نظم :
نظم کے لغوی معنی تنظیم اور ترتیب کے ہیں ۔ اصطلاحی لحاظ سے نظم شاعری کی ایک ایسی قسم ہے جو کسی ایک عنوان کے تحت کسی ایک موضوع پر لکھی جاتی ہے۔ نظم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں ہیئت کی کوئی قید نہیں ہے۔ یہ بحر اور قافیہ سے پابند بھی ہوتی ہے اور ان قیود سے آزاد بھی( آزاد اور پابند نظم ) ۔ اس میں مضامین کی وسعت ہوتی ہے۔ اس میں قوافی کا ایک معین نظام ہوتا ہے ۔
علامہ اقبال کی مشہور نظم کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
آزاد فکر سے ہوں عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو
لذت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں
چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو
گل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا
ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو
ہو ہاتھ کا سرہانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
مانوس اس قدر ہو صورت سے میری
ننھے سے دل میں اس کے کھٹکا نہ کچھ میرا ہو
اس نظم کو غور سے پڑھیں اور پھر دیکھیں کہ غزل اور نظم کا فرق کیا ہوتا ہے ۔
اس نظم کا باقاعدہ ایک عنوان ہے یعنی اس نظم کا نام ” ایک آرزو ” ہے ۔ اسی طرح اس کا مرکزی خیال بھی لکھا جا سکتا ہے ۔ یہ ساری نظم فطرت کے بارےمیں ہے جب کہ غزل میں ایسا نہیں ہوتا ۔ اب ہم غزل کی بھی وضاحت کریں گے ۔
غزل :
غزل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا۔ ہرن خوف کے عالم میں جب چیخ مارتا ہے اسے بھی غزل کہتے ہیں ۔ اس صنف کو غزل کا نام اس لیے دیا گیا کہ حسن و عشق ہی اس کا موضوع ہوتا تھا ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے ۔
غزل کی وضاحت:
1۔ غزل کا ہر شعر ایک اکائی ہوتا ہے ۔
2 ۔ پوری غزل ایک بحر میں ہوتی ہے ۔
3 ۔ غزل کا پہلا شعر مطلع ہوتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم کافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں ۔
4 ۔ غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص بیان کرتا ہے مقطع کہلاتا ہے ۔
5 ۔دیگر اشعار کا ہر دوسرا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے ۔
6 ۔ غزل میں ہم آواز الفاظ کو قافیہ جبکہ قافیہ کے بعد بار بار آنے والے الفاظ کو ردیف کہا جاتا ہے ۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کی ایک غزل ملاحظہ ہو:-
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
عزیز طلباء ابھی آپ نے اوپر نظم اور نظم کی وضاحت پڑھی ہے ۔ اب آپ غالب کی اس غزل کو غور سے پڑھیں اور اس میں سے مطلع ، مقطع ، ردیف اور قوافی( قافیہ کی جمع) الگ کریں نیز بتائیں کہ اس میں اور نظم میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ یہ غزل ہے نظم کیوں نہیں ؟
نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.