نظم بڑے ڈرپوک ہو تارو کی تشریح

نظم بڑے ڈرپوک ہو تارو کی تشریح

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” بڑے ڈرپوک ہو تارو” کا مفہوم ، مشکل الفاظ کے معانی اور تشریح کریں گے ۔

بند نمبر 1

 !بڑے ڈرپوک ہو تارو

 !فقط شب کو نکلتے ہو

کبھی آنسو کی بھیگی مامتا میں

مہکتی چاندنی کی

اوڑھنی میں ۔۔۔۔۔۔ چھپ کے آتے ہو

کبھی تم

روشنی کی ان گنت میخوں کی صورت

تیرگی کے جسم میں پیوست ہوتے ہو

نہ جیتے ہو نہ مرتے ہو

مشکل الفاظ کے معانی : ڈرپوک (بزدل) ، تارو (ستاروں ) ،فقط (صرف ، محض ) ، شب (رات ) ، بھیگی (گیلی ، نم) ،  مامتا (ماں کی محبت)  مہکتی (خوشبو بکھیرتی) ،  چاندنی (چاند کی روشنی) ،  اوڑھنی (چادر ،  دوپٹہ) ،  میخوں (میخ کی جمع کیل) ،  تیرگی (اندھیرا) ،  پیوست ہونا (گڑ جانا ،  کھب جانا )

مفہوم :  اے ستاروں تم بہت بزدل ہو کیونکہ تم صرف رات کو نکلتے ہو ۔ کبھی مامتا کے آنسو اور چاندنی کی چادر میں چھپ کر آتے ہو ۔ روشنی کی بے شمار کیلوں کی مانند اندھیرے کے جسم میں پیوست ہو جاتے ہو ۔ زندہ رہتے ہو نہ مرتے ہو ۔

تشریح :  وزیر آغا جدید نظم گو شاعر ہیں ۔ وہ فطرتی حسن و اور قدرتی مناظر کے دلدادہ تھے ۔ ان کی شاعری ایک درد مند احساس ، فکر و عمل اور منفرد ذہن و دل کی عکاس ہے ۔ انھوں نے نظم میں نت نئے تجربات سے جدت پیدا کی ۔ ان کی شاعری میں موضوعات اور ہیئت کا حیرت انگیز تنوع ہے ۔ وسیع مشاہدے اور گہری نگاہ کی بدولت وہ ان چیزوں میں بھی حقیقت کی ایک دنیا دیکھتے ہیں ۔ جنھیں عام لوگ نظر انداز کر جاتے ہیں ان کا تخیل ایسے نقطے ابھارتا ہے کہ جن پر ادب ناز کر سکتا ہے ۔

نظم بڑے ڈرپوک ہو ہیئت کے لحاظ سے ایک آزاد نظم ہے ۔ آزاد نظم میں پابند نظم کی طرح قافیہ ، ردیف وزن اور بحر کی پابندی نہیں ہوتی ۔ مصرعے بھی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔  البتہ ان میں روانی اور موسیقیت موجود ہوتی ہے۔

تشریح طلب بند میں شاعر ستاروں کا سورج سے موازنہ کرتا ہے اور سورج کے مقابلے میں انہیں ڈرپوک کہتا ہے ۔ ستارے جو کروڑوں اور عربوں کی تعداد میں ہے لیکن اتنی کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود بھی وہ رات کے وقت نکلتے ہیں ۔ جب ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے ۔ اتنی کثیر تعداد کے باوجود وہ تاریکی کو شکست نہیں دے پاتے جبکہ سورج بہادر اور جری ہے وہ تن تنہا دن کو طلوع ہوتا ہے اور تاریکی کو شکست دے دیتا ہے ۔

بقول شاعر :

لاکھوں ستارے ایک طرف ظلمتِ شب جہاں جہاں

ایک طلوعِ آفتاب ، دشت و نگر سحر سحر

شاعر کہتا ہے کہ اے ستارو ! تم بہت ڈرپوک اور بزدل ہو ۔ تم چوروں کی مانند غروب آفتاب کے بعد صرف رات کے اندھیرے میں نکلتے ہو اور صبح کے وقت سورج کی شکل دیکھ کر چھپ جاتے ہو۔ تم سورج اور دن کے ہنگامے سے ڈرتے ہو ۔ اسی لیے رات کی خاموشی میں نکلتے ہو ۔ کبھی تم ماں کی نمناک آنکھوں میں آنسوؤں کی مالک دکھائی دیتے ہو جو اپنے بچے کو تکلیف میں دیکھ کر آنسو بہاتی ہے ۔ رات کے وقت عموماً شبنم پڑتی ہے جو آنسوؤں کی مانند دکھائی دیتی ہے ۔ شاعر مزید کہتا ہے اے ستارو!  کبھی تم خوشبو بکھیرتی چاندنی کی چادر میں چھپ کر باہر نکلتے ہو ۔ چودھویں رات میں چاند اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے ۔ چاند کی روشنی کی موجودگی میں ستارے عموماً کم ہوتے ہیں ۔ کوئی ایک آدھ ستارہ ہی فلک پر نمودار ہوتا ہے جو چاندنی کی چادر میں لپٹا ہوا دکھائی دیتا ہے یعنی چاند کی روشنی ستاروں پر اس طرح غالب ہوتی ہے کہ پوری طرح اپنی روشنی نہیں بکھیرنے بکھیر پاتے گویا چودھویں رات میں ستارے چاندنی کی قبا اوڑھ لیتے ہیں ۔

بقول علامہ اقبال :

  زمین سے دور دیا آسماں نے گھر تجھ کو

مثال ماہ اڑھائی قبائے زر تجھ کو

غضب ہے تیری ننھی سی جان ڈرتی ہے

تمام رات تیری کانپتے گزرتی ہے

شاعر مزید کہتا ہے کہ اے ستارو! کبھی تم رات کو جب چمکتے ہو تو ایسے معلوم ہوتا ہے گویا اندھیرے کہ جسم میں کسی نے بے شمار کیلیں ٹھوک دی ہیں  ۔ شاعر نے یہاں چمکتے ستاروں کو میخوں سے تشبیہ دی ہے یعنی رات کو چمکتے ستارے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے کسی تاریک جس میں سفید چمکتے کیلیں پیوست ہوں۔ شاعر مزید کہتا ہے کہ اے ستاروں تم روز ازل سے اسی طرح چمک رہے ہو صبح کو چھپ جاتے ہو اور رات کو پھر سے نکل آتے ہو ۔ نہ جیتے ہو نہ مرتے ہو یعنی نہ پوری طرح سے چھپتے ہو اور نہ پوری طرح سے باہر آتے ہو ۔

شاعر نے یہاں صنعت حسن تعلیل کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ۔ حسن تحلیل کے تحت شاعر کسی واقعے کو ایسی علت (وجہ ) بیان کرتا ہے جو حقیقت میں تو نہیں ہوتی لیکن خوبصورتی اور متاثر کن ہوتی ہے ۔ اگرچہ ستارے دن کے وقت بھی موجود ہوتے ہیں البتہ سورج کی روشنی کی وجہ سے نظر نہیں آتے لیکن شاعر کہتا ہے کہ ستارے ڈرپوک ہیں اس لیے وہ سورج سے ڈر کر چھپ جاتے ہیں اور صرف رات کی خاموشی میں باہر نکلتے ہیں ۔ شاعر دراصل یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ بہادر لوگ حالات کا مقابلہ کرنے سے نہیں گھبراتے خواہ وہ تنہا ہی کیوں نہ ہو جبکہ بزدل اور ڈرپوک لوگ کثرت میں ہونے کے باوجود حالات کی سختیوں اور شدت سے گھبرا جاتے ہیں اور خود کو حالات کے سپرد کر دیتے ہیں یا مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں ۔ ان کے ارادوں میں استحکام نہیں ہوتا ۔ وہ ہمیشہ متزلزل رہتے ہیں ۔

بقول حفیظ جالندھری :

ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں ، توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ایسا نہ ہو جائے

بند نمبر 2

 !بڑے ڈرپوک ہو تارو

کبھی دیکھا نہیں تم نے کہ دن

کتنا منور

کس قدر بے انت ہوتا ہے

کبھی دیکھا نہیں تم نے

وہ تارا

جو فقط دن کو نکلتا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : ڈرپوک( بزدل) ،  تاروں (ستاروں) ،  منور (روشن) ،  بے انت (جس کا کوئی خاتمہ یا کنارہ نہ ہو ،  لامحدود ) ، فقط (صرف)

مفہوم :  اے ستاروں تم بہت بزدل ہو تمہیں کبھی یہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا کہ دن کتنا روشن اور بڑا ہوتا ہے ۔ وہ ستارہ جو صرف دن کو نکلتا ہے تم نے نہیں دیکھا۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر ستاروں اور سورج کے موازنہ کرتا ہے اور ستاروں کو بزدلی کا طعنہ دیتا ہے کہ تم دن کو دن کے ہنگامے میں نہیں نکلتے بلکہ رات کی خاموشی میں نکلتے ہو ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے ستارو ! تم بہت ڈرپوک ہو اور بد نصیب ہو تمہیں کبھی دن کا اجالا دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا ۔ نہ تم نے کبھی یہ دیکھا کہ دن کی مسافت کتنی طویل ہے اور دن کا وقت کتنا روشن اور چمکدار ہوتا ہے ۔ دن کے وقت ایک بہت بڑا ستارہ طلوع ہوتا ہے جو بہت بہادر اور جری ہے۔  وہ تن تنہا نکلتا ہے ۔ شاعر کا اشارہ سورج کی جانب ہے ۔ سورج بھی ایک ستارہ ہے لیکن وہ صرف دن کے وقت طلوع ہوتا ہے ۔ سورج کی تیز روشنی کی وجہ سے آسمان کے دیگر ستارے چھپ جاتے ہیں ۔ سورج آسمان پر ایک ہی ہوتا ہے اور تمام دنیا کو روشن کرتا ہے ۔ وہ کسی کے ہمراہ نہیں نکلتا اور نہ کسی کی پناہ میں ڈر کے مارے چھپتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے ستارو ! افسوس تمہیں وہ بہادر ستارہ یعنی دن کا سورج دیکھنا کبھی نصیب نہیں ہوا کہ وہ کتنا منور اور روشن ہے ۔ شاعر نے یہاں حسن تحلیل کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے ۔ ستارے دن کے وقت بھی موجود ہوتے ہیں لیکن سورج کی روشنی کی وجہ سے نظر نہیں آتے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ستارے ڈرپوک اور بزدل ہیں وہ سورج سے ڈر کر چھپ جاتے ہیں اور صرف رات کی خاموشی میں باہر نکلتے ہیں ۔

بقول علامہ اقبال :

اجل ہے لاکھوں ستاروں کی ایک ولادت مہر

فنا کی نیند مے زندگی کی مستی ہے

تشریح طلب بند کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر یہ پیغام دیتا ہے کہ بہادر شخص تن تنہا ہو کر مشکلات ، مشکل حالات اور مصائب سے ڈر کر نہیں چھپتا بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے اور بالآخر کر تنہا ہونے کے باوجود ان پر غالب آ جاتا ہے ۔

بقول شاعر :

ہم وہ نہیں کہ جو حالات سے ڈر جاتے ہیں

بات کرتے ہیں تو پھر بات پہ مر جاتے ہیں

بند نمبر 3

چمکتی برچیوں سے لیس ہو کر

ایک سنہرا گرز اپنے ہاتھ میں لے کر

بہادر۔۔۔۔۔۔۔۔ سورما

تنہا گزرتا ہے

افق کی قوس سے

غم کی ، خوشی کی ، سرحدوں سے

بے خطر بڑھتا چلا جاتا ہے

آخر شام کے کہرام میں

منزل پہ اپنی جا پہنچتا ہے

بڑے ڈرپوک ہو تارو !

فقط شب کو نکلتے ہو

مشکل الفاظ کے معانی : چمکتی (روشن ) ، برچیوں (برچھی کی جمع چھوٹا نیزہ ) ، لیس ہونا (آراستہ ہونا  ، تیار ہونا) ،  گرز( گوپال ایک گول وزنی ہتھیار کا نام جس کے ساتھ دستہ لگا ہوتا ہے اسے دشمن کے سر پر مارا جاتا ہے،  پہلوانوں کو انعام میں بھی دیا جاتا ہے ) ، سورما( بہادر  ، جری) ،  افق( آسمان کا کنارہ) ،  قوس (کمان ، نیم دائرہ ، دائرے کا نصف حصہ) ،  کہرام (شور و غل ، ہنگامہ ہونا ، رونا پیٹنا)

مفہوم :  وہ بہادر سورما اپنی چمک دار برچیوں اور گرز  سے آراستہ ہو کر اکیلا آسمان کے کنارے سے غم و خوشی کی سرحدوں سے بے خوف آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔  آخر شام کے ہنگامے میں اپنی منزل پر پہنچتا ہے لیکن اے ستارو ! تم صرف رات کو نکلتے ہو تم بہت بزدل ہو ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر سورج کی شجاعت و دلیری کو بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے وہ بہادر اور جری چمک دار برچیوں سے مسلح ہو کر ہاتھ میں ایک طلائی وزنی گرز لیے تن تنہا فلک کے قوس نما کناروں سے نمودار ہوتا ہے ۔ جیسے کوئی بہادر جنگجو اسلحہ سے لیس ہو کر میدان جنگ میں داخل ہوتا ہے ۔ شاعر نے یہاں سورج کی روشن کرنوں کو چمکتی برچیوں اور سورج کی گولائی کو سنہرے گرز سے تشبیہ دی ہے ۔ آسمان کے مشرقی کنارے کو جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے افق کی قوس کہا ہے ۔ طلوعِ آفتاب کے وقت کسی بلند مقام پہاڑ وغیرہ پر کھڑے ہو کر مشرق کی سمت نظر دوڑائیں تو مشرق کا کنارہ نصف دائرے کی مانند دکھائی دیتا ہے ۔ جس کے درمیان سے سنہرا سورج طلوع ہو رہا ہوتا ہے ۔

شاعر کہتا ہے سورج دن کے وقت کرنوں کی برچھیاں اور ایک بہت بڑا سنہرا گرز لے کر اکیلا آسمان کی قوس سے نمودار ہوتا ہے۔  اس پر دنیا کی خوشی اور غم کچھ بھی اثر انداز نہیں ہوتا اور نہ اس کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے ۔ وہ بہادر جنگجو کی طرح بے خوف خطر آگے بڑھا چلا جاتا ہے اور آخر کار شام کے ہنگامے میں اپنی منزل یعنی مغربی افق پر جا پہنچتا ہے ۔

بقول شاعر :

اپنی منزل کو پا ہی لیتے ہیں

جن کو عادت نہ ہو سہاروں کی

آخر میں شاعر ستاروں کو ان کی بزدلی پر ملامت کرتا ہے اور کہتا ہے اے ستارو ! تم کتنے ڈرپوک اور بزدل ہو کہ تم صرف رات کی خاموشی میں اور تاریکی میں نکلتے ہو ۔ تم کثرت میں ہونے کے باوجود بھی سورج کی طرح بہادر نہیں ہو ۔

تشریح طلب بند کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاعر پیغام دینا چاہتا ہے کہ بہادر شخص کو کسی کا خوف نہیں ہوتا ۔ وہ کٹھن حالات سے نہیں گھبراتا اور نہ تنہا ہونے سے گھبراتا ہے بلکہ اکیلا ہونے کے باوجود خود اعتمادی سے بے خوف و خطر ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتا ہے ۔ اپنی صلاحیتوں سے دنیا کو نفع پہنچاتا ہے ۔ خوشی اور غمی کے لمحات میں بھی وہ اپنے مقصد اور اپنی منزل کو فراموش نہیں کرتا بلکہ مشکل مزاجی اور خود اعتمادی سے آگے بڑھتا رہتا ہے اور آخر کار اپنی منزل پر جا پہنچتا ہے ۔

بقول سلیم اللہ :

جو یقین کی راہ پہ چل پڑے انہیں منزلوں نے پناہ دی

جنہیں وسوسوں نے ڈرا دیا ، وہ قدم قدم پہ بہک گئے

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” بڑے ڈرپوک ہو تارو” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ

 


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply