آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” دو عشق” کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔ اس پوسٹ میں ہم شاعر فیض احمد فیض کا تعارف بھی پیش کریں گے ۔
: فیض احمد فیض کی ابتدائی زندگی
فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سلطان محمد خان ایک معروف وکیل اور ادیب تھے۔ فیض نے اپنی ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی اور بعد میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی اور اورینٹل کالج لاہور سے ایم اے عربی کیا۔
: فیض احمد فیض کا ادبی سفر
فیض کی شاعری کا آغاز نوجوانی میں ہوا۔ ان کی پہلی شاعری کی کتاب “نقش فریادی” 1941 میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد ان کی کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں “دستِ صبا”، “زنداں نامہ”، “دستِ تہ سنگ”، “مجھ سے پہلی سی محبت” اور “سر وادی سینا” شامل ہیں۔ فیض کی شاعری میں انقلابی جذبہ اور عوامی مسائل کا گہرا شعور موجود ہے۔
: فیض کی سیاسی سرگرمیاں
فیض ایک سرگرم سیاسی کارکن بھی تھے۔ وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے اور تحریکِ پاکستان میں بھی فعال رہے۔ فیض نے مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھائی۔ 1951 میں انہیں راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا اور چار سال تک جیل میں رہے۔ اس دوران ان کی شاعری کا رنگ اور بھی گہرا ہو گیا اور ان کی کئی معروف نظمیں اور غزلیں اسی دور میں لکھی گئیں۔
: فیض کی شعری خصوصیات
فیض کی شاعری میں رومانویت اور انقلابی جذبہ دونوں موجود ہیں۔ ان کی غزلوں میں کلاسیکی رنگ اور جدید موضوعات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں درد اور امید کی کیفیت ایک ساتھ محسوس ہوتی ہے۔
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
قفس اُداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہرِ خدا آج ذکرِ یار چلے
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جان اب تک تیری ہے
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
:وفات
فیض احمد فیض نے اپنی زندگی کے آخری دن لاہور میں گزارے اور 20 نومبر 1984 کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور ان کے کلام کا مطالعہ ادب کے طلبا اور شاعری کے شائقین کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
: نظم کا فکری و فنی جائزہ
فیض احمد فیض کی نظم “دو عشق” ان کے منفرد اسلوب، گہرے فکری شعور اور فنی مہارت کا خوبصورت نمونہ ہے۔ یہ نظم دو الگ مگر باہم مربوط عشقیہ تجربات کو بیان کرتی ہے: محبوب کا عشق اور وطن کا عشق۔
: نظم کا فکری جائزہ
1. عشق کی دو جہتیں:
نظم کے پہلے حصے میں محبوب کے عشق کی لطافت، وصال کی خوشبو، اور ہجر کی تپش بیان کی گئی ہے۔ شاعر ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھویا ہوا ہے اور محبوب کے حسن کو سورج اور حنا کی روشنی سے تشبیہ دیتا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ یادیں ہجر کے کرب میں بدل جاتی ہیں، جہاں تنہائی، رات کی سیاہی، اور دل کی بے قراری نمایاں ہو جاتی ہے۔
دوسرے حصے میں یہی جذبات وطن کے عشق میں ڈھل جاتے ہیں۔ جس طرح عاشق محبوب کے فراق میں تڑپتا ہے، اسی شدت سے شاعر اپنی سر زمین کی آزادی اور وقار کے لیے تڑپتا ہے۔ اس میں قربانی، جدو جہد، اور نظریاتی استقامت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
2. قربانی اور استقامت:
فیض کے ہاں عشق محض جذباتی وابستگی نہیں، بلکہ قربانی اور جدو جہد کا استعارہ ہے۔ وطن کی محبت میں شاعر ہر آزمائش سے گزرتا ہے، قید و بند کی صعوبتیں سہتا ہے، مگر اپنی راہ سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ وہ شیخ و برہمن کے فتوے، حکمرانوں کی سختیاں، اور اپنوں کی بے وفائیاں سب جھیلتا ہے، لیکن ندامت کا کوئی داغ اس کے دل پر نہیں۔
3. انقلابی اور رومانی فکر کا امتزاج:
یہ نظم فیض کی اس انفرادیت کی مظہر ہے جس میں رومانوی جذبات اور انقلابی فکر کو یکجا کیا گیا ہے۔ یہاں محبوب کا عشق ذاتی وابستگی کی علامت ہے، جبکہ وطن کا عشق اجتماعی نظریے کی علامت بن کر سامنے آتا ہے۔
4. مزاحمتی آہنگ:
یہ نظم صرف محبت کی داستان نہیں بلکہ ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا ایک بیانیہ بھی ہے۔ اس میں شاعر انقلاب، آزادی، اور ظلم کے خلاف بغاوت جیسے عناصر کو عشق کے پیرائے میں پیش کرتا ہے۔
: نظم کا فنی جائزہ
1. صنفِ نظم:
یہ ایک موضوعاتی نظم ہے جس میں تسلسل کے ساتھ ایک مرکزی خیال کو بیان کیا گیا ہے۔ نظم میں غنائیت اور تغزل کی آمیزش موجود ہے، جو اسے زیادہ پر اثر بناتی ہے۔
2. زبان اور اسلوب:
فیض کی شاعری کا اسلوب ہمیشہ شیریں، سادہ مگر گہرا رہا ہے۔ اس نظم میں بھی انہوں نے روایتی عشقیہ الفاظ (محبوب، دیدار، رخسار، مہتاب) کو انقلابی و سیاسی استعاروں (زندان، بازار، دربار، ناوک دشنام) کے ساتھ جوڑ کر ایک نئی معنویت عطا کی ہے۔
3. تشبیہات و استعارات:
فیض کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو خوبصورت اور معنویت سے بھرپور تشبیہات و استعارات ہیں۔ مثال کے طور پر:
“اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید” → محبوب کے حسن کو سورج کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے۔
“اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب” → محبوب کی چال کو سیماب (پگھلے ہوئے چاندی جیسی روانی) سے تشبیہ دی گئی ہے۔
“چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام” → دشمنوں کی گالیوں کو تیر (ناوک) سے تشبیہ دی گئی ہے، جو طنز و تشدد کی علامت ہے۔
4. تراکیب:
نظم میں خوبصورت تراکیب استعمال کی گئی ہیں جو معنویت میں گہرائی پیدا کرتی ہیں:
“درد کے بے خواب ستارے” (وہ ستارے جو بے چینی اور غم کے باعث سو نہیں سکتے)
“شفق تیری قبا کی” (محبوب یا انقلاب کی علامت، جو ایک نئے سویرا کی نوید دیتی ہے)
“ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت” (ہر طرح کی قربانی دی مگر شرمندگی کا کوئی داغ نہیں)
5. موسیقیت اور روانی:
فیض کی شاعری کا ایک نمایاں وصف اس کی موسیقیت اور نغمگی ہے۔ اس نظم میں بھی بحر کی ہمواری، ردیف و قافیے کا خوبصورت استعمال، اور آہنگ کی نرمی اسے غنائیت اور تاثیر بخشتے ہیں۔
6. اثر انگیزی:
یہ نظم صرف پڑھنے یا سننے کے لیے نہیں، بلکہ محسوس کرنے کے لیے ہے۔ اس میں جو سوز، درد، امید، اور انقلاب کی خوشبو ہے، وہ قاری کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” دو عشق” کے فکری و فنی جائزہ اور شاعر فیض احمد فیض کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.