آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” دو عشق” کے تمام اشعار پڑھیں گے اور اس سے اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری اور فنی جائزہ پیش کریں گے ان شاءاللہ ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقیٔ گلفام
وہ عکس رخ یار سے لہکے ہوئے ایام
وہ پھول سی کھلتی ہوئی دیدار کی ساعت
وہ دل سا دھڑکتا ہوا امید کا ہنگام
امید کہ لو جاگا غم دل کا نصیبہ
لو شوق کی ترسی ہوئی شب ہو گئی آخر
لو ڈوب گئے درد کے بے خواب ستارے
اب چمکے گا بے صبر نگاہوں کا مقدر
اس بام سے نکلے گا ترے حسن کا خورشید
اس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگ حنا کی
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اس راہ پہ پھیلے گی شفق تیری قبا کی
پھر دیکھے ہیں وہ ہجر کے تپتے ہوئے دن بھی
جب فکر دل و جاں میں فغاں بھول گئی ہے
ہر شب وہ سیہ بوجھ کہ دل بیٹھ گیا ہے
ہر صبح کی لو تیر سی سینے میں لگی ہے
تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دل زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردن مہتاب میں باہیں
(۲)
چاہا ہے اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہے یوں ہی شوق نے آسائش منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں
اس جان جہاں کو بھی یوں ہی قلب و نظر نے
ہنس ہنس کے صدا دی کبھی رو رو کے پکارا
پورے کیے سب حرف تمنا کے تقاضے
ہر درد کو اجیالا ہر اک غم کو سنوارا
واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
خیریت جاں راحت تن صحت داماں
سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی
اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس زنداں کبھی رسوا سر بازار
گرجے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ منبر
کڑکے ہیں بہت اہل حکم بر سر دربار
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.