مولانا شبلی نعمانی کا تعارف اور علمی و ادبی خدمات

آج کی اس پوسٹ میں ہم شبلی نعمانی کا تعارف ، علمی و فکری رحجانات ، شعری و نثری خدمات اور تصانیف پر تفصیل سے بیان کریں گے ۔

مولانا شبلی نعمانی 3 جون 1857ء کو ہندوستان کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک گاؤں بندول میں پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانہ ایک مسلمان راجپوت گھرانہ تھا ۔ ان کے دادا شیوراج سنگھ نے کئی سال قبل اسلام قبول کیا تھا ۔ شبلی نعمانی کا ” شبلی” نام ان کے ایک بزرگ ابو بکر شبلی کی مناسبت سے رکھا گیا جو کہ جنید بغدادی کے شاگرد تھے اور بعد میں ” نعمانی” نام کا بھی انھوں نے اضافہ کیا ۔ شبلی نعمانی کے والد کا نام شیخ حبیب اللہ تھا جو کہ ایک وکیل تھے ۔

شبلی نعمانی نے ابتدائی تعلیم اعظم گڑھ سے حاصل کی اور پھر اس کے بعد فارسی اور عربی ادب کی تحصیل کے لیے غازی پر جا کر مولوی محمد فاروق کے شاگرد ہو گئے ۔ انہوں نے اصول تعلیم کے لیے دور دراز کے سفر بھی کیے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد انہوں نے وکالت شروع کر دی اور کچھ عرصہ امین دیوانی( سلطنت کی آمدنی وصول کرنے والا آفیسر) کی حیثیت سے کام کیا لیکن جلد ہی ان کی طبیعت اس کام سے بیزار ہو گئی ۔

سر سید احمد خان سے ملاقات کے بعد وہ علی گڑھ کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے ۔ 1892ء میں شبلی نعمانی نے مختلف ممالک مصر ، شام ، قسطنطنیہ اور دوسرے اسلامی ممالک کا سفر پروفیسر آرنلڈ کی رفاقت میں کیا ۔ 1898ء سر سید احمد خان کی وفات کے بعد شبلی نعمانی نے علی گڑھ سے استعفیٰ دے دیا اور واپس اعظم گڑھ آ گئے ۔ ان کی کوششوں سے لکھنؤ میں ” ندوۃ العلماء” کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ علی گڑھ کالج سے علیحدگی کے بعد انہوں نے اعظم گڑھ میں ” دارالمصنفین ” کی بنیاد رکھی جو آج تک لاکھوں تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کا کام بخوبی سر انجام دے رہا ہے ۔ یہ ادارہ اسلام اور اسلامیات کے لیے ممتاز تھا ۔

اگرچہ ان کے چھوٹے بھائی تعلیم کے لیے لندن ، انگلینڈ گئے (اور بعد میں واپس آئے، وہ ایک بیرسٹر کی حیثیت سے الہ آباد ہائی کورٹ میں ملازم تھے)، لیکن شبلی نعمانی نے روایتی اسلامی تعلیم حاصل کی۔ ان کے استاد کا نام مولانا فاروق چڑیا کوٹی تھا، جو ایک منطقی عالم اور سر سید احمد خان کے خلاف کھل کر کلام کرنے والے مخالفین میں شامل تھے۔ اس سے شبلی نعمانی کا علی گڑھ اور سر سید احمد خان کے ساتھ تعلق کی وجہ معلوم ہوتی ہے جو انھیں علی گڑھ کھینچ لائی ۔ چڑیا کوٹ سے تعلق خاص اہمیت رکھتا ہے، ڈیویڈ لیلی ویلڈ کہتا ہے کہ “چڑیا کوٹ علما کی ایک منفرد عقلیت پسند اور فلسفی مکاتب کا مرکز تھا، جس نے معتزلہ الہیات، شروعاتی عرب یونانی سائنس اور فلسفے کی ترقی کے ساتھ ساتھ سنسکرت اور عبرانی جیسی زبانوں کا علم حاصل کیا۔”

شبلی نعمانی ایک نابغہ روزگار ہستی تھے ۔ وہ بیک وقت شاعر ، مؤرخ ، سوانح نگار ، انشاء پرداز ، مفکر اور مصلح تھے ۔ وہ سر سید احمد خان کے دبستان سے وابستہ تھے لیکن ان کا اسلوب اور انداز بیان منفرد ہے ۔ وہ اپنی تحریر میں تشبیہات اور استعارات کا بخوبی استعمال کرتے ہیں ۔ وہ ایک اچھے شاعر بھی تھے مگر ان کی وجہ شہرت ان کا نثری کلام بالخصوص سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔

مولانا شبلی نعمانی کے مضامین کی عبارت مختصر اور پرجوش ہوتی ہے ۔ تحریر میں روانی اور دلکشی ہوتی ہے ۔ وہ اپنی بات کو منطقی استدلال اور قوی

دلائل سے ثابت کر کے مضامین کو دلچسپ بناتے ہیں ۔  

ان کو اردو کا پہلا مؤرخ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کی تاریخ نگاری کی بنیاد تحقیق اور سند پر ہے ۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ اگرچہ وہ اس تصنیف کو اپنی زندگی میں مکمل نہ کر سکے اور ان کی وفات کے بعد ان کے ہونہار شاگرد سید سلمان ندوی نے اس کی تکمیل کی ۔ 

مولانا شبلی نعمانی کی چند ایک تصانیف کے نام  مندرجہ ذیل ہیں :-

 شعر العجم (پانچ جلدیں) ، علم الکلام، مقالات شبلی ، الفاروق ، المامون ، سیرت النعمان، الغزالی ، سوانحِ مولانا روم ، سفرنامہ روم و مصر و شام اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وغیرہ ۔

نومبر 1914ء کو شبلی نعمانی کا انتقال ہوا اور18     انھیں اپنے آبائی علاقے اعظم گڑھ میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ 

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply