نظم ” آج بازار میں پا بہ جولاں چلو” کا خلاصہ

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” آج بازار میں پا بہ جولاں چلو” کا خلاصہ پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر فیض احمد فیض ہیں ۔

خلاصہ کیا ہوتا ؟

 خلاصہ کا لغوی مطلب اختصار ، لُب لباب ، ماحصل ، اصل مطلب وغیرہ ۔

اصطلاحی طور پر خلاصہ کسی تحقیقی مضمون، مقالہ ، جائزہ، کانفرنس کی کارروائی ، یا کسی خاص موضوع کا گہرائی سے تجزیہ کا ایک مختصر خلاصہ ہوتا ہے ۔

فیض احمد فیض کی یہ نظم ایک انقلابی اور استعاریہ نظم ہے جو ظلم، جبر اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔

 نظم کا خلاصہ:

نظم میں شاعر ظلم و جبر کے ماحول میں ایک احتجاجی اور مزاحمتی سفر کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف آنسو بہانا یا دل میں درد محسوس کرنا کافی نہیں، بلکہ عملی جدو جہد بھی ضروری ہے۔

شاعر قاری کو ایک علامتی “بازار” (عدالت یا ظلم کے ایوان) میں چلنے کی دعوت دیتے ہیں، جہاں وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوں گے، مگر پھر بھی جوش و جذبے سے، رقص کرتے اور بے خوف آگے بڑھیں گے۔ یہاں شاعر کے الفاظ ظاہری شکست کے باوجود ایک بلند حوصلگی اور استقامت کا پیغام دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ راستہ سخت ہے، پورا شہر، حکمران، عوام، الزام اور گالیاں— سب ان کے خلاف ہیں۔ اس کے باوجود، شاعر اور ان کے ہم خیال لوگ حق کی راہ میں تنہا ہیں، کیونکہ سچائی کے ساتھ کھڑا ہونے والا کوئی اور نہیں۔

شہر جاناں، جو کبھی محبت، انصاف اور سچائی کی علامت تھا، اب ویران ہو چکا ہے۔ شاعر سوال کرتے ہیں کہ اب اس شہر میں کوئی وفادار اور باصفا رہ بھی گیا ہے؟ آخر میں، وہ دل کے مسافروں (مظلوموں، جدو جہد کرنے والوں) کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم پھر سے قربانی دینے کے لیے آگے بڑھیں، چاہے اس کا انجام موت ہی کیوں نہ ہو۔

یہ نظم مزاحمت، قربانی، اور ایک ظالم سماج کے خلاف حق کی جنگ لڑنے کے جذبے کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” آج بازار میں پا بہ جولاں چلو” کے خلاصے  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply