نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کا مرکزی خیال

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کا مرکزی خیال پیش کریں گے ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

نظم کا مرکزی خیال: اس نظم کا مرکزی خیال زندگی کی ناپائیداری، تنہائی، اور امید کے گرد گھومتا ہے۔ شاعر ایک ایسی کیفیت کو بیان کرتا ہے جہاں سب کچھ ویران اور بے معنی محسوس ہوتا ہے۔ نہ روشنی باقی ہے، نہ اندھیرا، نہ کوئی خوشی اور نہ ہی کوئی غم۔ یہ ایک ایسی بےحسی کی حالت ہے جہاں جذبات ماند پڑ چکے ہیں اور کوئی تعلق، محبت، یا دشمنی باقی نہیں رہی۔

لیکن نظم کا اختتام رجائیت (optimism) پر ہوتا ہے، جہاں شاعر خود کو اور دوسروں کو تسلی دیتا ہے کہ یہ مشکل وقت محض عارضی ہے۔ زندگی میں مشکلات آتی ہیں، مگر ان کا سامنا کرنا ضروری ہے، کیونکہ جینے کے لیے ابھی بہت وقت باقی ہے۔ اس طرح، نظم ہمیں ہمت اور صبر کے ساتھ آگے بڑھنے کا درس دیتی ہے ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کے مرکزی خیال  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply