آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اگر تو سیر کو نکلے” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر کا نام جوش ملیح آبادی ہے ۔
مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔
مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔
مرکزی خیال: نظم “تو اگر سیر کو نکلے” از جوش ملیح آبادی
جوش ملیح آبادی کی یہ نظم قدرت کی خوبصورتی اور اس میں پوشیدہ روحانی حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔ شاعر یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر انسان کائنات کے حسن و جمال پر غور کرے تو وہ اللہ کی عظمت اور اس کی قدرت کے آثار کو ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔ سورج، چاند، ستارے، دریا، پہاڑ اور دیگر قدرتی مناظر خالقِ کائنات کے وجود اور اس کی حکمت کے عکاس ہیں۔
نظم کا بنیادی خیال یہ ہے کہ فطرت کا مشاہدہ انسان میں خدا کی پہچان اور اس کی محبت پیدا کرتا ہے۔ جوش ملیح آبادی فطری مناظر کے ذریعے قاری کو دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ وہ دنیا کے حسن میں محض لطف نہ لے، بلکہ اس کے پس پردہ موجود خالق کی قدرت کو بھی سمجھے اور اس کی عبادت و شکر گزاری کی طرف مائل ہو۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ جوش ملیح آبادی کی نظم ” اگر تو سیر کو نکلے” کے مرکزی خیال کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.