نظم ” اے وادی لولاب” کی تشریح

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اے وادی لولاب” کی تشریح کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر علامہ محمد اقبال ہیں ۔

: اے وادی لولاب نظم کی تشریح

بند نمبر 1 : 

پانی تیرے چشموں کا تڑپتا ہوا سیماب

مرغان سحر تیری فضاؤں میں ہیں بےتاب

اے وادی لولاب

مشکل الفاظ کے معانی : سیماب ( پارہ) ،  مرغان (پرندے ) ، سحر (صبح ) ، بےتاب( بے چین) ،  فضا( ہوا )

مفہوم :  اے وادی لولاب تیرے چشموں میں پانی پارے کی طرح متحرک ہے ۔ تیری فضا میں صبح کے پرندے بے قرار ہیں ۔

تشریح  : علامہ محمد اقبال فطرت شناس شاعر ہیں ۔ وہ فطرت کے مناظر سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ کشمیر اقبال کے آباؤ اجداد کا علاقہ تھا ۔ اس لیے اقبال کو اس خطے سے خاص لگاؤ تھا ۔ اس کا اظہار اس نظم میں واضح محسوس کیا جا سکتا ہے ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس کو اس نظم کے کسی بھی  بند  کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب بند میں شاعر نے وادی لولاب کے حسن و جمال کو اپنے فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں تحرک اور جہد مسلسل کا پیغام دیا ہے ۔ مسلسل حرکت میں رہنا اور نئے جہان کی جستجو کرنا اقبال کے پسندیدہ موضوعات ہیں ۔ آپ نے زندگی کو حرکت سے تعبیر کیا ہے  ۔دائمی حیات کے لیے مستقل حرکت ضروری ہے ۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں :

چلنے والے نکل گئے ہیں

جو ٹھہرے ذرا وہ کچل گئے ہیں

علامہ اقبال وادی لولاب کے چشموں کے پانی کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ چشمے مسلسل رواں دواں ہیں ۔ ان کا پانی ٹھہرا ہوا نہیں ہے بلکہ مسلسل حرکت میں ہے ۔ شاعر نے ان چشموں کے پانی کو سیماب جیسا کہا ہے ۔ جس طرح پارہ سکون سے نہیں رہ سکتا اسی طرح یہ پانی بھی بے قابو اور  بے قرار ہے ۔ ان چشموں میں اضطراب کی سی کیفیت ہے جو حالت اس پانی کی ہے وہی اسے پینے والوں کی بھی ہوگی ۔ اقبال کشمیریوں کی جہد آزادی کے قائل تھے ۔ وہ اس پر غاصبوں کے قبضے کے سخت خلاف تھے ۔ اس لیے کشمیری جوانوں کی آزادی سے محبت اور بے تابی اقبال کو بہت بھاتی تھی ۔ آپ نے چشموں کے پانی کی بے تابی بیان کر کے درحقیقت اہل کشمیر کی بے قراری بیان کی ہے ۔ دوسرے مصرعے میں شاعر نے وادی لولاب کے پرندوں کی بے قراری کا ذکر کیا ہے ۔ جس طرح وہاں کے چشموں کا پانی بےتاب تھا اسی طرح وہاں کے پرندے بھی بے قرار ہیں ۔ وہ بھی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ اپنی بے تابی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پرندوں کی یہ بے قراری ان کی زندگی کا باعث ہے ۔

بند نمبر 2 : 

گر صاحب ہنگامہ نہ ہو ممبر و محراب

دیں بندہ مومن کے لیے موت ہے یا خواب

اے وادی لولاب

مشکل الفاظ کے معانی : صاحب ہنگامہ( انقلاب برپا کرنے والے) ،  ممبر (مسجد میں خطبہ کی جگہ)

مفہوم :  اگر ممبر و محراب کا وارث لوگوں کے دلوں میں انقلاب برپا نہیں کر سکتا تو اس کا دین اس کے لیے موت ہے یا پھر خواب ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر علماء اور اولیاء کرام کو حریت پسندی کا درس دینے اور ان لوگوں کو اس کے لیے ابھارنے کا کہہ رہے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر مساجد سے حریت کا نغمہ بلند ہوگا تو لوگ اس پر زیادہ توجہ دیں گے ۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ علماء لوگوں میں جذبہ جہاد پیدا کریں کیونکہ جہاد ایمان کی روح ہے ۔ ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں :

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

علامہ محمد اقبال کی نظر میں اس ایمان کی کوئی وقعت نہیں جس میں حریت اور جہاد کی تبلیغ نہ ہو ۔ اسلام میں آزادی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے ۔ اس لیے اسلام نے غلامی کا نظام ختم کر دیا ۔ جہاد مسلمان کی رگ رگ میں بسا ہونا چاہیے ۔

بقول شاعر :

یا تو غازی ہے یا شہید ہے

نہیں تیسرا کوئی راستا

مذہب اسلام میں علمائے کرام کو بہت زیادہ عزت و احترام دیا گیا ہے ۔ علماء کو انبیاء کرام کا وارث کہا گیا ہے ۔ جس قدر بلند مقام ہو ذمہ داری بھی اسی قدر بڑی ہوتی ہے ۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو جہاد کے اصل معنی و مفہوم بتائیں اور ان میں آزادی کی تڑپ بیدار کریں۔  اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو وہ اپنے منصب سے بے وفائی کرتے ہیں ۔ اس لیے اقبال کو مجاہد پسند ہے کیونکہ وہ جذبہ جہاد سے لبریز ہے جبکہ ملا صرف باتوں تک محدود ہو کے رہ جاتا ہے ۔

بقول علامہ محمد اقبال

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

اقبال فرماتے ہیں کہ وادی لولاب کے علما ء کو مسجدوں میں ایسے خطاب کرنا چاہیے کہ لوگ آزادی کے جذبے سے سر شار ہو کر وادی کو غلامی سے آزاد کروا لیں ۔ اگر علماء ایسا نہیں کرتے تو پھر ان کے ایمان کا کوئی بھروسا نہیں ۔ بزدلی ایمان کی موت ہے ۔

 بند نمبر 3 : 

ہیں ساز پہ موقوف نوا ہائے جگر سوز

ڈھیلے ہوں اگر تار تو بے کار ہے مضرب

اے وادی لولاب

مشکل الفاظ کے معانی : موقوف (بھروسا ، انحصار) ،  نوا (فریاد ،  پکار) ،  جگر سوز( جگر کو جلانے والی ، تڑپ پیدا کرنے والی) ،  مضراب( ایک طرح کے ساز کا نام) 

مفہوم: اے وادی لولاب آزادی کی تڑپ پیدا کرنے والا جذبہ رہنماؤں پر موقوف ہے ۔ اگر وہ سست پڑ جائیں تو آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر نے اپنے مقصد کے بیان کے لیے موسیقی کی اصطلاحات کا سہارا لیا ہے ۔  مضراب ایک مخصوص قسم کا ساز ہوتا ہے جس میں تار لگے ہوتے ہیں ۔ ان تاروں کے تناؤ کی وجہ سے آواز پیدا ہوتی ہے ۔ تار جتنے زیادہ تنے ہوں آواز اتنی ہی زیادہ پیدا ہوتی ہے ۔ اگر یہ تار ڈھیلے ہوں تو مضراب سے کوئی ساز پیدا نہیں ہوتا ۔ بالکل اسی طرح مسلمان کا ایمان اور جذبہ بھی مضراب کے تار کی طرح ہے اگر یہ مضبوط اور طاقتور ہوگا تو اس سے آزادی کا نغمہ گونجے گا ۔ اگر یہ کمزور ہوگا تو پھر اس سے ایسی کوئی بھی آواز آنا ناممکن ہے ۔

بقول اقبال :

غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں

جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

علامہ اقبال نے وادی لولاب کے عوام کو بالعموم اور وہاں کے رہنماؤں اور علماء کو بالخصوص خطاب کیا ہے ۔ آپ رہنماؤں اور علماء سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد پیدا کریں ۔ ان کی تقریر میں جتنی زیادہ قوت ایمانی ہوگی اتنا ہی اس کا اثر زیادہ ہوگا ۔ لوگ ان کے خیالات سن کر ان سے متاثر ہوں گے اور آزادی کے لیے کوشش کریں گے ۔ اگر خطیب کے لہجے میں توانائی نہ ہو تو اس کی بات لوگوں پر کوئی اثر نہیں کرتی ۔

بقول اقبال  :

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

پیامبر کے لیے خلوص نیت سب سے اہم چیز ہے ۔ اگر وہ قوم کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ ہوگا تو وہ ضرور آزادی کی امنگ پیدا کرے گا ۔ اگر علماء اپنے خطبات میں آزادی کی ضرورت و اہمیت اور جہاد کی فرضیت بیان کریں تو لوگوں کے دل جذبہ جہاد سے سرشار ہو جائیں گے ۔ اقبال لوگوں میں آزادی کا ایسا جذبہ چاہتے ہیں جو طوفان کی طرح ہر چیز کو تہس نہس کر دے ۔

بقول شاعر

شعلہ بن کر پھونک دے خواہشات غیر اللہ کو

خوف باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تو

بند نمبر 4 :

ملا کے نظر نور فراست سے ہے خالی

بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مٔے ناب

اے وادی لولاب

مشکل الفاظ کے معانی : نور فراست( دانائی کی روشنی ،  دور اندیشی) ،  میخانہ( شراب خانہ) ،  مۓ ناب (خالص شراب)

مفہوم :  ملا کی نظر دانائی کے نور سے خالی ہے اور صوفی کی خانقاہ میں بھی اب وہ تعلیم نہیں ہے جو قوت عمل پیدا کر سکے ۔

 تشریح : علامہ اقبال کو ظاہر پرست ملا اور صوفی سے شدید اختلاف تھا آپ ان سے نالاں تھے کہ وہ بظاہر عالم یا صوفی بنے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے علم سے لوگوں کو عمل کا درس نہیں دے سکتے ۔ ان کی بات میں کوئی لذت ہی نہیں کیونکہ وہ بے دلی سے بات کرتے ہیں ۔ اگر دل میں تڑپ ہو تو پھر زبان سے نکلنے والی بات بھی اثر رکھتی ہے ۔

بقول اقبال

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

علامہ اقبال وادی لولاب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں اے وادی لولاب تیرے علماء اور صوفی بے ذوق ہو چکے ہیں ۔ نہ تو علماء کے مدرسوں میں کوئی ایسا جذبہ موجود ہے جو لوگوں میں آزادی کی تڑپ پیدا کر دے اور نہ ہی صوفی کی خانقاہ میں ایسی کوئی تعلیم ہے جو لوگوں کو عمل کا درس دے سکے ۔ اقبال دونوں طبقات سے دل برداشتہ ہیں ۔ آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں : 

مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ  بادہ ناب

 نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے

تشریح طلب بند میں اقبال نے علم و عمل کی شراب کر ذکر کیا ہے کہ جسے پینے کے بعد بے خودی کی کیفیت طاری ہو جائے۔ قوموں کی بیداری میں علماء کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے ۔ یہ قوموں کی تربیت کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔ جس رخ پر چاہیں قوم کو ڈھال سکتے ہیں ۔ امت مسلمہ کے علماء قوت عمل سے بیگانہ ہو چکے ہیں اب ان کی تعلیم میں وہ جذبہ ہی نہیں کہ لوگوں میں ایمان کی حرارت پیدا کر سکے ۔ اب وہ تربیت قوم کے فریضہ سے غافل ہو چکے ہیں ۔ اہل مدرسہ اب بچوں کو جذبہ حریت کے بجائے غلامی کے فوائد سکھا رہے ہیں ۔ ایسے میں قوم کیسے بیدار ہو سکتی ہے ۔

بقول شاعر

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا

کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

ایک زمانہ میں خانقاہ مسلمانوں کے لیے تصوف کے مراکز تھے وہاں معرفت کی نایاب شراب ملتی تھی لیکن اس کے بعد یہ خانقاہیں صرف دکھاوے کی رہ گئیں ۔ اقبال اس وجہ سے اس خانقاہی نظام سے نالاں تھے کہ اس میں اب معرفت کی جگہ دکھاوا آ گیا ہے ۔ وہ لوگوں میں آزادی اور جہاد کی روح پھونکنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں ۔

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک

نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ

بند نمبر 5 : 

بیدار ہو دل جس کی فغان نے سحری سے

اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہیں نایاب

اے وادی لولاب

مشکل الفاظ کے معانی : بیدار ہونا (جاگنا ) ، فغان( فریاد) ،  سحر( صبح) ،  درویش (خدا رسیدہ ،  فقیر) ،  نایاب (نہ ملنے والا ،  کمیاب) 

مفہوم :  اے وادی لولاک جس مرد قلندر کی بات سے لوگوں کے دل بیدار ہو جائیں ۔ وہ مدت سے یہاں نظر نہیں آیا ۔

 تشریح  :  کلامِ اقبال میں مرد قلندر اور مرد حر اور مرد درویش کی اصطلاحات خاص انداز میں آئی ہیں ۔ آپ کی فکر میں مرد درویش ہی وہ ہستی ہے جو قوم کی بیداری میں کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ وہ دکھاوا نہیں کرتا بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لیے کام کرتا ہے ۔ اس کی فکر لوگوں کے دل پر اثر کرتی ہے اور ان میں جذبہ جہاد پیدا کرتی ہے ۔ وادی کشمیر کے حوالے سے اقبال بہت غمزدہ ہے کیونکہ وہاں اب کوئی ایسا درویش دکھائی نہیں دیتا جو اپنے خالص تصوف کی تعلیم سے لوگوں میں معرفت کا نور بھر دے ۔ اب خانقاہوں میں صرف دکھاوے کے صوفی بیٹھے ہیں ۔ ان کا کام لوگوں کو بھٹکانا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں: 

قم باذن اللہ کہہ سکتے تھے جو رخصت ہوئے

خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گور کن 

علامہ اقبال کسی ایسے مرد قلندر کی تلاش میں تھے جس کی ایک نگاہ تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ جو لوگوں کو غلامی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی دے سکے ۔ آپ اس بات سے پریشان ہیں کہ اب انہیں ایسا کوئی درویش نظر نہیں آتا ۔ آپ چاہتے ہیں کہ اب ملا اور صوفی حقیقی معنوں میں قوم کی اصلاح کے لیے کردار ادا کریں ۔

بقول شاعر : 

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری

کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری

علامہ اقبال کی نظر میں کشمیر کی غلامی کی اصل وجہ وہاں کے ملا لیڈر اور صوفی ہیں جو اپنے اصل مقصد سے ہٹ چکے ہیں کیونکہ وہ قوم کی بیداری میں ناکام ہو چکے ہیں اس لیے قوم غلامی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ افسوس در افسوس کے وادی لولاک کشمیر اب خدا شناس اور درویشوں سے خالی ہو چکی ہے ۔ علامہ اقبال ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : 

اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک

نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ،  نہ نگاہ

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” اے وادی لولاب” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply