آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” تنہائی” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
خلاصہ کیا ہوتا ؟
خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔
اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔
یہ نظم فیض احمد فیض کی مشہور نظم “کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا” کا حصہ ہے، جو ایک گہری تنہائی، مایوسی اور انتظار کی کیفیت کو بیان کرتی ہے۔
نظم تنہائی کا خلاصہ :
نظم میں شاعر ایک ویران اور خاموش رات کی منظر کشی کرتا ہے، جہاں کسی کا انتظار کیا جا رہا تھا، لیکن وہ نہیں آیا۔ شاعر دل کو تسلی دیتا ہے کہ اب کوئی آنے والا نہیں، اور جو راہرو تھا، وہ کہیں اور نکل گیا۔
رات اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، ستارے مدھم ہونے لگے ہیں، اور چراغ بھی بجھنے کو ہیں، جیسے امیدیں ختم ہو رہی ہوں۔ راستے سنسان ہو چکے ہیں، اور انتظار کی تھکن نے ہر چیز کو مٹی میں چھپا دیا ہے۔
آخر میں شاعر زندگی کی حقیقت کو تسلیم کر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب روشنیوں کو گل کر دیا جائے، شراب کے جام بڑھا دیے جائیں، اور دروازے بند کر دیے جائیں، کیونکہ اب کوئی نہیں آئے گا۔
یہ نظم جدائی، ناامیدی، اور وقت کے ساتھ خوابوں کے بکھرنے کی علامت ہے۔ فیض کی شاعری میں یہ خاص بات ہے کہ وہ ذاتی درد کو اجتماعی غم سے جوڑ دیتے ہیں، اور یہاں بھی یہ نظم محبوب کے انتظار، یا کسی انقلابی تبدیلی کی امید کے ختم ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” تنہائی” کے خلاصے کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے جس کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.