نظم ” دعا “

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” دعا” از فیض احمد فیض ، کے تمام اشعار کے بارے میں پڑھیں گے اور اس سے اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری اور فنی جائزہ پیش کریں گے ان شاءاللہ ۔

آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی

ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں

ہم جنہیں سوز محبت کے سوا

کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں

آئیے عرض گزاریں کہ نگار ہستی

زہر امروز میں شیرینی فردا بھر دے

وہ جنہیں تاب گراں باری ایام نہیں

ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے

جن کی آنکھوں کو رخ صبح کا یارا بھی نہیں

ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کر دے

جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں

ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کر دے

جن کا دیں پیروی کذب و ریا ہے ان کو

ہمت کفر ملے جرأت تحقیق ملے

جن کے سر منتظر تیغ جفا ہیں ان کو

دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

عشق کا سر نہاں جان تپاں ہے جس سے

آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے

حرف حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح

آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply