آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” آزادی” کا تشریح پڑھیں گے ۔
نظم “آزادی” کی تشریح:
شعر نمبر 1 :
عبادت ہے سراپا جذبہ تعمیر آزادی
شہادت مستقل ایک سرخی تحریر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : سراپا (مکمل طور پر سراسر) ، جذبہ تعمیر آزادی (آزادی کی تعمیر کا شوق ، شہادت) ، قربانی ( جان قربان کرنا) ، مستقل (ہمیشہ کے لیے) ، سرخی تحریر آزادی ( آزادی کے مضمون کا عنوان ہے ، ہیڈنگ )
مفہوم : آزادی کے حصول کا شوق سراسر عبادت ہے ۔ آزادی کے مضمون کا عنوان بنیادی طور پر قربانی ہے ۔ تشریح : احسان دانش نے اس نظم میں آزادی کے جذبے اور آزادی کے فوائد و ثمرات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ برصغیر کے مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ انہیں ایک ایسا ملک میسر آ سکے جس میں انہیں معاشی ، سماجی ، معاشرتی اور سیاسی حوالے سے آزادی میسر ہو اور ترقی کے مواقع میسر آ سکیں ۔ انہیں تقریر و تحریر اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ہو جو انگریز اقتدار میں ممکن نہ تھی لیکن بدقسمتی سے انگریزوں سے آزادی کے بعد بھی ملک عزیز میں عوام الناس کو تقریر و تحریر اور اظہار رائے کی مکمل آزادی میسر نہ ہو سکی گویا انگریز کی غلامی کے بعد اب ملک اشرافیہ کے غلامی میں مبتلا ہے ۔
نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آزادی کے حصول کا جذبہ سراسر عبادت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے ۔ کوئی بھی دانشمند اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ کسی کی آزادی سلب کرنا ایک سنگین جرم ہے چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ آزادی کے حصول کا شوق اور جذبہ بی عین عبادت ہے اور نیکی کا کام ہے اس مقصد کے لیے ہر طرح کا جہاد چاہے وہ جان کے ذریعے ہو یا زبان کے ذریعے ہو یا قلم کے ذریعے ہو عین عبادت ہے ۔ مشہور عربی مقولہ ہے ” حب الوطنی من الایمان وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے”
ظالم کے خلاف کلمہ حق کہنا اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا انسان کا بنیادی اور اخلاقی حق ہے ۔ اس مقصد کے حصول کی جدوجہد میں اگر موت بھی آ جائے تو وہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوتا ہے ۔ الغرض دونوں صورتوں میں اس کا جذبہ رائیگاں نہیں جاتا ۔
بقول شاعر :
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
فیض احمد فیض
دوسرے مصرعے میں شاعر کہتا ہے شہادت اور قربانی آزادی کے مضمون کا ایک مستقل عنوان ہے ۔ آزادی کی عبارت ہمیشہ شہیدوں کے خون سے لکھی جاتی ہے ۔ قربانی کے بغیر آزادی کا حصول ممکن نہیں ۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد بغیر قربانی بغیر خون بہائے اور جان قربان کیے بغیر حاصل نہیں ہوتا ۔ کسی بھی اعلیٰ مقصد کے حصول کے لیے انسان کو جان ، مال اور وقت کی قربانی دینی پڑتی ہے ۔ قربانی سے دوسرے لوگوں کا جذبہ آزادی بھی بلند ہو جاتا ہے اور وہ بھی آزادی کے حصول کے لیے اپنا تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔ آخر کار شہیدوں کا لہو رنگ لاتا ہے اور قوم ایک دن آزادی کے حصول میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔
بقول شاعر :
شہیدوں کے لہو سے جو زمین سیراب ہوتی ہے
بڑی زرخیز بہت شاداب ہوتی ہے
اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
شعر نمبر 2 :
جہاں آزاد کر سکتے نہ ہوں تقریر آزادی
وہ آزادی میری نظروں میں ہے تحقیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : تقریر آزادی (آزادی کے موضوع پر گفتگو) ، تحقیر آزادی (آزادی کی ذلت ، بے قدری ، بے حرمتی )
مفہوم : جہاں آزاد لوگ آزادانہ اظہارِ رائے نہ کر سکتے ہوں میری نظر میں وہ آزادی نہیں بلکہ آزادی کی بے حرمتی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ کہنے کو تو ہم نے انگریزی اقتدار سے آزادی حاصل کر لی ہے لیکن ابھی تک ہم مکمل طور پر آزاد نہیں ہیں ۔ ہمارے مخلص رہنماؤں میں سے کچھ طبعی موت وفات پا گئے کچھ کو قتل کروا دیا گیا ۔ اس کے بعد ملک پر ایسے لوگ قابض ہو گئے جنہوں نے عوام سے ان کی آزادی سلب کر لی ان کے حقوق کا استحصال کیا اور ان کی بنیادی ضروریات سے بھی انہیں محروم کر دیا گیا ۔ عوام میں جن لوگوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی ان کی زبان بند کر دی گئی اور انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ کہنے کو یہ آزاد ملک ہے لیکن یہاں عوام الناس کو اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ۔ حکمران طبقہ جو چاہتا ہے صرف وہی کچھ کہا اور لکھا جا سکتا ہے ۔
بقول شاعر :
وہ جو خواب تھے میرے ذہن میں نہ میں کہہ سکا نہ میں لکھ سکا
کہ زبان ملی تو کٹی ہوئی کہ قلم ملا تو بکا ہوا
شاعر کہتا ہے میری نظر میں یہ آزادی نہیں ہے بلکہ آزادی کی تحقیر ہے ۔ آزادی کی ناقدری اور بے حرمتی ہے ۔ آزاد ملک کے باشندوں کو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی میسر ہوتی ہے ۔ یہ ان کا بنیادی حق ہوتا ہے ۔
شعر نمبر 3 :
مجھے ہر نامناسب بات پر تنقید کا حق ہے
میری تقریر سے تعبیر ہے تعمیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : نامناسب (غیر مہذب ، نازیبا ) ، تنقید (نقطہ چینی ، عیب بتانا برا بھلا اور صحیح غلط بتانا) ، تعمیر آزادی ( آزادی کی تعمیر )
مفہوم : ہر نامعقول بات پر تنقید میرا حق ہے ۔ میری تقریر میں آزادی کا مفہوم پوشیدہ ہے
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں ظلم و ستم پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ ہر سلیم الفطرت شخص نامناسب بات پر اس کی خامی کی نشاندہی کرتا ہے اور اس کی غلطی واضح کرتا ہے تاکہ اسے درست کیا جا سکے ۔ چنانچہ میں بھی حکومت کی ہر ناجائز پالیسی جو عوام الناس کی حق تلفی پر مبنی ہوتی ہے اور ہر نامعقول حکم پر سراپہ احتجاج ہوتا ہوں کیونکہ مجھے اپنے حقوق کا ادراک ہے ۔ ہر شہری کو حکومت کی نامناسب اور ناجائز پالیسیوں پر تنقید کا مکمل حق ہے ۔ چنانچہ میں بھی اسی حق کو استعمال کرتا ہوں اور حکومت وقت کو صحیح اور غلط بتاتا ہوں ۔ میری تقریر اور میری گفتگو میں دراصل آزادی کا مفہوم پوشیدہ ہے ۔ یہ آزادی کے حصول کی جانب ہی پہلا قدم ہے ۔
بقول شاعر:
ہر حال میں حق بات کا اظہار کریں گے
ممبر نہیں ہوگا تو سر دار کریں گے
شعر نمبر 4 :
مجاہد کوہ و دریا کی حدوں میں رہ نہیں سکتے
ہماری جنگ ہوگی جنگ عالمگیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : مجاہد (جہاد کرنے والا) ، کوہ و دریا (پہاڑ اور دریا ) ، حدوں (رکاوٹوں) ، جنگ عالمگیر (عالمی جنگ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی جنگ )
مفہوم : آزادی کے مجاہدوں کی راہ میں پہاڑ اور دریا حائل نہیں ہو سکتے ۔ ہماری آزادی کی جنگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آزادی کی جنگ کے مجاہد بہادر اور نڈر ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے مقصد کے حصول سے کوئی چیز نہیں روک سکتا ۔ ہمارے راستے میں تپتے صحرا اور لق و دق میدان آ جائیں ۔ سیلاب اور طوفان رکاوٹ بننا چاہیں یا وسیع و عرض دریا بے کراں سمندر اور بلند و بالا پہاڑ حائل ہو جائیں پھر بھی آزادی کے مجاہدوں کی کے قدم نہیں رکیں گے ۔ ہم رکاوٹوں کو خاطر میں لائے بغیر آگے بڑھتے رہیں گے ۔ راستہ کتنا ہی کٹھن اور دشوار گزار کیوں نہ ہو ہم آگے بڑھتے رہیں گے ۔ بقول شاعر :
ہم نے روندا ہے بیابانوں کو صحراؤں کو
ہم ہیں بڑھتے ہیں تو بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں
ہم سے واقف ہیں یہ دریا یہ سمندر یہ پہاڑ
ہم نئے رنگ سے تاریک کو دہراتے ہیں
سیف الدین سیف
الغرض کوئی بھی رکاوٹ ہمیں نہیں روک سکتی اور کوئی بھی مشکل اور مصیبت ہمیں کمزور نہیں کر سکتی ۔ آہستہ آہستہ ہماری یہ آزادی کی جنگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی ۔ ہر شہر ، ہر گاؤں ، ہر قریہ آزادی کے نعروں سے گونج اٹھے گا ۔ پوری دنیا میں جہاں کہیں ظلم و جبر اور استحصالی ہوگی ہماری یہ جنگ وہاں تک ضرور پہنچے گی اور اقوامِ عالم کو آزاد کروائے گی ۔
شعر نمبر 5 :
غلامی کے دھوئیں اڑنے لگے بہروپیے کانپے
فضاؤں میں جو گونجا نالہ شب گیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : دھواں اڑنا( برباد ہونا ، ختم ہونا) ، بہروپیے ( دھوکہ باز ، فریب کار جنہوں نے بیس بدل رکھا ہو) ، کانپنا( لرزنا ، ڈرنا ) ، گونجنا (شور بلند ، شور ہونا ) ، نالہ شب گیر (رات کے وقت کی جانے والی آہ و فغاں)
مفہوم :فضاؤں میں جب آزادی کا نغمہ گونجا تو غلامی کے دھوئیں اڑنے لگے اور فریب کار خوف سے لرزنے لگے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عوام الناس میں شعور بیدار ہو رہا ہے اب آزادی کا نغمہ فضاؤں میں دن رات گونج رہا ہے آزادی کے متوالے آزادی کے حصول کے لیے رات دن نعرے لگاتے ہیں ۔ رات کو خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں اور دن میں اصول ازادی ازادی کے لیے جدوجہد میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ چنانچہ اب غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کا وقت آ گیا ہے ۔ اب غلامی کے دھوئیں اڑنے لگے ہیں ۔ غلامی اب ختم ہونے کو ہے ۔ وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ چنانچہ فریب کار اور دغا باز لوگ خوف سے لرزنے لگے ہیں ۔ جنہوں نے دھوکہ دہی سے عوام کو غلام بنایا ہوا تھا ۔ اب وہ اپنے انجام سے خوف کھانے لگے ہیں
بقول شاعر :
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
فیض احمد فیض
شعر نمبر 6 :
جو کہنا تھا اسے سب کہہ گیا قرآن کے پردے میں
زمانہ حشر تک کرتا رہے تفسیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : قرآن کے پردے میں( قرآن میں پوشیدہ) ، حشر (قیامت) ، تفسیر( تشریح ، وضاحت ، تفصیل )
مفہوم : خدا نے آزادی سے متعلق قرآن میں سب کچھ بیان کر دیا ہے ۔ اب دنیا قیامت تک آزادی کی تفسیر کرتی رہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ خدا نے قران کی صورت میں سب کچھ بیان کر دیا ہے ۔ اب قیامت تک دنیا آزادی کی تشریح و تفسیر کرتی رہے گی ۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ہدایت کے لیے اپنے رسولوں پر کتابیں نازل فرمائی ۔ آخری کتاب قرآن آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی جو کہ قیامت تک کے لیے بھٹکے لوگوں کی رہنمائی کا کام دیتی رہے گی ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو کفر و شرک کے اندھیروں سے نکلنے اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نکلنے کی ہدایت فرمائی ہے نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا میں انسانوں کو غلام بنا کر فروخت کیا جاتا تھا ۔ قران نے یہ تعلیم دی ہے کہ آزادی سب سے بڑی نعمت ہے اس لیے لوگوں کی گردنیں چھڑواؤ اور انہیں آزاد کراؤ ۔ دوسرا یہ کہ خدا خود بھی دین میں زبردستی نہیں کرتا بلکہ لوگوں کو آزادی دیتا ہے کہ جو چاہے اچھائی کی راہ اختیار کرے اور جو چاہے برائی کی راہ اختیار کرے ۔ اللہ نے ہدایت بالکل واضح کر دی ہے ہر شخص کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہے منتخب کرے ۔ دین میں کوئی جبر نہیں قیامت تک اس کی آزادی کی تشریح و تعبیر اور تفسیر ہوتی رہے گی ۔
شعر نمبر 7 :
لہو برسا ، بہے آنسو لٹے رہرو ، کٹے رشتے
ابھی تک نامکمل ہے مگر تعمیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : لہو برسا( بہت زیادہ خون بہا ، قتل و غارت ہوئی) ، رہرو( مسافر) ، کٹے رشتے (رشتے ناطے اور تعلقات ٹوٹ گئے) ، تعمیر آزادی (حقیقی آزادی کا حصول)
مفہوم : ہمارے آباؤ اجداد نے آزادی کے حصول کے لیے بہت قربانیاں دیں اور مصیبتیں برداشت کیں لیکن ابھی تک ہم مکمل آزادی حاصل نہیں کر پائے ۔ تشریح : تشریح طلب شرر میں شاعر آزادی کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا تذکرہ کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے آزادی جیسی نعمت کے حصول کے لیے بے شمار قربانیاں دیں تھیں ۔ ہمارے شہیدوں کے خون سے اس ملک کی تعمیر ہوئی تھی ۔ ہماری ماؤں نے اپنے بیٹے قربان کیے تھے ۔ تقسیمِ ہند کے وقت بے تحاشا خون بہایا گیا تھا ۔ ہندوؤں نے بے دریغ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا ۔ ہجرت کر کے آنے والے قافلوں کو لوٹا گیا ۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے ۔ ہزاروں بچے یتیم ہوئے ۔ ہزاروں ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ۔ رشتے ناطے اور تعلقات کٹ گئے ۔ تب کہیں جا کر یہ آزاد ملک آزاد ہوا تھا لیکن ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ جس آزادی کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا وہ اب تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ ابھی تک ہم مکمل طور پر آزادی حاصل نہیں کر پائے ۔ ہم پر آج بھی بیرونی طاقتیں مسلط ہیں جس کی وجہ سے آزادی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے ۔ ہم برطانیہ کے غلامی سے نکل کر امریکہ کی غلامی میں چلے گئے ۔ ہمارے حکمران امریکی غلام بن کر رہ گئے ۔ ہمارا ملک ہماری سیاست اور ہماری معیشت اغیار کے رحم و کرم پر ہے ۔ ابھی تک ہم حقیقی آزادی حاصل نہیں کر پائے ۔
بقول شاعر :
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہے زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
انھیں اقوام کے رحم و کرم پر اب بھی جیتے ہیں
غرورِ حریت نے جن سے حاصل کی تھی آزادی
ہمارے ملک میں بھی حکمران طبقہ عوام کو غلام بنائے رکھتا ہے اور انہیں آزادی کی سانس نہیں لینے دیتا ۔ اپنے ملک میں بھی تقریر و تحریر پر قدغن ہے اور پابندیاں عائد ہیں۔
شعر نمبر 8 :
تعجب ہے غلامی کے شبستانوں کی زینت ہے
کھینچی ہے جو ہمارے خون سے تصویر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : تعجب( حیرانی ، حیرت) ، شبستانوں ( خواب گاہوں ، آرام گاہوں ) ، زینت (سجاوٹ ، خوبصورتی ) ، کھینچی( مراد بنی ہے) مفہوم : حیرت کی بات ہے کہ ہمارے خون سے جو آزادی کی تصویر بنی تھی آج وہ غلامی کی خواب گاہوں میں آویزاں ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہم نے آزادی کے حصول کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں ۔ خون ہمارا بہا ، رشتے ہمارے کٹے ، قافلے ہمارے لٹے ، آنسو ہمارے بہے لیکن آج تک ہمیں حقیقی آزادی میسر نہیں آئی ۔ ہماری قربانیوں کے عوض جو آزادی ملی تھی اس پر مفاد پرست قابض ہو گئے۔ بقول شاعر:
جب بھی اہل چمن کو ضرورت پڑی خون ہم نے دیا گردن پیش کیں
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
وطن پر قابض حکمران جنہوں نے آزادی کے لیے ایک قطرہ بھی نہیں بہایا اور جو عالمی قوتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں آج وہ دعویٰ دار ہیں کہ آزادی انہوں نے دلوائی تھی مزید یہ کہ ان بادشاہوں کے محلات میں آزادی کا وہ تصور جو ہم نے سوچا تھا ناپید ہے ۔ ان محلات میں غلامی کا تصور ابھی بھی قائم ہے ۔ یہ آج بھی بیرونی طاقتوں کے غلام ہیں اور ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔ حکمران طبقہ اغیار کے سامنے سر نگوں ہو گیا ہے۔ یوں ہماری آزادی کا خواب محض خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ ہم نے آزادی کے حصول کے لیے ہزاروں قربانیاں دیں مگر آج اس ملک پر ہمارا حق تسلیم نہیں کیا گیا ۔ یہاں ہماری مرضی کے مطابق قوانین نہیں بنائے جاتے ۔ ہماری حکومت ہماری سیاست اور ہماری معیشت سب اغیار کے رحم و کرم پر ہے ۔ جس مقصد کے لیے ہم نے گردنیں کٹوائیں وہ آج بھی پورا نہیں ہو سکا ۔ ہمارے ملک پر بیرونی قوتوں کے غلام قابض ہیں ۔
بقول شاعر :
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
فیض احمد فیض
شعر نمبر 9 :
غلام ابن غلام اپنی وراثت کیوں سمجھتے ہیں
ہوئی ہے جب ہمارے نام پر تعمیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : غلام ابن غلام (غلام باپ کا غلام بیٹا) ، وراثت( ترکہ آباؤ اجداد سے ملنے والا سرمایہ)
مفہوم : جب آزادی ہمارے نام پر تعمیر ہوئی ہے تو یہ غلام ابن غلام اسے اپنی وراثت کیوں سمجھتے ہیں ۔ تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہم نے آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دیں جس طرح ایک مکان کی تعمیر میں اینٹ گارا اور پانی استعمال ہوتا ہے اسی طرح اس ملک کی تعمیر میں ہمارے شہیدوں کا خون اور ان کی ہڈیاں شامل ہیں ۔ ہم تھے جو بے گھر ہوئے جنہوں نے بیٹے قربان کروائے رشتے ناطے چھوڑے تکلیفیں اٹھا کر اور مشقتیں جھیل کر بالاخر ایک آزاد ملک حاصل کیا لیکن آج ہمیں اس آزادی کے ثمرات سے محروم کیا جا رہا ہے ۔ ہمیں ہمارے بنیادی حقوق میسر نہیں یہاں حق بات کہنے پر بھی قدغن ہے ۔ ہمارے ملک پر اور ہماری آزادی پر ایسے لوگ قابض ہو گئے ہیں جو جدی پشتی غلام ہیں ۔ ان کے آباؤ اجداد کل برطانیہ کے غلام تھے آج وہ خود امریکہ کے غلام ہیں ۔ یہ غلام ابن غلام ہمارے خون سے تعمیر ہونے والے ملک کو اپنی جاگیر اور وراثت سمجھتے ہیں ۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے یہ آزادی ہمارے خون سے تعمیر ہوئی تھی ۔ ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ ایک دن ہم اپنی حقیقی آزادی حاصل کر لیں گے اور ان جیسے ابن الوقت اور چڑھتے سورۃ کے پجاریوں کو ملک سے نکال باہر کریں گے ۔ بقول شاعر :
ابھی چراغ سیر راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
فیض احمد فیض
شعر نمبر 10 :
رہے گا دین فطرت پھیل کر اقصائے عالم میں
نہیں ہے یہ خط سرحد ، خط تقدیر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : دین فطرت( فطرت کے قوانین پر مبنی مذہب) ، اقصائے عالم (دنیا کے کنارے مراد پوری دنیا) ، خط تقدیر ( قسمت کا لکھا)
مفہوم : دین فطرت پوری دنیا میں پھیل کر رہے گا ۔ آزادی کی تقدیر کا خط ملک کی سرحد کی طرح نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے ۔ یہ فطرت کے قوانین کے عین مطابق ہے ۔ ایک دن آئے گا جب یہ دین فطرت پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔ ہر کچے پکے گھر ہر بستی قریہ اور گاؤں تک خدا کا یہ آخری پیغام پہنچ کر رہے گا ۔ ایک دن ساری دنیا اس دین کے ماننے والی اور اس کی اطاعت کرنے والی ہوگی ۔ یہ بات پوری ہو کر رہے گی ۔ آزادی کے جذبے کو سرحدوں میں مقید نہیں کیا جا سکتا ۔ دین اسلام فطرت ہے اور آزادی انسان کا فطرتی حق ہے ۔ اسلام انسانوں کے اس حق کی قدر کرتا ہے اس لیے جب دین فطرت یعنی اسلام دنیا کے ہر کونے تک پہنچے گا تو آزادی کا جذبہ بھی پوری دنیا میں پھیل جائے گا ۔
شعر نمبر 11 :
تڑپ کر بزم میں دانش چلے آئے ہیں پروانے
اندھیروں سے مگر پھوٹی نہیں تنویر آزادی
مشکل الفاظ کے معانی : تڑپ کر ( بے قرار ہو کر مراد تکلیف اٹھا کر ) ، بزم ( محفل مراد پاکستان) ، پروانے (پتنگے مراد آزادی کے دیوانے) ، پھوٹنا (ظاہر ہونا) ، تنویر آزادی (آزادی کی کرن ، آزادی کی روشنی) مفہوم : آزادی کے متوالے تکلیفیں جھیل کر پاکستان میں چلے آئے ہیں لیکن غلامی کے اندھیروں سے ابھی تک آزادی کے کرن نہیں پھوٹی ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آزادی کے پروانے اور آزادی کے دیوانوں نے آزادی کے حصول کے لیے تکلیفیں اٹھا کر اور قربانیاں دے کر پاکستان حاصل کیا تھا اور مشقتیں جھیل کر ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد ہی یہاں کے جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور وڈیروں نے پورے ملک کو اپنے اثر و رسوخ میں لے لیا اور ہر شخص کو غلام بنا لیا ۔ انہوں نے کبھی نہیں چاہا کہ عوام کو حقیقی آزادی میسر آئے ۔ چنانچہ بظاہر تو ہم نے آزادی حاصل کر لی لیکن حقیقت میں ہم ابھی تک غلام ہیں ۔ ان غلامی کے اندھیروں سے ابھی تک حقیقی آزادی کی کرن نہیں پھوٹی ۔
بقول شاعر :
ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہے زنجیریں غلامی کی
دن آ جاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی
آزادی کے پروانے اور دیوانے تڑپ رہے ہیں اور نہایت بے قرار و بے چین ہیں ۔ جس طرح پروانے اور پتنگے شمع کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں اسی طرح یہ آزادی کے دیوانے اور پروانے بھی آزادی کی شمع کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لیے تڑپ رہے ہیں ۔ یہ دیوانے اور پروانے سر پر کفن باندھے دنیا کی محفل میں آزادی کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرنے کے لیے آ چکے ہیں لیکن مد مقابل ظالم و جابر لوگ ابھی زیادہ طاقت اور غلبہ رکھتے ہیں ۔ اس لیے تاحال آزادی کی شمع روشن نہیں ہو سکی ۔ ابھی غلامی کا اندھیرا بدستور قائم ہے ۔ ابھی اس اندھیرے سے آزادی کی کرن نہیں پھوٹی لیکن امید ہے ایک دن ضرور آزادی کی کرن پھوٹے گی ۔ جس طرح رات کے اندھیرے سے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے اور سحر ہوتی ہے اسی طرح ایک دن غلامی کے اندھیروں سے بھی آزادی کی کرن ضرور پھوٹے گی۔
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوع سحر سے ہم
ابھی طوق و سلاسل میں ہیں آزادی کے دیوانے
مگر زندان کے دروازے پہ ہے تصویرِ آزادی
نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” آزادی” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.