آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اگر تو سیر کو نکلے” کے تمام اشعار پڑھیں گے ۔ اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے ان شاءاللہ ۔
تو اگر سیر کو نکلے تو اجالا ہو جائے
سرمئی شال کا ڈالے ہوئے ماتھے پہ سرا
بال کھولے ہوئے صندل کا لگائے ٹیکا
یوں جو ہنستی ہوئی تو صبح کو آ جائے ذرا
باغ کشمیر کے پھولوں کو اچنبھا ہو جائے
تو اگر سیر کو نکلے تو اجالا ہو جائے
لے کے انگڑائی جو تو گھاٹ پہ بدلے پہلو
چلتا پھرتا نظر آ جائے ندی پر جادو
جھک کے منہ اپنا جو گنگا میں ذرا دیکھ لے تو
نتھرے پانی کا مزا اور بھی میٹھا ہو جائے
تو اگر سیر کو نکلے تو اجالا ہو جائے
صبح کے رنگ نے بخشا ہے وہ مکھڑا تجھ کو
شام کی چھاؤں نے سونپا ہے وہ جوڑا تجھ کو
کہ کبھی پاس سے دیکھے جو ہمالہ تجھ کو
اس ترے قد کی قسم اور بھی اونچا ہو جائے
تو اگر سیر کو نکلے تو اجالا ہو جائے
امید ہے کہ آپ اس نظم کے اشعار پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری و فنی جائزہ بھی پیش کریں گے ۔
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.