نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” ” کا فکری و فنی جائزہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کا فکری و فنی جائزہ پیش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض کا تعارف بھی پیش کریں گے ۔

فیض احمد فیض کا تعارف:

 اقبال اور غالب کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر بلا شبہ فیض ہیں ۔

فیض احمد فیض کا شمار ان صاحب طرز ادیبوں اور شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے قلم اور شاعری کے ذریعے اردو ادب کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے-

وہ محبوب کی محبت سے لے کر زلف سیاہ اور ہجر و فراق کے تمام ادوار کو خوب صورت طریقے سے ادا کرنے میں مکمل مہارت رکھتے تھے، وہ کہنہ مشق شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اسلوب افسانہ نگار بھی تھے-

فیض ۱۳ ؍فروری؍ ۱۹۱۱ ء کو کالا قادر، ضلع نارووال، پنجاب برطانوی ہند میں سیالکوٹ کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے والد سلطان محمد خان علم دوست شخص تھے، آپ پیشے سے وکیل تھے، آپ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا-

۱۹۲۱ ء میں آپ نے سکاچ مشن اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کا امتحان پاس کیا، میٹرک کے بعد ایف اے کی تعلیم مرے کالج سیالکوٹ میں مکمل کی-

آپ کو علامہ اقبال کے استاد میر مولوی شمس الحق سے بھی شرف تلمذ حاصل ہے-

فیض نے ۱۹۴۱ء میں برطانوی خاتون ایلس جارج سے شادی کی، شیخ محمد عبد اللہ نے سری نگر میں آپ کا نکاح پڑھایا، فیض کی طرح ایلس بھی شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں، اور ان کی شاعری اور شخصیت سے متاثر تھیں-

۱۹۴۲ ء میں فیض نے کیپٹن کی حیثیت سے فوج میں شمولیت اختیار کی، ۱۹۴۳ ء میں میجر کے منصب پر فائز ہوئے، بعد ازاں ۱۹۴۴ ء میں آپ کو میجر سے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی.

۱۹۴۷ ء میں آپ پہلی کشمیر جنگ کے بعد فوج سے مستعفی ہوکر لاہور آ گئے- ۱۹۴۷ میں آپ نے پاکستان ٹائمز کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی-

فیض ایک متحرک اور فعال شخص تھے، انھوں نے غربت اور بھوک مری، بے روزگاری اور ظلم و استبداد کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی-

فیض ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر اردو کو متعارف کروایا اور انھیں کی کاوشوں سے اردو شاعری کمال کو پہنچی، فیض نے واضح کر دیا کہ سچی شاعری کسی ایک خطے یا زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی، بلکہ ہر دور اور ہر عصر کے لیے ہوتی ہے، انھوں نے اردو ادب میں ’’نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، شام شہر یاراں، میزان، سر وادیِ سینا اور متاع لوح و قلم‘‘ جیسے نظم و نثر کے کئی سارے خوب صورت ودلکش مجموعے یاد گار چھوڑے ہیں-

آپ کا وصال ۲۰ نومبر ۱۹۸۴ ء کو لاہور میں ہوا، اور وہیں گلبرگ کے قبرستان میں مدفون ہوئے- حکومت پاکستان نے آپ کو آپ کے وصال کے بعد نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا ۔

فیض کی شعری مہارت کے نمونے:

فیض! نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے

اپنا کیا، کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

ـــــــــــــــــــــــــــــ

نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں

اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں

 ـــــــــــــــــــــــــــــ

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

ـــــــــــــــــــــــــــــ

زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

ـــــــــــــــــــــــــــــ

وہ بات، سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

ـــــــــــــــــــــــــــــ

تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں

آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان

بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے

: نظم کا فکری و فنی جائزہ

فیض احمد فیض کی یہ نظم گہرے فلسفیانہ اور وجدانی خیالات کی آئینہ دار ہے، جس میں تنہائی، مایوسی، وقت کی ناپائیداری، اور زندگی میں امید کا عنصر نمایاں ہے۔

: نظم کا فکری جائزہ

یہ نظم انسان کے داخلی کرب اور خارجی ویرانی کا اظہار کرتی ہے۔ شاعر ایک ایسی کیفیت کو بیان کرتا ہے جہاں زندگی بے معنی اور بےحس محسوس ہوتی ہے۔ نہ دن کا اجالا ہے، نہ رات کا اندھیرا، یعنی زندگی کسی جذباتی رنگ سے محروم ہو چکی ہے۔

پہلے دو اشعار میں تنہائی اور ویرانی کا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے، جہاں نہ حسن کی کوئی جھلک باقی رہی ہے اور نہ ہی کوئی درد کا احساس۔

تیسرے اور چوتھے شعر میں شاعر اپنے ماضی کے تجربات کو ایک وہم یا سراب قرار دیتا ہے اور خوابوں کی موت کا نوحہ کرتا ہے۔

پانچویں شعر میں انسانی تعلقات کی ناپائیداری کو بیان کیا گیا ہے کہ نہ کوئی دوست ہے، نہ دشمن، ہر رشتہ اور ہر تعلق بے معنی ہو چکا ہے۔

آخری دو اشعار میں شاعر رجائیت (optimism) کا پہلو اجاگر کرتا ہے اور زندگی کی سختیوں کا سامنا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ کٹھن وقت عارضی ہے، اور ابھی پوری زندگی باقی ہے، جسے حوصلے سے جینا ہے۔

: نظم کا فنی جائزہ

1. لب و لہجہ:

نظم کا لہجہ شروع میں قنوطی (pessimistic) ہے، جو آخری اشعار میں رجائیت (optimistic) میں بدل جاتا ہے۔

2. اسلوب:

سادہ، رواں، اور جذبات سے بھرپور ہے۔

استعاراتی (metaphorical) اور تمثیلی (symbolic) انداز میں انسانی احساسات کی عکاسی کی گئی ہے۔

3. تشبیہات و استعارات:

“مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا” → یہاں وقت کے رُک جانے اور زندگی کی بےحسی کو ظاہر کیا گیا ہے۔

“آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن” → حسن اور خوابوں کی ناپائیداری کو ظاہر کرتا ہے۔

“گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا” → یادوں اور پرانے تعلقات کے اختتام کی علامت ہے۔

4. آہنگ (Rhythm):

نظم کا آہنگ نرم اور دلکش ہے، جو فیض کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے۔

5. صنعتِ تضاد (Antithesis):

“مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا” → متضاد الفاظ کا استعمال نظم کو مزید پُر تاثیر بناتا ہے۔

6. پیغام:

نظم قاری کو صبر، حوصلے، اور امید کا درس دیتی ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کے فکری و فنی جائزہ اور شاعر فیض احمد فیض  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply