نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

نظم کا خلاصہ: اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

یہ نظم فیض احمد فیض کی ایک گہری اور فلسفیانہ تخلیق ہے جو زندگی کی ویرانی، تنہائی، اور وقت کے تغیرات کو بیان کرتی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ اس وقت زندگی میں کچھ بھی باقی نہیں رہا—نہ روشنی، نہ اندھیرا، نہ خوشی، نہ غم۔ ماضی کے حسین لمحات اور تکلیف دہ یادیں سب معدوم ہو چکی ہیں۔

وہ اس تنہائی کو کسی دھوکے یا خواب کا آخری عکس قرار دیتا ہے، جہاں نہ محبت کا کوئی رشتہ باقی ہے اور نہ ہی دشمنی کی کوئی صورت۔ شاعر تسلیم کرتا ہے کہ یہ وقت سخت اور تکلیف دہ ہے، لیکن وہ دل کو تسلی دیتا ہے کہ یہ کیفیت عارضی ہے۔ جینے کے لیے ابھی پوری زندگی باقی ہے، اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا ضروری ہے۔

یہ نظم قنوطیت (pessimism) اور رجائیت (optimism) کے امتزاج کا خوبصورت اظہار ہے، جہاں شاعر وقتی مایوسی کے باوجود زندگی سے امید کا دامن نہیں چھوڑتا ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کے خلاصے  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply