مومن خان مومن

آج کی اس پوسٹ میں ہم غالب اور ذوق کے ہم عصر شاعر مومن خان مومن کی شاعری ، سوانح حیات ،علمی و ادبی خدمات اور تصانیف کے بارے میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

ابتدائی تعارف :

مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اور حکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن دہلی 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے ۔ مومن غزل گو شاعر تھے ۔ جن کی تمام تر عظمت و بڑھائی کا انحصار ان کی غزل پر ہے ۔

پیدائش کا ایک اور نظریہ : محمد مومن خان مومن 1800ء  میں پیدا ہوئے،تاہم ان کی ولادت کی تاریخوں پر کلب علی خان نے کافی بحث کی ہے اور اختلاف کیا ہے۔ سن وفات 1852ء ہے ۔ والد کا نام حکیم غلام نبی خان ولد نامدار خان تھا ۔ نامدار خان اور کامدار خان دو بھائی شاہ عالم ثانی کے زمانے میں کشمیر سے آ کر دہلی میں سکونت پذیر ہوئے۔دہلی کو چھوڑ کرسہارنپور، بدایوں، رام پور،جہانگیر آبادبھی گئے لیکن دہلی کو مستقلاََ نہ چھوڑ سکے۔دہلی میں شاہی طبیبوں میں شامل ہوئے۔

معاصر شاعر غالب اور مومن : یہ وہ  الفاظ ہیں مرزا غالب کے جو انھوں نے ، نبی بخش حقیر کو ایک خط میں مومن سے مراسم کا ذکر کرتے ہوئے لکھے۔

 “مومن خاں مومن اردو شاعری کے دلچسپ اور متضاد شخصیت کے مالک شاعر ہیں، ایک طرف تو ان کے معاشقوں کی قطاریں لگی ہیں اور دوسرے طرف مذہب میں شدت پسندی ، ایک طرف سید احمد بریلوی سے بیعت کرکے جہاد کی تمنا کرتے ہیں اور دوسری جانب نواب صاحب ٹونک ان کو حج پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں تو معذرت نامہ اس ندامت کے ساتھ ارسال کرتے ہیں کہ زندگی گناہوں میں گزری اب کیا منہ لے کر اس کے حضور میں جائیں “۔

دلی کی سر زمین اور مومن کے شباب کی رنگین مزاجیاں، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے متعدد عشق کئے۔ نو برس کی عمر سے لے کر اکتیس برس کی عمر تک وہ اس راہ پر گامزن رہے ۔ مومن نے اپنی مثنویوں میں جس بے باکی سے کام لیا ہے یہ انھی کا خاصہ ہے ۔ عام انسانوں میں ایسی ہمت نہیں ہوتی۔ عام انسان اپنے عیب چھپانے اور کمالات و اوصاف کے دعووں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن مومن نے اپنے دونوں رخ سامنے رکھ دیئے۔

مومن کی عشق بازیوں کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی یہ بھی ان کی اپنی مثنویوں سے معلوم ہوتا ہے۔مومن نے اپنی پہلی مثنوی “شکایت ستم ” کے آغاز میں خود اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے پہلا عشق نو سال کی عمر میں کیا ۔ عشق بازی کے اس شغل کو مومن یوں لکھتے ہیں۔

یعنی طفلی سے ہوں میں پیر مغاں

بلد گمرہان راہ جہاں

تھے برس ہم شمارہ افلاک

کہ ہوا پائمال صورت خاک

کھودیا چین ایک مہرو نے

شب سیاہ کی ہلالی ابرو نے

ہائے بچپن میں دل کا آ جانا

کچھ سمجھتے نہ تھے پہ کیا جانا

شغل طفلانہ دل کے پاس گئے

ہوش کے آتے ہی حواس گئے

شوق آیا تو دل نوازی کا

کھیل کھیلے تو عشق بازی کا

جس مثنوی کے یہ اشعار ہیں وہ 1231 ھ میں لکھی گئی ہے۔ اس وقت مومن کی عمر سترہ سال کے لگ بھگ تھی ۔

اسلوب بیاں/ شاعری کی نمایاں خصوصیات : اگرچہ مومن نے عربی و فارسی ، طب، نجوم، اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی، واسوخت ، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے مگر ان کا اصل میدان غزل ہی رہا ۔ چونکہ شاعری کا میدان صرف غزل ہے اس لیے ان کے ہاں موضوعات کا تنوع نہیں صرف عشق و عاشقی کی معاملہ بندی ، حسن و جمال ، رشک و حسرت اور انھیں سے متعلق دیگر مضامین مومن کی غزل کا موضوع ہیں ۔مومن کو زبان پر بھی مہارت حاصل تھی۔ مومن لفظیات سے بخوبی واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مناسب موقع پر مناسب الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ اسی طرح مومن نئی ترکیبوں کا استعمال کرتے ہیں ۔ ان کے ذریعے مومن اپنے اسلوب کو سنوارنے اور نکھارنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ خاص کر لفظوں کے الٹ پھیر کے ذریعہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی پرکشش اور دلچسپ بنادیتے ہیں ۔ اس اعتبار سے مومن کے ہاں ایک محدودیت کا سا احساس ہوتا ہے اور تکرار مضامین بھی لیکن اس کے باوجود غالب اور ذوق جیسے بڑے شاعروں کی موجودگی میں اپنی انفرادیت کو نہ صرف قائم رکھنا بلکہ اپنے فن کو منوا لینا بہت بڑی بات ہے چنانچہ مومن نے خود کو منوایا ۔ ایک مثال یہ ملاحظہ فرمائیں۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

مومن کا یہ تاریخی ، انمٹ اور انمول شعر ہے ۔ اس شعر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالب کو اتنا پسند آیا کہ اس شعر کے بدلے وہ پورا دیوان دینے پر رضا مند ہو گئے کہ مومن میرا پورا دیوان لے لے اور بدلے میں مجھے صرف یہ ایک شعر دے دے ۔

وہ خود قلندرانہ اور درویشانہ مزاج کے انسان تھے ۔ اس لیے ان کی شاعری کا رنگ بھی درویشانہ ہے ۔ روایتی غزل کے تقاضوں کی حدود میں رہتے ہوئے مومن نے غزل کو روانی اور توانائی دی ۔ ان کی غزل کا مخصوص لب و لہجہ انھیں کی انفرادیت ۔ ان کی شاعری میں دعوت ، چیلنج ، احتجاج ، ہمت افزائی ، للکار ، طنز ، رس ، زہر ، نوک ، خار اور نوک سوزن سبھی کچھ تو ہے ۔ مومن کا کا کلام انمول اور انمٹ ہے ۔ یہ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے لکھا گیا ہے ۔

وفات : مومن کی صحت وفات سے قبل بہت اچھی  تھی ۔ معاصرین ان کی عمر کا اندازہ کرنے میں دھوکہ کھا گئے، تذکرہ شعرا میں کریم الدین  نے لکھا کہ ان کی عمر قریب چالیس برس  ہوگی۔ کلب علی فائق کے مطابق  جب کریم الدین نے یہ لکھا تب  مومن کی عمر سینتالیس سال تھی۔

کلب علی فائق کے مطابق مومن خان مومن باون سال کے تھے ۔ ایک دن مکان کی مرمت ہو رہی تھی، کڑیاں دوبارہ ڈالی جا رہی تھیں ۔ مومن چھت کی منڈیر پر کھڑے ہو کر مزدوروں کا کام دیکھ رہے تھے کہ دھیان بٹا اور پاؤں پھسلا تو چھت سے نیچے  گر پڑے۔ ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں توٹ گئیں، علاج کیا گیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا، زائچہ دیکھا گیا تو مومن نے بتایا کہ پانچ ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہوں گا اور ایسا ہی ہوا پانچ ماہ بعد  مومن   14 مئی 1852 ء کو اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے۔۔

 تصانیف : مومن خان مومن نے ایک دیوان اور چھ مثنویاں اردو ادب میں اپنی یادگار چھوڑیں ہیں جو آج بھی اردو کا سرمایہ گردانا جاتا ہے ۔

چند اشعار ملاحظہ ہوں جو مومن کی شاعرانہ عظمت کے آمین ہیں :

وہ جو ہم میں تم قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

 

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ

آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے

 

کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں

قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں

 

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومنؔ

رات کاٹی خدا خدا کر کے

 

تو کہاں جائے گی کچھ اپنا ٹھکانہ کر لے

ہم تو کل خواب عدم میں شب ہجراں ہوں گے

نوٹ : امید ہے کہ آپ مومن خان مومن کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply