نظم ” دل من مسافر من” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” دل من مسافر من” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

 نظم دل من مسافر من کا مرکزی خیال :

فیض احمد فیض کی نظم “مرے دل، مرے مسافر” جلاوطنی، جدائی اور بیگانگی کے جذبات کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں شاعر ایک مسافر کی طرح اپنے دل کو مخاطب کرتے ہوئے وطن سے دوری کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ نظم میں ہجرت کی اذیت، اپنے لوگوں سے بچھڑنے کا دکھ، اور شناسا جگہوں کے اجنبی بن جانے کا کرب نمایاں ہے۔

یہ نظم نہ صرف سیاسی جلاوطنی کی علامت ہے بلکہ ہر اس فرد کے جذبات کی ترجمان ہے جو اپنوں سے بچھڑ کر کسی بیگانہ دنیا میں تنہا کھڑا ہو۔ شاعر کے کرب اور بے بسی کی انتہا اس آخری شعر میں جھلکتی ہے جہاں وہ کہتا ہے کہ اگر یہ جدائی اور اذیت ایک ہی بار میں ختم ہو جاتی، تو مرنا بھی برا نہ لگتا۔

نظم کے ذریعے شاعر نے انسانی جذبات، جدائی کے کرب، اور نا آسودگی کو انتہائی سادہ مگر گہرے انداز میں بیان کیا ہے، جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ اس نظم ” دل من مسافر من” کے مرکزی خیال  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply