آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” اس وقت تو یوں لگتا ہے” کے تمام اشعار پڑھیں گے اور اس کے بعد اگلی پوسٹ میں ہم اس نظم کا خلاصہ ، مرکزی خیال اور فکری اور فنی جائزہ پیش کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔
اس وقت تو یوں لگتا ہے اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
آنکھوں کے دریچوں پہ کسی حسن کی چلمن
اور دل کی پناہوں میں کسی درد کا ڈیرا
ممکن ہے کوئی وہم تھا، ممکن ہے سنا ہو
گلیوں میں کسی چاپ کا اک آخری پھیرا
شاخوں میں خیالوں کے گھنے پیڑ کی شاید
اب آ کے کرے گا نہ کوئی خواب بسیرا
اک بَیر، نہ اک مہر، نہ اک ربط نہ رشتہ
تیرا کوئی اپنا، نہ پرایا کوئی میرا
مانا کہ یہ سنسان گھڑی سخت کڑی ہے
لیکن مرے دل یہ تو فقط اک ہی گھڑی ہے
ہمت کرو جینے کو تو اک عمر پڑی ہے
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.