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے مجھے خدا کی تلاش میں در بدر ٹھوکریں کھانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ تو میرے دل کے نہاں خانوں میں موجود ہے ۔

بقول مولانا ظفر علی خان :

میں اس کو کعبہ و بت خانہ میں کیوں ڈھونڈنے نکلوں

میرے ٹوٹے ہوئے دل ہی کے اندر ہے قیام اس کا

دراصل شاعر کہنا چاہتا ہے کہ اللہ کی ذات انسان کے بہت قریب ہے اور اس تک رسائی بہت آسان ہے ۔ چنانچہ انسان خود شناس ہو جب انسان خود کو پہچان لیتا ہے تو اسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے ۔ خدا شناسی کا پہلا مرحلہ خود شناسی ہے ۔ صوفیاء کرام کا فرمان ہے جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا ۔ خدا تک پہنچنے کا راستہ اندر سے جاتا ہے باہر سے نہیں ۔ صوفیا کی اصطلاح میں اسے زیر باطن کہتے ہیں ۔ ان کے بقول حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ سیر  باطن ہے یعنی انسان اپنے باطن پر غور کرے اور اسے دنیا کی آلائشوں کثافتوں اور دنیا کی دنیاوی خواہشوں کے غبار سے پاک کرے ۔ جس طرح اللہ کی ذات کائنات کی وسعتوں میں نہیں سماتی اسی طرح وہ ظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی بلکہ باطن کی آنکھ سے نظر آتی ہے ۔

:اقبال ایک اور جگہ اسی حقیقت کو عیاں کرتے ہیں

ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئی

ہو دیکھنا تو دیدہ دل واہ کرے کوئی

علامہ اقبال

شعر نمبر 9 : 

بے تغیر ہے بے تبدل ہے

ایک وہی صاحب بقا میرا

مشکل الفاظ کے معانی : بے تغیر (جس میں کوئی بدلاؤ نہ ہو ، ثابت مستقل رہنے والا) ،  بے تبدل (جس میں کوئی تبدیلی نہ ہو) ،  صاحب بقا( ہمیشہ زندہ رہنے والی ہستی)

مفہوم :  میرا خدا جس کی ذات تغیر و تبدل سے ماورا ہے وہی ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی و ابدی ہے ۔ وہ ہر قسم کے تغیر و تبدل سے پاک ہے ۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والی ہستی ہے ۔ اسی کو ہمیشگی اور بقا ہے ۔ باقی سب کو فنا ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے  جس کا ترجمہ ہے : ۔

 ” زمین پر موجود ہر شے کو فنا ہے صرف تیرے رب کی عزت و اکرام والی ذات ہی کو بقا ہے ” ۔  صوفیا کے نزدیک وجود کی دو اقسام ہیں ایک وجود حقیقی اور دوسرا وجود غیر حقیقی ۔ وجود حقیقی سے مراد ایسا وجود ہے جو اپنی بقا کے لیے کسی کا محتاج نہ ہو وہ زمانے کے حادثات حالات اور تغیر و تبدل سے متاثر نہ ہو ۔ ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے جبکہ غیر حقیقی وجود ایسا وجود ہے کہ جس سے کسی نے تخلیق کیا ہو اور وہ اپنی بقا کے لیے دوسروں کا محتاج ہو ۔ زمانے کے حادثات و حالات اور تغیر و تبدل سے وہ متاثر بھی ہوتا ہو ۔ ایک وقت پر آ کر وہ موت کا شکار بھی ہو جاتا ہو ۔ اللہ کے علاوہ تمام مخلوقات غیر حقیقی وجود ہیں جبکہ حقیقی وجود صرف خدا کی ذات ہے جو حوادث و احوال اور تغیر و تبدل سے متاثر نہیں ہوتا ۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو بقا ہے ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” دیکھ جس پر ہے آسرا میرا” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply