نظم ” اپنی ملکہ سخن سے” کا فکری و فنی جائزہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کی نظم ” اپنی ملکہ سخن سے” کا فکری و فنی جائزہ اور ساتھ ساتھ شاعر کے حالات زندگی بھی پڑھیں گے ۔

جوش ملیح آبادی کی زندگی :

شبیر حسین نام اور جوش تخلص تھا۔ ۱۸۹۷ء میں ملیح آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم روایتی انداز میں ہوئی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدرآباد بعد چلے گئے اور وہاں علامہ اقبال کی سفارش پر عثمانیہ یونیورسٹی کے دارالترجمہ میں ملازمت مل گئی۔ دس سال کے بعد وہاں کے نواب نے انہیں ملک بدر کردیا اور آپ دہلی چلے آئے۔

دہلی میں آپ نے دریا گنج میں آفس کرائے پر لے کر رسالہ” کلیم“ جاری کیا جو کہ مقبول نہ ہو سکا۔ کچھ دنوں ”آج کل“ کے بھی مدیر رہے۔ آپ یہاں ہندو قوم کی جنونیت سے بہت نالاں تھے اس لیے تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے اور وہیں پر اسلام آباد میں ۱۹۸۲ء میں انتقال فرمایا۔

جوش ایک زمیندار خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ حسن پرستی، خود پسندی، انانیت اور سیما بیت جیسی جاگیردارانہ نظام کی خصوصیت انہیں ورثہ میں ملی تھی۔ جوش کی مذکورہ خصوصیت کا اثر ان کی شاعری میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان کی حسن پرستی نے انہیں شاہکار عشقیہ نظمیں لکھنے پر اکسایا تو ان کی انقلاب پسند اور باقی فطرت باغیانہ نظمیں لکھنے کی محرک بنی۔

جوش کی نظم نگاری

جوش کی شہرت کا باعث ان کی نظمیں ہیں۔ ان کے کلام کے بیسیوں مجموعے شائع ہو چکے ہیں جس میں ”روح ادب، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، آیت و نغمات، عرش و فرش، دیوان گویا، جنون و حکمت“ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔

جوش کی عشقیہ شاعری جو کہ ان کی فطرت کی آواز ہے، اس لئے اس میں بہت روانی، سرشاری اور سرمستی ملتی ہے۔ وہ بہت دلکش اور مؤثر انداز میں اس سے متعلق اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہیں اور حسن کی ہر ادا کی بڑی کامیاب اور رنگین تصویر پیش کرتے ہیں۔ لیکن جوش کی نظموں کا اثر لمحاتیہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک چوٹ کھایا ہوا دل نہیں رکھتے اور ان کی شخصیت سچے عاشق کی آگ میں نہیں تپی ہے۔

ان کا تصورِ عشق سطحی ہے اور وہ خلوص عشق کی گرمی سے محروم ہے۔ ان کا عشق لمحاتی اور حسن سے ان کا رشتہ وقتی ہوتا ہے۔ جوش اپنی نظموں کا تانا بانا بڑے خوبصورت انداز اور دلکش تشبیہات سے تیار کرتے ہیں لیکن ان کی نظموں میں پایا جانے والا لطف اندوزی اور لذتیت کا احساس ہمارے دلوں کو ان نظموں کے مجموعی تاثر سے اثر قبول کرنے سے باز رکھتا ہے۔ لیکن ہم جوش کی عشقیہ شاعری کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ان کی نظموں کی ایک تاریخی اہمیت ہے کہ ان کی نظموں نے قدیم اردو شاعری کے آہ و فغاں اور رونے بسورنے والے ماحول میں اپنے نشاطیہ لہجے سے اردو شاعری کی فضا یکسر بدل دی۔

نظم: “اپنی ملکہ سخن سے” از جوش ملیح آبادی – فکری و فنی جائزہ

جوش ملیح آبادی کو “شاعرِ آتش” کہا جاتا ہے، اور ان کی شاعری میں جوش، ولولہ، جذباتی شدت، اور فکری وسعت نمایاں ہوتی ہے۔ “اپنی ملکہ سخن سے” جوش کی ایک رومانوی اور تخیلاتی نظم ہے، جس میں شاعر نے اپنے جذبات و احساسات کو فکری گہرائی اور فنی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔

فکری جائزہ:

نظم میں شاعر اپنی “ملکہ سخن” یعنی محبوبہ کو خطاب کرتے ہوئے اس کے حسن و جمال، معصومیت، اور جادوئی تاثیر کا ذکر کرتا ہے۔ اس میں محبت کے جذبات، عقیدت، اور شاعر کی فکری گہرائی جھلکتی ہے۔

1. محبوبہ کا تصور:

شاعر اپنی محبوبہ کو ایک مثالی اور دیو مالائی کردار کے طور پر پیش کرتا ہے۔

وہ اس کے حسن اور سحر انگیزی کی تعریف کرتا ہے، جو اس کے تخیلاتی دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔

2. عشق کا جذبہ:

نظم میں محبت کا ایک پاکیزہ اور مثالی تصور موجود ہے۔

شاعر کی محبت صرف جذباتی نہیں بلکہ فکری بھی ہے، جہاں وہ محبوبہ کو اپنی شاعری کا مرکزی موضوع بنا کر اسے امر کر دیتا ہے۔

3. جدائی اور اداسی:

شاعر اپنی “ملکہ سخن” سے دوری اور اس کی کمی کو شدت سے محسوس کرتا ہے۔

نظم میں اداسی، تنہائی، اور ایک جذباتی خلش کا احساس موجود ہے، جو جوش کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ہے۔

فنی جائزہ:

1. الفاظ کا انتخاب:

جوش ملیح آبادی کے اسلوب کی سب سے بڑی خوبی ان کے الفاظ کا انتخاب ہے۔

ان کی زبان شستہ، رواں اور پُر تاثیر ہے، جو نظم کے جذبات کو مزید گہرائی عطا کرتی ہے۔

2. تشبیہات و استعارات:

نظم میں تشبیہات اور استعارات کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے، جو محبوبہ کے حسن اور شاعرانہ جمال کو نمایاں کرتے ہیں۔

“ملکہ سخن” خود ایک استعارہ ہے، جو شاعر کی شاعری کی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔

3. موسیقیت اور روانی:

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں نثر کی روانی اور غزل کی موسیقیت کا امتزاج نظر آتا ہے۔

اس نظم میں بھی الفاظ کی چاشنی اور آہنگ ایسا ہے کہ پڑھنے والا ایک وجدانی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

4. جذباتی شدت:

نظم میں جذبات کا بہاؤ شدید ہے، جو جوش کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔ وہ اپنے الفاظ کے ذریعے جذبات کو نہایت مؤثر انداز میں قاری تک پہنچاتے ہیں۔

نتیجہ:

“اپنی ملکہ سخن سے” جوش ملیح آبادی کی ایک جذباتی اور فکری طور پر گہری نظم ہے، جس میں شاعر نے اپنے محبوبہ کے حسن، اس کی غیر موجودگی کے درد، اور عشق کی شدت کو بہترین اسلوب میں پیش کیا ہے۔ فکری سطح پر یہ نظم محبت، عقیدت، اور شاعری کے تعلق کو بیان کرتی ہے، جبکہ فنی لحاظ سے اس میں جوش کی روایتی لفظی مہارت، تشبیہات، اور استعارات کی خوبصورتی نظر آتی ہے۔ یہ نظم جوش کی شاعری کی جذباتی گہرائی اور فکری وسعت کی ایک عمدہ مثال ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ جوش کے حالات زندگی اور ان کی نظم ” اپنی ملکہ سخن سے” کے فکری و فنی جائزہ کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply