نظم ” دل من مسافر من” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” دل من مسافر من” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کا شاعر فیض احمد فیض ہے ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

 نظم دل من مسافر من کا خلاصہ :

فیض احمد فیض کی نظم “مرے دل، مرے مسافر” جلاوطنی، جدائی اور غم کی کیفیات کو بیان کرتی ہے۔ شاعر اپنے دل کو ایک مسافر کے طور پر مخاطب کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ دوبارہ حکم صادر ہوا ہے کہ وہ وطن سے جلاوطن ہو جائیں۔

وہ اپنے دل کو تلقین کرتا ہے کہ ہر گلی اور نگر میں آوازیں دے، شاید کسی شناسا کا سراغ مل جائے۔ لیکن وہ دیکھتا ہے کہ ہر کوئی اجنبی ہو چکا ہے، اور جو پتہ کبھی اپنا تھا، وہ اب نامعلوم ہے۔

نظم کے اگلے حصے میں شاعر تنہائی اور جدائی کی تلخیوں کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شبِ غم ایک بڑی مصیبت ہے اور اگر کوئی اس غم میں شریک ہوتا تو شاید کچھ تسلی ہوتی۔ آخر میں وہ کہتا ہے کہ مرنا بھی قابلِ قبول ہوتا، اگر یہ اذیت ایک بار میں ختم ہو جاتی، لیکن مسلسل جدائی اور غم سہنا ایک نہ ختم ہونے والا عذاب بن چکا ہے۔

یہ نظم ہجرت، جلاوطنی، اجنبیت اور جذباتی تکلیف کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کرتی ہے اور قاری کے دل پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” دل من مسافر من” کے خلاصے  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply