ناگہ چمن وہ جب وہ گل اندام آ گیا
آج کی اس پوسٹ کو شاعر شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی غزل ” ناگہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا” کی تشریح پڑھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
نا گہ چمن میں جب وہ گل اندام آ گیا
گل کو شکست رنگ کا پیغام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : ناگہ ( ناگاہ ، اچانک ، غیر متوقع) ، چمن( باغ) ، گل اندام ( گلبدن ، پھول جیسا نازک) ، گل( پھول) ، شکست رنگ (رنگ کا اڑنا ، رنگ پھیکا پڑنا)
مفہوم : محبوب اچانک چمن میں داخل ہوا تو اس کے سامنے پھولوں کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ چمن میں پھولوں کو اپنی خوبصورتی اور نزاکت پر بہت ناز تھا ۔ وہ باغ میں اپنی بہار دکھا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ دنیا میں کوئی ان کا ثانی نہیں لیکن ایک دن جب اچانک چمن میں میرا محبوب آیا تو اس گل بدن اور نازک اندام کو دیکھ کر پھول بھی دنگ رہ گئے ۔ ان کے رنگ پھیکے پڑ گئے یعنی محبوب کی خوبصورتی کے سامنے پھولوں کی خوبصورتی ماند پڑ گئی کیونکہ محبوب ان سے کہیں زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہا تھا ۔
بقول میر تقی میر :
چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
شاعر نے بڑی خوبصورتی سے پھول اور محبوب کی خوبصورتی کا موازنہ کیا ہے ۔ ایک طرف سے شاعر نے انسانی عظمت کو اجاگر کیا ہے کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے پھول سے کئی درجے برتر ہے ۔ پھول اپنے رنگ ، خوشبو اور نزاکت کی وجہ سے مشہور ہے لیکن پھول کی یہ تمام تر خوبصورتی بہت مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے ۔ پھول ایک دن کے لیے کھلتا ہے پھر مرجھا جاتا ہے ۔ اس طرح اس کی ساری خوبصورتی و رعنائی اور خوشبو ختم ہو جاتی ہے جبکہ شاعر کا محبوب انسان ہے اس لحاظ سے محبوب کا حسن زیادہ دیر پا ہے ۔ پھول میں ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ خار بھی ہوتے ہیں لیکن محبوب کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔ دوسرا یہ کہ وہ چل پھر نہیں سکتا اور نہ بات چیت کر سکتا ہے ۔ وہ بول کر اپنی محبت یا خوبصورتی کا اظہار نہیں کر سکتا اور نہ چل پھر کر اپنی نزاکت دکھا سکتا ہے جبکہ میں محبوب بول کر اپنی محبت یا خوبصورتی کا اظہار بھی کر سکتا ہے اور اپنی چال سے ناز و انداز دکھا سکتا ہے ۔ اس لحاظ سے محبوب کو پھول پر برتری حاصل ہے ۔
بقول اسد بھوپالی :
نہ وہ آواز میں رس ہے نہ وہ لہجے میں کھنک
کیسے پھولوں کو تیرا طرزِ تکلم آئے
چنانچہ جب محبوب اپنی تمام تر خوبصورتی اور ناز و انداز کے ساتھ چمن میں داخل ہوا تو پھولوں کا سارا غرور خاک میں مل گیا اور ان کا رنگ اڑ گیا ۔ رنگ اڑنے سے مراد حیران ہونا بھی ہو سکتا ہے یعنی محبوب کی خوبصورتی دیکھ کر پھولوں کا رنگ فق ہو گیا اور وہ بھی حیران و ششدر رہ گئے۔
دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ محبوب کی خوبصورتی نے پھولوں کی خوبصورتی کو گہنا دیا ۔ جس طرح چاند کی موجودگی میں ستاروں کی خوبصورتی ماند پڑ جاتی ہے ۔ اسی طرح محبوب کی موجودگی میں پھولوں کی خوبصورتی بھی ماند پڑ گئی ۔
بقول جوش ملیح آبادی :
یہ عجیب حسن کے رمز تھے ، یہ نرالے ناز کے بھید تھے
وہ نقاب اٹھا کے جو آ گیا کوئی جی گیا کوئی مر گیا
اردو شاعری میں پھول خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں اس لیے عموماً شعرا محبوب کی خوبصورتی اور نزاکت کو بیان کرنے کے لیے اس لیے پھولوں سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن مصحفی نے اس شعر میں انفرادیت سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ میرا محبوب پھول جیسا نہیں بلکہ پھول سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ محبوب کی موجودگی میں پھولوں کا حسن ماند پڑ جاتا ہے ۔
بقول شیخ ابراہیم ذوق :
ناز ہے گل کو چمن میں نزاکت پہ اے ذوق
ان نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے
شعر نمبر 2 :
اٹھا جو صبح خواب سے وہ مست خواب صبح
خورشید کف کے بیچ میں لیے جام آ گیا
مشکل الفاظ کے معانی : مست (مدہوش) ، پرخمار( نشے میں سرشار ، نشہ ٹوٹنے کی کیفیت) ، خورشید ( سورج) کف( ہتھیلی) ، جام( شراب کا پیالہ )
مفہوم : جب محبوب نیند سے بیدار ہوا تو اس کی آنکھوں میں ایسا خمار تھا کہ سورج شراب کا جام لیے آ گیا ۔
تشریح : اردو شاعری میں محبوب کی نشیلی اور پرخمار آنکھوں کی جا بجا تعریف کی گئی ہے ۔ کہیں انہیں جھیل اور سمندر سے تشبیہ دی جاتی ہے تو کہیں شراب اور جام سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ میر تقی میر کہتے ہیں :
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
تشریح طلب شعر میں بھی شاعر نے محبوب کی پرخمار آنکھوں کی تعریف کی ہے ۔ جنہیں دیکھ کر سورج بھی محبوب کے پاس ہاتھ میں جام لیے چلا آیا ۔ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب صبح کے وقت خواب سے بیدار ہوا تو اس کی آنکھیں پر خمار تھیں ۔ یہ کیفیت اس وقت ہوتی ہے جب نشے کی طلب میں بدن ٹوٹتا ہے اور انسان کچی نیند سے اٹھ جائے اور ابھی آنکھوں میں نیند کی طلب باقی ہو ۔
بقول شہزاد احمد :
تمہاری آنکھ میں کیفیت خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نیند کا اثر ہی سہی
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ جب محبوب بیدار ہوا تو اس کی آنکھوں میں خمار کی کیفیت جھلک رہی تھی اور نیند کا نشہ موجود تھا ۔ شاید ابھی اس کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی اور وہ مزید سونا چاہتا تھا یا وہ کوئی حسین خواب دیکھ رہا تھا جس کے زیر اثر سرور کی کیفیت میں تھا لیکن اچانک آنکھ کھلنے کی وجہ سے وہ خواب ٹوٹ گیا ۔ جس کی وجہ سے ابھی تک اس کی آنکھوں میں وہ خمار موجود ہے ۔ محبوب کی پرخمار اور نشیلی آنکھیں دیکھ کر سورج کو رحم آ گیا اور وہ اپنی ہتھیلی پر شراب کا جام لیے محبوب کے پاس آ گیا تاکہ محبوب جام نوش کر کے پھر سے سرور کی کیفیت میں آ جائے اور پُرسکون ہو جائے۔ شاعر نے بڑی عمدگی سے حسنِ تعلیل سے کام لیا ہے ۔ کسی واقعے کی ایسی وجہ یا علت بیان کرنا جو حقیقت میں وہ نہ ہو لیکن شاعر اس خوبصورتی سے بیان کرے کہ پڑھنے والے متاثر ہو جائیں تعلیل کہلاتا ہے ۔
سورج اپنی فطرتی اصولوں کے مطابق روزانہ طلوع ہوتا ہے لیکن شاعر کہتا ہے کہ آج محبوب کی پرخمار آنکھوں میں نشے کی طلب دیکھ کر سورج شراب کا جام ہاتھوں میں لیے ہوئے آیا ۔ یہ حسنِ تعلیل ہے شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر نے سورج کا استعارہ محبوب کے چہرے کے لیے استعمال کیا ہے اور محبوب کی آنکھوں کی مستی کو سورج کی ہتھیلی پر جام سے تشبیہ دی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے جب محبوب بیدار ہوا اس کا چہرہ سورج کی مانند روشن اور چمکدار تھا ۔ اس کی آنکھوں میں شراب کے نشے جیسا خمار تھا ۔ مجھے ایسا لگا کہ گویا میرے سامنے سورج اپنے ہاتھوں میں شراب کا جام لیے کھڑا ہے ۔
بقول اسرا رضوی :
اداس آنکھیں غزال آنکھیں
جواب آنکھیں سوال آنکھیں
وہ صبح کا وقت نیند کچی
خمار سے بے مثال آنکھیں
اور بقول امجد علی راجا :
جام کو موت دے گیا ہے خمار
نیند سے چور چور آنکھوں کا
شعر نمبر 3 :
افسوس ہے کہ ہم تو رہے مست خواب صبح
مشکل الفاظ کے معانی : مست خواب (خواب میں مدہوش مراد غفلت میں) ، آفتابِ عمر ( زندگی کا سورج مراد بڑھاپا) ، لب بام (چھت کا کنارہ مراد غروب ہونا زوال پذیر ہونا )
مفہوم : افسوس کہ ہم نے ساری زندگی غفلت میں گزار دی اور اب عمر ختم ہونے کو آئی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے ساری عمر غفلت میں گزار دی۔ ہم اپنی زندگی کا مقصد فراموش کیے دنیا کی رنگینیوں میں گم رہے ۔ اب جب ہمیں ہوش آیا ہے اور اپنا مقصدِ زندگی یاد آیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے کیونکہ اب ہماری عمر کا سورج غروب ہونے کو ہے اور ہم بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گئے اور موت کا وقت قریب آ گیا ہے ۔
بقول داغ دہلوی :
ہوش و حواس تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
شاعر نے شعر میں فلسفہ زندگی بیان کیا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو جس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے ۔ انسان دنیا میں آ کر وہ مقصد بھول جاتا ہے ۔ بچپن میں وہ کمزور و ناتواں اور کم فہم ہوتا ہے ۔ اس لیے اس پر اللہ تعالٰی کی فرمانبرداری و اطاعت کی ذمہ داری بھی عائد نہیں ہوتی لیکن جوانی میں اس کے اعضاء جوارح تندرست و توانا ہوتے ہیں اور اس کی عقل بھی پختہ ہو چکی ہوتی ہے ۔ جوانی عمر کا ایسا حصہ ہے جس میں کیے گئے ہر کام کی جواب دہی انسان پر عہد ہوتی ہے ۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ فرمانبرداری اور شکر گزاری کا راستہ اختیار کرے یا کفر و نافرمانی کی راہ اختیار کرے لیکن انسان غافل ہے وہ دنیا کی رنگینیوں اور نظاروں میں گم ہو کر اپنے مقصدِ حیات کو بھول جاتا ہے اور اللہ کی نافرمانی کرتا رہتا ہے ۔ وہ مال و دولت کی دوڑ میں اتنا مدہوش ہو جاتا ہے کہ اپنے خالق و مالک کو فراموش کر دیتا ہے ۔ جب اسے ہوش آتا ہے اس وقت تک اس کی عمر کا سورج غروب ہونے کے قریب ہوتا ہے ۔ تب وہ کف افسوس ملتا ہے کہ کاش میں جوانی میں اللہ کی عبادت کر لیتا ۔ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ۔ کاش میں جوانی کے حسین لمحات اللہ کے نام کر دیتا اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتا ۔ جوانی اللہ کی عبادت اور اطاعت و فرمانبرداری کا بہترین وقت ہوتا ہے ۔ جوانی کی عبادت و اطاعت اللہ کے نزدیک بہت پسندیدہ ہے اور اللہ کے پیغمبروں کا بھی یہی شیوہ ہے ۔ جیسا کہ ایک فارسی شاعر شیخ سعدی رحمت اللہ علیہ کہتا ہے :
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیمبری
وقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار
ترجمہ : ” جوانی میں توبہ و استغفار کرنا اللہ کے پیغمبروں کا شیوہ ہے ۔ بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے ” ۔
شاعر نے انسانی عمر کے لیے سورج کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ سورج کا طلوع و غروب اور نصف النہار کا عروج انسانی زندگی کے مراحل کی بہترین عکاسی کرتا ہے ۔ صبح جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس میں اتنی زیادہ تابناکی اور چمک نہیں ہوتی ہر شخص بآسانی اس کی طرف دیکھ سکتا ہے ۔ گویا یہ انسان کے بچپن کی عکاسی کرتا ہے کہ بچپن میں انسان انتہائی کمزور ناتواں ہوتا ہے ۔ ہر شخص اس پر دسترس رکھتا ہے ۔ آہستہ آہستہ سورج بلند ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ نصف النہار کے وقت وہ اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے ۔ اس وقت سورج میں اتنی چمک اور تپش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ بالکل اسی طرح جوانی میں انسان اپنی طاقت کے عروج پر ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ میں بادشاہ ہوتا ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے کر سکتا ہے ۔ شام کے قریب آہستہ آہستہ سورج ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے اور ایک بار پھر وہ پہلی کسی حالت میں آ جاتا ہے ۔ غروب کے وقت اس کی روشنی اور چمک مدھم پڑ جاتی ہے ۔ ہر شخص اس کی جانب آنکھ بھر کر دیکھ سکتا ہے گویا یہ انسان کے بڑھاپے کی عکاسی ہے ۔ بڑھاپے میں انسان کی حالت بھی ایسی ہی ہوتی ہے ۔ اس کے اعضاء کمزور ہو جاتے ہیں ۔ اس کی تمام تر طاقت اور توانائی ختم ہو جاتی ہے ۔ ایک بار پھر سے وہ بچپن کی سی حالت میں چلا جاتا ہے بقول شمشاد شاد :
عمر کا آفتاب ڈھلتے ہی
گر گئے لڑکھڑا کے چلتے ہی
اس وقت انسان اپنی گزشتہ زندگی کی خطاؤں کو یاد کرتا ہے اور اپنی غفلت پر افسوس کرتا ہے لیکن اس وقت وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے اعضاء اس کا ساتھ نہیں دیتے ۔ وہ عمر رفتہ کو پکارتا ہے لیکن وہ پلٹ کر نہیں آتی عموماً انسان ساری زندگی غفلت میں گزار دیتا ہے ۔ بڑھاپے میں جب موت قریب آتی دکھائی دیتی ہے اس پر دنیا کی حقیقت کھلتی ہے اور وہ آخرت کو یاد کرنے لگتا ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے :
” لوگ سوئے ہوئے ہیں موت آئے گی تو آنکھیں کھلیں گی ” ۔
اور بقول شاعر :
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
ایک دھوپ تھی کے ساتھ گئی آفتاب کے
شعر نمبر 4 :
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.