نظم ” دعا ” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” دعا” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

 نظم کا خلاصہ :

فیض احمد فیض کی یہ نظم “دعا” اجتماعی التجا اور انسانی دکھوں کا اظہار ہے۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جو روایتی دعاؤں سے مختلف ہے—یہ محض عبادت یا کسی ذاتی حاجت کی دعا نہیں، بلکہ ایک انسانی اور سماجی انقلاب کی تمنا ہے۔

نظم کا آغاز ایک خود احتسابی سے ہوتا ہے، جہاں شاعر کہتا ہے کہ وہ اور اس جیسے دوسرے لوگ رسمی دعاؤں سے ناواقف ہیں، مگر ان کے دل میں سوزِ محبت کے سوا کوئی اور عقیدہ موجود نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا مذہب محبت، انسان دوستی، اور سچائی پر مبنی ہے، نہ کہ رسمی عبادات پر شاعر دعا کرتا ہے کہ دنیا کی تلخیوں میں مٹھاس آ جائے، تاکہ لوگ امید سے جڑے رہیں۔

وہ لوگ جو زندگی کی سختیوں کو برداشت نہیں کر سکتے، ان پر بوجھ ہلکا ہو جائے۔

مایوس آنکھوں میں روشنی آئے، اندھیری راتوں میں کوئی چراغ جل جائے۔

بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ دکھائی دے، تاکہ وہ کسی سمت کا تعین کر سکیں۔

نظم کے اگلے حصے میں، شاعر معاشرتی جھوٹ، منافقت، اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ وہ دعا کرتا ہے کہ:

جھوٹ اور ریاکاری میں جکڑے ہوئے لوگوں کو تحقیق اور سچ کی جستجو نصیب ہو۔

جو لوگ ظلم اور جبر کے سامنے سر جھکائے بیٹھے ہیں، ان میں جبر کے خلاف لڑنے کی ہمت پیدا ہو۔

آخر میں، شاعر سچائی کے اظہار اور ضمیر کی خلش سے نجات کی دعا کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جو سچ دل میں چبھتا ہے، اسے کہہ دینا چاہیے تاکہ یہ خلش ختم ہو جائے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” دعا” کے خلاصے  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply