ناگہ چمن وہ جب وہ گل اندام آ گیا
آج کی اس پوسٹ کو شاعر شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی غزل ” ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا” کی تشریح پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
نا گہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا
گل کو شکست رنگ کا پیغام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : ناگہ ( ناگاہ ، اچانک ، غیر متوقع) ، چمن( باغ) ، گل اندام ( گلبدن ، پھول جیسا نازک) ، گل( پھول) ، شکست رنگ (رنگ کا اڑنا ، رنگ پھیکا پڑنا)
مفہوم : محبوب اچانک چمن میں داخل ہوا تو اس کے سامنے پھولوں کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چمن میں پھولوں کو اپنی خوبصورتی اور نزاکت پر بہت ناز تھا ۔ وہ باغ میں اپنی بہار دکھا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ دنیا میں کوئی ان کا ثانی نہیں لیکن ایک دن جب اچانک چمن میں میرا محبوب آیا تو اس گل بدن اور نازک اندام کو دیکھ کر پھول بھی دنگ رہ گئے ۔ ان کے رنگ پھیکے پڑ گئے یعنی محبوب کی خوبصورتی کے سامنے پھولوں کی خوبصورتی ماند پڑ گئی کیونکہ محبوب ان سے کہیں زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہا تھا ۔
بقول میر تقی میر :
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
شاعر نے بڑی خوبصورتی سے پھول اور محبوب کی خوبصورتی کا موازنہ کیا ہے ۔ ایک طرف سے شاعر نے انسانی عظمت کو اجاگر کیا ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے پھول سے کئی درجے برتر ہے ۔ پھول اپنے رنگ ، خوشبو اور نزاکت کی وجہ سے مشہور ہے لیکن پھول کی یہ تمام تر خوبصورتی بہت مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے ۔ پھول ایک دن کے لیے کھلتا ہے پھر مرجھا جاتا ہے ۔ اس طرح اس کی ساری خوبصورتی و رعنائی اور خوشبو ختم ہو جاتی ہے جبکہ شاعر کا محبوب انسان ہے اس لحاظ سے محبوب کا حسن زیادہ دیر پا ہے ۔ پھول میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ خار بھی ہوتے ہیں لیکن محبوب کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ چل پھر نہیں سکتا اور نہ بات چیت کر سکتا ہے ۔ وہ بول کر اپنی محبت یا خوبصورتی کا اظہار نہیں کر سکتا اور نہ چل پھر کر اپنی نزاکت دکھا سکتا ہے جبکہ میں محبوب بول کر اپنی محبت یا خوبصورتی کا اظہار بھی کر سکتا ہے اور اپنی چال سے ناز و انداز دکھا سکتا ہے ۔ اس لحاظ سے محبوب کو پھول پر برتری حاصل ہے ۔
بقول اسد بھوپالی :
نہ وہ آواز میں رس ہے نہ وہ لہجے میں کھنک
کیسے پھولوں کو تیرا طرزِ تکلم آئے
چنانچہ جب محبوب اپنی تمام تر خوبصورتی اور ناز و انداز کے ساتھ چمن میں داخل ہوا تو پھولوں کا سارا غرور خاک میں مل گیا اور ان کا رنگ اڑ گیا ۔ رنگ اڑنے سے مراد حیران ہونا بھی ہو سکتا ہے یعنی محبوب کی خوبصورتی دیکھ کر پھولوں کا رنگ فق ہو گیا اور وہ بھی حیران و ششدر رہ گئے۔
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ محبوب کی خوبصورتی نے پھولوں کی خوبصورتی کو گہنا دیا ۔ جس طرح چاند کی موجودگی میں ستاروں کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے ۔ اسی طرح محبوب کی موجودگی میں پھولوں کی خوبصورتی بھی ماند پڑ گئی ۔
بقول جوش ملیح آبادی :
یہ عجیب حسن کے رمز تھے ، یہ نرالے ناز کے بھید تھے
وہ نقاب اٹھا کے جو آ گیا کوئی جی گیا کوئی مر گیا
اردو شاعری میں پھول خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں اس لیے عموماً شعرا محبوب کی خوبصورتی اور نزاکت کو بیان کرنے کے لیے اس لیے پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن مصحفی نے اس شعر میں انفرادیت سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ میرا محبوب پھول جیسا نہیں بلکہ پھول سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ محبوب کی موجودگی میں پھولوں کا حسن ماند پڑ جاتا ہے ۔
بقول شیخ ابراہیم ذوق :
ناز ہے گل کو چمن میں نزاکت پہ اے ذوق
ان نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
شعر نمبر 2 :
اٹھا جو صبح خواب سے وہ مست خواب صبح
خورشید کف کے بیچ میں لیے جام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : مست (مدہوش) ، پرخمار( نشے میں سرشار ، نشہ ٹوٹنے کی کیفیت) ، خورشید ( سورج) کف( ہتھیلی) ، جام( شراب کا پیالہ )
مفہوم : جب محبوب نیند سے بیدار ہوا تو اس کی آنکھوں میں ایسا خمار تھا کہ سورج شراب کا جام لیے آ گیا ۔
تشریح : اردو شاعری میں محبوب کی نشیلی اور پرخمار آنکھوں کی جا بجا تعریف کی گئی ہے ۔ کہیں انہیں جھیل اور سمندر سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کہیں شراب اور جام سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ میر تقی میر کہتے ہیں :
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
تشریح طلب شعر میں بھی شاعر نے محبوب کی پرخمار آنکھوں کی تعریف کی ہے ۔ جنہیں دیکھ کر سورج بھی محبوب کے پاس ہاتھ میں جام لیے چلا آیا ۔ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب صبح کے وقت خواب سے بیدار ہوا تو اس کی آنکھیں پر خمار تھیں ۔ یہ کیفیت اس وقت ہوتی ہے جب نشے کی طلب میں بدن ٹوٹتا ہے اور انسان کچی نیند سے اٹھ جائے اور ابھی آنکھوں میں نیند کی طلب باقی ہو ۔
بقول شہزاد احمد :
تمہاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب بیدار ہوا تو اس کی آنکھوں میں خمار کی کیفیت جھلک رہی تھی اور نیند کا نشہ موجود تھا ۔ شاید ابھی اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اور وہ مزید سونا چاہتا تھا یا وہ کوئی حسین خواب دیکھ رہا تھا جس کے زیر اثر سرور کی کیفیت میں تھا لیکن اچانک آنکھ کھلنے کی وجہ سے وہ خواب ٹوٹ گیا ۔ جس کی وجہ سے ابھی تک اس کی آنکھوں میں وہ خمار موجود ہے ۔ محبوب کی پرخمار اور نشیلی آنکھیں دیکھ کر سورج کو رحم آ گیا اور وہ اپنی ہتھیلی پر شراب کا جام لیے محبوب کے پاس آ گیا تاکہ محبوب جام نوش کر کے پھر سے سرور کی کیفیت میں آ جائے اور پُرسکون ہو جائے۔ شاعر نے بڑی عمدگی سے حسنِ تعلیل سے کام لیا ہے ۔ کسی واقعے کی ایسی وجہ یا علت بیان کرنا جو حقیقت میں وہ نہ ہو لیکن شاعر اس خوبصورتی سے بیان کرے کہ پڑھنے والے متاثر ہو جائیں تعلیل کہلاتا ہے ۔
سورج اپنی فطرتی اصولوں کے مطابق روزانہ طلوع ہوتا ہے لیکن شاعر کہتا ہے کہ آج محبوب کی پرخمار آنکھوں میں نشے کی طلب دیکھ کر سورج شراب کا جام ہاتھوں میں لیے ہوئے آیا ۔ یہ حسنِ تعلیل ہے شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر نے سورج کا استعارہ محبوب کے چہرے کے لیے استعمال کیا ہے اور محبوب کی آنکھوں کی مستی کو سورج کی ہتھیلی پر جام سے تشبیہ دی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے جب محبوب بیدار ہوا اس کا چہرہ سورج کی مانند روشن اور چمکدار تھا ۔ اس کی آنکھوں میں شراب کے نشے جیسا خمار تھا ۔ مجھے ایسا لگا کہ گویا میرے سامنے سورج اپنے ہاتھوں میں شراب کا جام لیے کھڑا ہے ۔
بقول اسرا رضوی :
اداس آنکھیں غزال آنکھیں
جواب آنکھیں سوال آنکھیں
وہ صبح کا وقت نیند کچی
خمار سے بے مثال آنکھیں
اور بقول امجد علی راجا :
جام کو موت دے گیا ہے خمار
نیند سے چور چور آنکھوں کا
شعر نمبر 3 :
افسوس ہے کہ ہم تو رہے مست خواب صبح
مشکل الفاظ کے معانی : مست خواب (خواب میں مدہوش مراد غفلت میں) ، آفتابِ عمر ( زندگی کا سورج مراد بڑھاپا) ، لب بام (چھت کا کنارہ مراد غروب ہونا زوال پذیر ہونا )
مفہوم : افسوس کہ ہم نے ساری زندگی غفلت میں گزار دی اور اب عمر ختم ہونے کو آئی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے ساری عمر غفلت میں گزار دی۔ ہم اپنی زندگی کا مقصد فراموش کیے دنیا کی رنگینیوں میں گم رہے ۔ اب جب ہمیں ہوش آیا ہے اور اپنا مقصدِ زندگی یاد آیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے کیونکہ اب ہماری عمر کا سورج غروب ہونے کو ہے اور ہم بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گئے اور موت کا وقت قریب آ گیا ہے ۔
بقول داغ دہلوی :
ہوش و حواس تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
شاعر نے شعر میں فلسفہ زندگی بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو جس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے ۔ انسان دنیا میں آ کر وہ مقصد بھول جاتا ہے ۔ بچپن میں وہ کمزور و ناتواں اور کم فہم ہوتا ہے ۔ اس لیے اس پر اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری و اطاعت کی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی لیکن جوانی میں اس کے اعضاء جوارح تندرست و توانا ہوتے ہیں اور اس کی عقل بھی پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ جوانی عمر کا ایسا حصہ ہے جس میں کیے گئے ہر کام کی جواب دہی انسان پر عہد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ فرمانبرداری اور شکر گزاری کا راستہ اختیار کرے یا کفر و نافرمانی کی راہ اختیار کرے لیکن انسان غافل ہے وہ دنیا کی رنگینیوں اور نظاروں میں گم ہو کر اپنے مقصدِ حیات کو بھول جاتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرتا رہتا ہے ۔ وہ مال و دولت کی دوڑ میں اتنا مدہوش ہو جاتا ہے کہ اپنے خالق و مالک کو فراموش کر دیتا ہے ۔ جب اسے ہوش آتا ہے اس وقت تک اس کی عمر کا سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے ۔ تب وہ کف افسوس ملتا ہے کہ کاش میں جوانی میں اللہ کی عبادت کر لیتا ۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ۔ کاش میں جوانی کے حسین لمحات اللہ کے نام کر دیتا اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتا ۔ جوانی اللہ کی عبادت اور اطاعت و فرمانبرداری کا بہترین وقت ہوتا ہے ۔ جوانی کی عبادت و اطاعت اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے اور اللہ کے پیغمبروں کا بھی یہی شیوہ ہے ۔ جیسا کہ ایک فارسی شاعر شیخ سعدی رحمت اللہ علیہ کہتا ہے :
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیمبری
وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار
ترجمہ : ” جوانی میں توبہ و استغفار کرنا اللہ کے پیغمبروں کا شیوہ ہے ۔ بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے ” ۔
شاعر نے انسانی عمر کے لیے سورج کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ سورج کا طلوع و غروب اور نصف النہار کا عروج انسانی زندگی کے مراحل کی بہترین عکاسی کرتا ہے ۔ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس میں اتنی زیادہ تابناکی اور چمک نہیں ہوتی ہر شخص بآسانی اس کی طرف دیکھ سکتا ہے ۔ گویا یہ انسان کے بچپن کی عکاسی کرتا ہے کہ بچپن میں انسان انتہائی کمزور ناتواں ہوتا ہے ۔ ہر شخص اس پر دسترس رکھتا ہے ۔ آہستہ آہستہ سورج بلند ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ نصف النہار کے وقت وہ اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے ۔ اس وقت سورج میں اتنی چمک اور تپش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ بالکل اسی طرح جوانی میں انسان اپنی طاقت کے عروج پر ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ میں بادشاہ ہوتا ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے ۔ شام کے قریب آہستہ آہستہ سورج ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے اور ایک بار پھر وہ پہلی کسی حالت میں آ جاتا ہے ۔ غروب کے وقت اس کی روشنی اور چمک مدھم پڑ جاتی ہے ۔ ہر شخص اس کی جانب آنکھ بھر کر دیکھ سکتا ہے گویا یہ انسان کے بڑھاپے کی عکاسی ہے ۔ بڑھاپے میں انسان کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے ۔ اس کے اعضاء کمزور ہو جاتے ہیں ۔ اس کی تمام تر طاقت اور توانائی ختم ہو جاتی ہے ۔ ایک بار پھر سے وہ بچپن کی سی حالت میں چلا جاتا ہے بقول شمشاد شاد :
عمر کا آفتاب ڈھلتے ہی
گر گئے لڑکھڑا کے چلتے ہی
اس وقت انسان اپنی گزشتہ زندگی کی خطاؤں کو یاد کرتا ہے اور اپنی غفلت پر افسوس کرتا ہے لیکن اس وقت وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے اعضاء اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ وہ عمر رفتہ کو پکارتا ہے لیکن وہ پلٹ کر نہیں آتی عموماً انسان ساری زندگی غفلت میں گزار دیتا ہے ۔ بڑھاپے میں جب موت قریب آتی دکھائی دیتی ہے اس پر دنیا کی حقیقت کھلتی ہے اور وہ آخرت کو یاد کرنے لگتا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے :
” لوگ سوئے ہوئے ہیں موت آئے گی تو آنکھیں کھلیں گی ” ۔
اور بقول شاعر :
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
ایک دھوپ تھی کے ساتھ گئی آفتاب کے
شعر نمبر 4 :
ہے جائے رحم حال پہ یاں اس اسیر کے
جو گرتے ہی ہوا سے تہہ دام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : جائے رحم ( رحم کی جگہ، حالت) ، یاں (یہاں ) ، اسیر ( قیدی ، گرفتار ) ، تہہ دام ( جال کے نیچے ، جال میں پھنسنا )
مفہوم : وہ قیدی پرندہ قابلِ رحم ہے جو ہوا سے گرتے ہی جال میں پھنس گیا ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اس پرندے کے حال پر رحم کیا جانا چاہیے جس نے ابھی اڑان بھری ہی تھی فضا کی وسعت کا ٹھیک سے نظارہ بھی نہیں کیا تھا اور اپنی بلند پروازی سے صحیح طور پر محظوظ بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ ہوا سے گر گیا اور گرتے ہی شکاری کے جال میں پھنس گیا ۔ شاعر نے قیدی پرندے اور جال کے پس پردہ اپنی زندگی کی کہانی بیان کی ہے ۔ اسیر قیدی پرندے سے مراد شاعر بذاتِ خود ہے اور دام جال سے مراد نفس و شیطان کا جال اور زمانے کی مشکلات اور پریشانیاں ہیں ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے ابھی میں نے ہوش ہی سنبھالا تھا اور جوانی کی دہلیز پر قدم ہی رکھا تھا کہ مجھے طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں نے آن گھیرا ۔ میں مصائب کے جال میں پھنس کر رہ گیا ۔ اوائل عمری ہی میں انہیں اپنا آبائی شہر امروہہ چھوڑ کر دلی آنا پڑا لیکن شومئی قسمت کہ دلی کی تباہی و بربادی کی وجہ سے انہیں دلی سے بھی ہجرت کرنا پڑی اور لکھنو میں سکونت اختیار کرنا پڑی ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں غم روزگار نے عمر بھر پریشان کیے رکھا چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ میرے حال پر رحم کیا جانا چاہیے کہ میں ابتدائے جوانی ہی میں پے در پے مشکلات اور مصائب کا شکار ہو گیا ۔ ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت نے مجھے آن گھیرا ۔
بقول خواجہ میر درد :
زندگی ہے یا کوئی طوفاں ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اور بقول ساغر صدیقی :
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی یہ سزا یاد نہیں
شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر کہتا ہے کہ مجھے زمانے کی مشکلات اور مصائب نے گھیرے رکھا ۔ اس کے بعد عشق نے بھی مجھ پر ستم ڈھائے ۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی عشق نے مجھے گرفتار کر لیا ۔ چنانچہ میں محبوب کی بے رخی اور لاپرواہی کا غم بھی اٹھاتا رہا ۔ گویا میں ایسے پرندے کی مانند ہوں جو ایک مصیبت سے نکلتا ہے تو دوسری مصیبت میں جا پھنستا ہے ۔ بلا شبہ زندگی میں مشکلات اور پریشانیاں ہر انسان کو لاحق ہوتی ہیں لیکن بعض انسان بہت حساس ہوتے ہیں وہ معمولی مشکلات اور پریشانیوں کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں۔ پھر یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور غموں کو یاد رکھتا ہے وہ ۔ننانوے(99) نعمتوں پر شکر گزاری کی بجائے ایک غم پر آنسو بہاتا رہتا ہے ۔ شاعر بھی بہت حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ۔ انہیں معمولی سا غم بھی بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے ۔ ایک اور شعر میں مصحفی اپنے پے در پہ غموں کا یوں تذکرہ کرتے ہیں :
دنیا میں جب تلک کے میں اندوہ گیں رہا
غم دل سے اور دل سے میرے غم ،قریں رہا
شعر کا ایک پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بالکل معصوم اور گناہوں سے پاک ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا ہے دنیا کی رنگینیوں میں گم ہو جاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا دشمن شیطان جال بچھائے ہمہ وقت اس کی تاک میں رہتا ہے ۔ وہ اسے برائی کی جانب مائل کرنے کے لیے طرح طرح کے جال بچھاتا ہے اسی طرح دنیا اسے اللہ سے غافل کرنے کے لیے اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ بار بار اپنی جانب کھینچتی ہے ۔ چنانچہ شاعر اللہ سے التجا کرتا ہے کہ میری حالت قابل رحم ہے ۔ میرے ساتھ مہربانی کا معاملہ کیا جائے کہ میں دنیا میں آتے ہی دو دشمنوں کے درمیان پھنس کر رہ گیا ۔ میں دنیا کی رنگینیوں اور نفس و شیطان کے جال میں گرفتار رہا ۔
شعر نمبر 5 :
سمجھو خدا کے واسطے پیارے برا نہیں
دو دن ، اگر کسی کے کوئی کام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : سمجھو (بات مانو) ، خدا کے واسطے (خدا کے لیے)
مفہوم : اس مختصر زندگی میں اگر کوئی کسی کے کام آ گیا تو اسے برا نہیں سمجھنا چاہیے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری بات کو خدا کے لیے سمجھو اگر اس مختصر زندگی میں کوئی شخص دوسروں کے کام آ گیا تو اس میں بری بات نہیں ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ اسے تمام مخلوقات پر اسی بنا پر برتری اور فضیلت ہے کہ وہ دوسروں کے دکھ درد محسوس کرتا ہے ۔ ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے ۔ جو شخص ہمدردی اور احساس کے جذبے سے عاری ہو وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں۔ انسان انس سے ہے انس کا مطلب محبت اور ہمدردی ہے ۔ لہٰذا جس میں دوسروں کے لیے محبت اور احساس کا جذبہ ہی ہو وہی صحیح معنوں میں انسانیت کا حامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی لیے تخلیق کیا کہ وہ دنیا میں اللہ کے بندوں کے کام آئے ۔ محبت اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دے ۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو ۔ کمزوروں کو سہارا ملے ۔ مظلوموں اور بے کسوں کی دستگیری کرے ۔ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے ان کے کام آئے ۔
بقول خواجہ میر درد :
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ انسان جذبات اور احساسات رکھتا ہے جبکہ جانور جذبات اور احساسات سے عاری ہوتے ہیں ۔ اپنا دکھ درد تو جانور بھی محسوس کرتے ہیں ۔ انسان وہ ہے جو دوسروں کا دکھ درد محسوس کرے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ایک دوسرے کے کام آنا کوئی بری بات نہیں بلکہ یہ تو انسانیت کا مقصدِ تخلیق ہے ۔
بقول شاعر :
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور ہماری زندگی عارضی زندگی ہے ۔ اس دنیا میں کسی کو بھی ثبات نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ یہ دنیا دو دن کی ہے۔ اس دنیا کا سب سے بڑا امتحان حقوق العباد ہے اور روز محشر سب سے سخت سوال یہی ہوگا کہ اے ابنِ آدم تو نے میرے بندوں کے حقوق ادا کیے تھے یا نہیں ۔ اس دنیا میں تمام لوگ ایک دوسرے سے مختلف رشتوں کے ذریعے منسلک ہیں ۔ کوئی باپ اور بیٹا ہے تو کوئی بھائی اور بہن ہے ۔ کوئی ماں اور بیٹی ہے تو کوئی میاں اور بیوی ہے ۔ اس کے ساتھ دوستی اور ہمسائیگی کے تعلقات بھی ہیں ۔ جو شخص ان تمام رشتوں اور تعلقات کی پاسداری کرتا ہے انہیں بحسن خوبی نبھاتا ہے ۔ وہ اللہ کے ہاں کامیاب و کامران ہے ۔ وہ شخص اس دنیا کی عارضی زندگی کے بدلے آخرت کی ابدی حیات حاصل کر لیتا ہے ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے کام آنا چاہیے اسی بنا پر آخرت میں ابدی حیات حاصل ہو سکے گی۔ خدا کے لیے اس بات کو سمجھ جاؤ کہ یہ دنیا عارضی اور مختصر سی زندگی ہے ۔ اس میں دوسروں کے کام آنا کوئی بری بات نہیں بلکہ ہمارا مقصدِ زندگی ہے ۔
بقول شاعر :
دکھائے دل جو کسی کا وہ آدمی کیا ہے
کسی کے کام نہ آئے تو زندگی کیا ہے
اللہ کے نزدیک خدمتِ خلق سب سے بڑی عبادت ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” لوگوں میں بہترین وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے نفع مند ہو ” ۔
شعر نمبر 6 :
کر قطع کب گیا تیرے کوچے سے مصحفی ؟
گر صبح کو گیا ، وہیں پھر شام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : قطع کرنا (لفظی معنی کاٹنا مراد جدا ہونا ، تعلق ختم کرنا ) ، کوچے (گلی)
مفہوم : اے محبوب میں نے تمہاری گلی میں آنا کب چھوڑا ۔ اگر صبح جاتا ہوں تو شام کو پھر وہیں آ جاتا ہوں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں محبوب کے دیدار کے لیے بار بار اس کی گلی میں جاتا ہوں لیکن ہر بار ناکام و نامراد واپس پلٹ آتا ہوں ۔ مجھے شرف دیدار حاصل نہیں ہوتا ۔ ایک اور شعر میں مصحفی اسی مضمون کو یوں باندھتے ہیں :
تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
شاعر کہتا ہے کہ جب بار بار کوشش کے باوجود بھی مجھے محبوب کا دیدار حاصل نہیں ہوتا تو میں غصے کے عالم میں دل میں یہ ٹھان لیتا ہوں کہ اب دوبارہ محبوب کے کوچے میں نہیں آؤں گا اور اس طرح خاک نہیں چھانوں گا لیکن ہر بار میں اپنے اس ارادے پر ثابت قدم نہیں رہتا ۔ اگر میں صبح کو یہ ارادہ کروں تو شام تک اس ارادے پر قائم نہیں رہتا ۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر شام کو محبوب کے کوچے میں جا پہنچتا ہوں اور اگر شام کو نہ جانے کا ارادہ کروں تو صبح تک ارادہ توڑ ڈالتا ہوں۔ صبح کو پھر محبوب کے کوچے میں موجود ہوتا ہوں ۔ میں بار بار دل میں یہ ٹھان لیتا ہوں کہ اب دوبارہ کبھی اس کوچے میں نہیں آؤں گا لیکن ہر بار میرا دل مجھے پھر وہاں جانے کے لیے اکساتا ہے۔ تب مجھے احساس ہوتا ہے کہ محبوب کے کوچے میں نہ جانے کا جو ارادہ کیا تھا وہ وقتی تھا اور غصے میں دماغ کا فیصلہ تھا ۔ دل کا فیصلہ نہیں تھا ۔ دل ایسا نہیں چاہتا جس کی وجہ سے میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پھر سے محبوب کے کوچے میں جا پہنچتا ہوں ۔ محبت دل سے کی جاتی ہے دماغ سے نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ محبت میں دماغ کا حکم نہیں چلتا بلکہ دل کا حکم چلتا ہے ۔ دماغ اگر ترک تعلق کا ارادہ کر بھی لے تو دل اسے تسلیم نہیں کرتا بلکہ بار بار پھر سے تعلق استوار کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی :
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زبان میں اثر کہاں
نوٹ : امید ہے کہ آپ مصحفی کی غزل ” ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.