مناظر سحر نظم کی تشریح

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” مناظر سحر” کی تشریح پڑھیں گے ۔ اس نظم کے شاعر جوش ملیح آبادی ہیں ۔

بند نمبر 1 :

کیا روح فضا جلوہ ، رخسارِ سحر ہے

کشمیر دل زار ہے فردوس نظر ہے

ہر پھول کا چہرہ عرق حسن سے تر ہے

ہر چیز میں اک بات ہے ، ہر شے میں اثر ہے

ہر سمت بھڑکتا ہے رخ حور کا شعلہ

ہر ذرہ نا چیز میں ہے طور کا شعلہ

مشکل الفاظ کے معانی : روح فضا( روح کو تازگی دینے والا ، سکون پہنچانے والا) ، جلوہ (نظارہ ، ظہور) ، رخسارِ سحر (صبح کے گال) ، دل زار (خوبصورت ، حسین دل ، دل کش) ، فردوسِ نظر (آنکھوں کی جنت) ، عرق حسن (حسن کا پسینہ مراد شبنم کے قطرے) ، تر (بھیگا ہوا ) ، رخ حور( حور کا چہرہ) ، ذرہ ناچیز (معمولی سا ذرہ) ، طور (وہ پہاڑ جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو آگ نظر آئی تھی اور انہیں پیغمبری ملی تھی ۔ اسی پہاڑ پر جب انہوں نے اللہ کے دیدار کی خواہش کی تو اللہ کے نور کی تجلی چمکی تھی)

مفہوم :  جلوہ سحر کا منظر کتنا روح پرور ہے کہ  دل کشمیر کی مانند حسین ہو گیا ہے اور آنکھوں میں جنت کے نظارے ہیں ۔ ہر پھول شبنم کے قطروں سے تر ہے ۔ ہر چیز خوبصورت اور اثر انگیز ہو گئی ہے ۔ ہر طرف حسن حور بکھرا ہوا ہے ۔ ہر ذرہ کوہ طور کی تجلی کی مانند روشن ہے ۔

تشریح  : جوش ملی آبادی کا اصل نام شبیر حسن خان ہے ۔ یہ جوش ولولے اور انقلاب کے شاعر ہیں ۔ انھوں نے بیک وقت رومانوی اور انقلابی شاعری کا ڈنکا بجایا ۔ ان کا شمار غزل کے مخالفین میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے غزل کی بجائے نظم ہی کو ذریعہ اظہار بنایا ۔ جوش نے بہت پُرجوش الفاظ استعمال کیے تاکہ پڑھنے والوں کے لیے مہمیز کا کام دیں ۔ ندرت تخیل ، بلند افکار اور جذبات کی فراوانی جوش کی شاعری کی اہم خصوصیت ہیں ۔ انھیں شاعر فطرت ، شاعر انقلاب اور شاعر شباب کے القاب سے پکارا جاتا ہے ۔

تشریح طلب بند میں شاعر نے نہایت خوبصورتی سے طلوعِ صبح کا منظر بیان کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ نمود صبح کے وقت صبح کے رخسار سے جیسے ہی تاریکی کا پردہ اٹھتا ہے ہر طرف صبح کے چہرے کا نور پھیل جاتا ہے ۔ طلوعِ صبح کا یہ منظر نہایت روح پرور ہوتا ہے ۔ جلوہ سحر کی خوبصورتی دیکھ کر روح ترو تازہ ہو جاتی ہے اور دل سرشار ہو جاتا ہے ۔ یہ منظر جنت نظیر وادی کشمیر کی مانند حسین دکھائی دیتا ہے ۔ جہاں ہر طرف پھول ہی پھول کھلے ہیں ۔ پھولوں کی پتیاں شبنم کے قطروں سے دھل کر نکھری ہوئی ہیں ۔ ان پر شبنم کے قطرے ایسے چمک رہے ہیں جیسے کسی حسین چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے ہوں اور اس کے حسن میں اضافہ کر رہے ہوں ۔

بقول شاعر :

پونچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینی حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

گل و گلزار مہک رہے ہیں ۔ عطر بیز ، خوشبودار ہوائیں چل رہی ہیں ۔ ہر چیز میں ایک خوبصورتی اور اثر انگیزی ہے ۔ آنکھوں میں جنت کے نظارے سمائے ہوئے ہیں ۔ ہر طرف نور ہی نور اور حسن ہی حسن چھایا ہوا ہے ۔ گویا جنت کی حوروں کا حسن بکھرا ہوا ہو ۔ ان کے چہروں سے حسن کی تجلیاں نکل کر پھیلی ہوئی ہوں ۔

بقول شاعر :

صبح کا منظر ہے کتنا دل نشیں

ہر طرف ہے نور سا پھیلا ہوا

ریت کا ہر ایک ذرہ معمولی ذرہ بھی ایسے چمک رہا ہے جیسے کوہ طور نور خدا کی تجلی سے روشن ہو شاعر نے یہاں ” کوہ طور ”  کی تلمیح استعمال کی ہے ۔ طور وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسی علیہ السلام کو آگ نظر آئی تھی اور اللہ نے انہیں پیغمبری عطا فرمائی تھی ۔ اسی پہاڑ پر وہ اللہ سے ہم کلام ہوتے تھے اور جب انھوں نے اللہ سے دیدار کا مطالبہ کیا تو اسی طور پہاڑ پر اللہ کے نور کی ایک تجلی آ کر پڑی تو کوہ طور ریزہ ریزہ ہو گیا اور حضرت موسی علیہ السلام بے ہوش ہو گئے ۔ شاعر کہتا ہے طلوع صبح کے وقت ریت کا ہر ذرہ اسی طور پہاڑ کی طرح روشن ہے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کر رہا ہے ۔ جس طرح ایک ماہر مصور مختلف رنگوں اور برش کے استعمال سے کسی خوبصورت منظر کی تصویر کشی کرتا ہے بالکل اسی طرح ایک شاعر اپنی قوت تخیل اور الفاظ و تراکیب کے استعمال سے خوبصورت اور دیدہ دیدہ زیب مناظر پیش کرتا ہے ۔ اسے اصطلاح میں شاعرانہ مصوری کہا جاتا ہے ۔ جوش ملیح آبادی نے بھی شاعرانہ مصوری کے ذریعے مناظر سحر کی دلکش تصویر کشی کی ہے ۔ مختلف تشبیہات اور استعارات کے استعمال سے صبح کے منظر کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔ الغرض یہ نظم لفظی صنعت گری کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔

بند نمبر 2 :

لرزش و ستاروں کی وہ ذروں کا تبسم

چشموں کا وہ بہنا کہ فدا جن پہ ترنم

گردوں پہ سفیدی و سیاہی کا تصادم

طوفان وہ جلووں کا ، وہ نغموں کا تلاطم

 اڑتے ہوئے گیسو ، وہ نسیمِ سحری کے

شانوں پہ پریشان ہیں یا بال پری کے

مشکل الفاظ کے معانی : لرزش( لرزنا کانپنا مراد ستاروں کی جھلملاہٹ) ،  تبسم (مسکراہٹ) ، فدا (قربان ، نثار) ،  گردوں (آسمان ) ، سپیدی (سفیدی ، روشنی) ،  سیاہی( مراد اندھیرا ) ، تصادم( ٹکراؤ) ، جلووں( نظاروں) ، تلاطم( جوش و خروش ،  نغمات کا زیرو بم آواز کا ٹکراؤ) ، گیسو ( زلفیں) ، نسیم سحر (صبح کی ہوا) ، شانو( کندھوں) ، پریشان بال (بکھرے بال)

مفہوم  : نمود صبح کے وقت ستارے جھلملا رہے ہیں اور ریت کے ذرے مسکرا رہے ہیں ۔ چشموں کے بہنے کی خوبصورت آوازیں اتنی سریلی ہیں کہ ان پر نغمے بھی فدا ہو جائیں ۔ آسمان پر اندھیرے اور اجالے میں تصادم ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں نظاروں کا طوفان برپا ہے اور نغموں کا زیرو بم ہے ۔ نسیمِ سحر کی لہراتی ہوئی زلفیں ایسے لگ رہی ہیں جیسے کسی پری کے شانوں پر بال بکھرے ہوئے ہیں ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر طلوعِ صبح کا منظر ایک منفرد انداز میں بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ جس وقت صبح کے اثار نمودار ہو رہے تھے آسمان پر ستارے جھلملا رہے تھے۔  ان کی جھلملاہٹ ٹمٹماتے ہوئے چراغوں کی مانند تھی جیسے صبح کے وقت چراغ کے لو بجھنے سے پہلے کچھ دیر ٹمٹماتی ہے اور پھر بجھ جاتی ہے ۔ ایسے ہی آسمان پر ستارے غائب ہونے سے پہلے جھلملا رہے ہیں ۔ جو نمود صبح کی علامت ہے ۔

بقول حفیظ جالندھری :

ستارے زرد ہو چکے

چراغ سرد ہو چکے

وہ ٹم ٹما کے رہ گئے

یہ جھلملا کے رہ گئے

ستاروں کی جھلملاہٹ ایک خوشنما منظر پیش کرتی ہے ۔ زمین پر ریت کے ننھے ذرے مسکرا رہے ہیں ۔ ریت کے ذروں پر جب روشنی کی کرن پڑتی ہے تو چمکنے لگتے ہیں گویا ذرے ستاروں کی شکست پر مسکرا رہے ہیں ۔ اب ستاروں کی بجائے ہماری چمکنے کی باری ہے ۔

بقول شاعر :

اس شان سے طلوعِ سحر کی سنی نوید

تاروں کی روشنی کا سماں ختم ہو گیا

ندی نالوں اور چشموں کا پانی ایک موسیقی پیدا کر رہا ہے ۔ پانی کے گرنے کی صدائیں اور لہروں کی آوازیں ایسی معلوم ہوتی ہیں گویا کوئی خوش گلو نغمہ گنگنا رہا ہے ۔ پانی کے نغمے اتنے خوبصورت ہیں کہ دنیا کے نغمے ان پر فدا ہو جائیں ۔ آسمان پر اجالے اور اندھیرے کا تصادم ہو رہا ہے ۔ اجالا اندھیرے سے ٹکرا رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں جلوے اور نظارے تخلیق ہو رہے ہیں ۔ جس طرح دو چیزوں کے ٹکرانے سے ایک زوردار آواز آتی ہے ۔

شاعر کہتا ہے اجالے اور اندھیرے کے ٹکرانے سے بھی آواز پیدا ہو رہی ہے لیکن یہ آواز نغموں کی طرح خوبصورت اور دل نشین ہے ۔ اجالے اور اندھیرے کے تصادم کے نتیجے میں جلووں اور نظاروں کے طوفان کے ساتھ ساتھ نغموں کا تلاطم بھی برپا ہے ۔

بقول شاعر :

یہ وقت صبحوں رنگین نظارے سبزہ زاروں میں

شراب سرخ کی بارش ہے متوالی بہاروں میں

آخر میں شاعر صبح کی ہوا کو ایک پری سے تشبیہ دیتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے صبح کی ہوا کی زلفیں ایسے لہرا رہی ہیں جیسے کسی حسین پری کے کندھوں پر بال بکھرے ہوئے ہوں اور وہ خراماں خراماں چل رہی ہو ۔

بند نمبر 3 :

وہ پھیلنا خوشبو کا وہ کلیوں کا چٹکنا

وہ چاندنی مدھم ، سمندر کا جھلکنا

وہ چھاؤں میں تاروں کی گل تر کا مہکنا

وہ جھومنا سبزہ ، کا وہ کھیتوں کا لہکنا

شاخوں سے ملی جاتی ہیں شاخیں وہ اثر ہے

کہتی ہے نسیم سحری “عید سحر” ہے

مشکل الفاظ کے معانی : چٹکنا (کھلنا) ، مدھم (دھیمی , ہلکی) ،  جھلکنا (دور سے پانی کی چمک نظر آنا ) ، گل تر (تازہ پھول ، شبنم سے بھیگے پھول) ،  لہکنا (لہلہانہ ) ، نسیمِ سحری( صبح کی ہوا) ،  عید سحر (صبح کی عید)

مفہوم : نمود صبح کے وقت وہ پھولوں کی خوشبو کا پھیلنا اور کلیوں کا کھل کر پھول بننا ۔ وہ ہلکی سی چاند کی روشنی اور سمندر کے پانی کی چمک ۔ وہ ستاروں کی چھاؤں میں شبنم سے بھیگے پھولوں کا مہکنا ۔ وہ سبزے کا جھومنا اور کھیتوں کا لہلہانا ، وہ شاخوں کا شاخوں سے ملنا متاثر کن منظر ہے ۔ صبح کی آواز کہہ رہی ہے یہ صبح کی عید ہے ۔

تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر نمود صبح کا منظر بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کے وقت ہر طرف پھول ہی پھول کھلے ہوئے ہیں ۔ کلیاں چٹک کر پھولوں میں تبدیل ہو رہی ہیں ۔ رنگا رنگ پھولوں کی خوشبو ہوا کے دوش پر سوار ہو کر چہار جانب پھیل گئی ہے ۔ چاند کی روشنی مدھم پڑ گئی ہے ۔

بقول احسان دانش :

اٹھ رہی ہے خود بخود انوار مشرق سے نقاب

چاند کے جلووں کی پھیکی پڑ گئی ہے آب تاب

صبح کا اجالا پھیلنا شروع ہوا تو رات کی تاریکی چھٹتی چلی گئی۔  ستارے ایک ایک کر کے آسمان سے غائب ہو گئے ۔ صبح کی روشنی کی وجہ سے چاند کی چاندنی ماند پڑ گئی ۔ ہلکی چاندنی میں سمندر کا پانی چمکتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ یہ بھی ایک خوبصورت نظارہ ہے ۔ ستارے کی چھاؤں میں شبنم سے بھیگے ہوئے پھول مہک رہے ہیں ۔ نسیمِ سحر کے چلنے سے سرسبز گھاس ، درخت اور پودے لہلہا رہے ہیں اور کھیت خوشی سے جھومتے دکھائی دیتے ہیں ۔ لہلہانے اور جھومنے سے درختوں کی شاخیں اپس میں مل رہی ہیں جس طرح عید کے روز لوگ نہا دھو کر نیا لباس زیب تن کرتے ہیں ، ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح پھول اور درخت بھی صبح کے وقت شبنم سے نہا دھو کر ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور خوشی میں جھوم رہے ہیں ۔ یہ نظارہ بھی بہت اثر انگیز ہے ۔ صبح کی ہوا یہ پیغام سنا رہی ہے کہ آج صبح کی عید ہے یعنی یہ صبح عید کی مانند ہے ۔

بقول میر انیس :

وہ جھومنا درختوں کا پھولوں کی وہ مہک

ہر برگِ گل پہ قطرہ ہے شبنم کی وہ جھلک

بند نمبر 4 :

خنکی وہ بیاباں کی وہ رنگینی صحرا

وہ وادی سر سبزہ و تالاب مصطفا

پیشانی گردوں پہ ، وہ ہنستا ہوا تارا

وہ راستے جنگل کے ، وہ بہتا ہوا دریا

ہر سمت گلستان میں وہ انبار گلوں کے

شبنم سے وہ دھوئے ہوئے رخسار گلوں کے

مشکل الفاظ کے معانی : خنکی ( ٹھنڈک) ، بیابان (ویرانہ) ،  رنگینی صحرا( صحرا کی خوبصورتی) ،  تالاب مصفا (صاف تالاب ) ، گردوں( آسمان ) ، گلستان (چمن ، باغ) ،  انبار (ڈھیر) ،  گلوں (گل کی جمع پھول)

مفہوم :  نمود صبح کے وقت بیابانوں میں ٹھنڈک ہے اور صحرا رنگین و رعنا ہیں ۔ سر سبز وادیوں اور صاف شفاف تالاب قابل دید ہے ۔ آسمان پر صبح کا تارا چمک رہا ہے ۔ جنگل میں بہتا ہوا دریا دلکش نظارہ پیش کر رہا ہے ۔ چمن میں ہر طرف پھولوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ۔ جن کے رخسار شبنم سے دھلے ہوئے ہیں ۔

تشریح :  تشریح طلب بند میں شاعر طلوعِ صبح کی دل آویز تصویر کشی کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کے وقت جنگل اور بیابانوں میں خوشگوار ٹھنڈک ہے ۔ ہوا کے خنکی روح اور جگر کو سرشار کر رہی ہے ۔ صحراؤں کی رنگینی بڑھ رہی ہے ۔ پھول کھل رہے ہیں ۔ ریت کے ذرے ہیروں کی مانند چمک رہے ہیں ۔ سرسبز و شاداب وادیاں اور کوہسار دلفریب نظارہ پیش کرتے ہیں ۔ تالاب کا پانی صاف و شفاف نظر آتا ہے ۔ آسمان کی پیشانی پر صبح کا ستارہ مسکرا رہا ہے ۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ اب صبح طلوع ہونے والی ہے اور رات کا اختتام ہے ۔ صبح کا ستارہ ایک مخصوص ستارہ ہے جو مشرقی افق پر نمودار ہوتا ہے اور دیگر تمام ستاروں سے قدرے زیادہ روشن ہوتا ہے ۔ قدیم زمانہ سے اس کا غروب ہونا صبح کی آمد کی نشانی سمجھا جاتا ہے جیسے ہی صبح کا ستارہ غائب ہوتا ہے پو پھوٹنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ زمین پر ہر طرف روشنی پھیلنے لگتی ہے ۔ نہ صرف زمین بلکہ آسمان بھی روشن ہو جاتا ہے گویا طلوعِ صبح سے زمین و آسمان دونوں منور ہو جاتے ہیں گویا صبح کا ستارہ صبح کی آمد کی نوید سناتا ہے ۔

بقول حفیظ جالندھری :

چلا ستارہ سحر

سنا کے صبح کی خبر

زمین پہ نور چھا گیا

فلک پہ رنگ آگیا

مزید شاعر کہتا ہے کہ صبح کے وقت جنگل کے درمیان میں بہتا ہوا دریا ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے ۔ دریا کی لہروں کی آواز سحر طاری کر رہی ہے ۔ چمن میں ہر طرف پھولوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے ۔ سب پھولوں کے چہرے شبنم کے قطروں سے دھل کر نکھرے ہوئے ہیں ۔

بند نمبر 5 :

وہ روح میں انوار خدا ، صبح وہ صادق

وہ حسن جسے دیکھ کے ہر آنکھ ہو عاشق

وہ سادگی انسان کی فطرت کے مطابق

زریں وہ افق ، نور سے لبریز وہ مشرق

وہ نغمہ داؤد پرندوں کی صدا میں

پیراہنِ یوسف کی وہ تاثیر ہوا میں

مشکل الفاظ کے معانی: انوار خدا (خدا کی تجلیاں ، خدا کا جلوہ) ،  صبح صادق (صبح کی روشنی) ، فطرت (جبلت ، عادت) ،  زریں (سنہرا) ،  افق( آسمان ) ، نور سے لبریز ( روشنی سے بھرا ہوا ) ، نغمہ داؤد (حضرت داؤد علیہ السلام کا نغمہ) ، صدا (آواز ) ، پیرہنِ یوسف (تلمیح  ، حضرت یوسف علیہ السلام کا کرتا جسے آنکھوں سے لگانے پر حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آگئی تھی) ،  تاثیر (اثر)

مفہوم :  صبح صادق کے وقت روح میں خدا کے انوارات اتر رہے ہوتے ہیں ۔ ایسا حسن ہے کہ ہر دیکھنے والی آنکھ عاشق ہو جائے ۔ ایسی سادگی جو انسانی فطرت کے مطابق ہے ۔ آسمان سنہری ہے اور مشرق روشنی سے بھرا ہوا ہے ۔ پرندوں کی آوازیں حضرت داؤد علیہ السلام کا نغمہ معلوم ہوتی ہیں اور ہوا میں حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتے جیسی تاثیر ہے ۔

تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر طلوعِ صبح کے وقت کی خوبصورتی اور اثر انگیزی بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح صادق کا وقت اللہ کی رحمتوں کے نزول کا وقت ہوتا ہے ۔ اس وقت ہر شخص کا دل عبادت اور تسبیح و تحمید کی جانب مائل ہوتا ہے ۔ یہ ایک روح پرور منظر ہوتا ہے ۔ روح میں اللہ کے انوارات اور تجلیات اتر رہی ہوتی ہیں ۔ قلبی سکون اور طمانیت ناقابلِ بیان ہوتی ہے ۔ حسن فطرت کے جلوے ہر جانب بکھرے ہوتے ہیں۔  یہ حسن ایسا ہے کہ ہر دیکھنے والی آنکھ اس کی عاشق ہو جائے ۔ وہ قول صادق آتا ہے ۔

” صبح کا وقت جنت کے اوقات میں سے ہے “

اور بقول شاعر :

صبح کو منظر ہے کتنا دل نشیں

ہر طرف ہے نور سا پھیلا ہوا

شاعر مزید کہتا ہے کہ صبح کے وقت ماحول میں ایسی سادگی ہے کہ وہ عین انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے ۔ اس میں تصنع اور بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ۔ طلوعِ آفتاب کے وقت افق سنہرے رنگ میں نہا جاتا ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے حسینہ سحر سنہری لباس میں ملبوس جلوہ افروز  ہو ۔

بقول حفیظ جالندھری :

اٹھی حسینہ سحر

پہن کے سر پہ تاج زر

شاعر کہتا ہے کہ افق سنہرے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے اور مشرقی روشنی سے بھرا ہوا ہے ۔ چونکہ مشرق سے آفتاب طلوع ہوتا ہے ۔ اس لیے مشرق سب سے زیادہ روشن ہوتا ہے ۔ شاعر مزید کہتا ہے صبح کے وقت  خوش آواز پرندوں کی صدائیں کانوں میں رس گھولتی ہیں ۔ یہ آوازیں ایسی پر لطف ہوتی ہیں جیسے نغمہ داؤد ہو ۔ شاعر نے یہاں تلمیح استعمال کی ہے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے خاص پیغمبر تھے ۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے ایسی خوش الحانی عطا فرمائی تھی کہ جب وہ زبور کی تلاوت کرتے اور اللہ کی حمد و ثنا کرتے تو پہاڑ بھی جھومنے لگتے تھے اور ہواؤں میں اڑتے پرندے ان کی آواز سننے کے لیے رک جاتے تھے ۔ صبح کے وقت پرندے بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں ۔

شاعر کہتا ہے یہ حمد و ثنا نغمہ داؤد کی مانند ہے ۔ قران مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا ترجمہ ہے ۔

” کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم اسے نہیں سمجھتے ۔ “

سورۃ بنی اسرائیل آیت 44

آخر میں شاعر کہتا ہے کہ صبح کی ہوا میں ایسی تاثیر ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتے میں تھی یہاں بھی شاعر نے پیرہنِ یوسف کی تلمیح استعمال کی ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے کرتے کی تاثیر یہ تھی کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے کرتا آنکھوں کو لگایا تو ان کی بینائی لوٹ آئی ۔ اس بند میں بھی شاعر نے شاعرانہ مصوری سے کام لیا ہے اور خوبصورت تلمیحات سے صبح کی آمد کی دل آویز منظر کشی کی ہے ۔

بند نمبر 6 :

وہ برگِ گُل تازہ ، وہ شبنم کی لطافت

ایک حسن سے وہ خندہ سامان حقیقت

وہ جلوہ اصنام ، وہ بت خانہ کی زینت

زاہد کا و منظر وہ برہمن کی صباحت

ناقوس کے سینے سے صدائیں وہ فغاں کی

وہ حمد میں ڈوبی ہوئی آواز اذاں کی

مشکل الفاظ کے معانی : برگ گل (تازہ تازہ پھول کی پتی) ،  لطافت( نرمی ، پاکیزگی) ،  خندہ (مسکراہٹ) ، سامان حقیقت (حقیقت کا سامان) ، جلوہ اصنام (بتوں کا جلوہ) ، زینت (خوبصورتی) ، زاہد (پرہیزگار ، نیک آدمی ) ،برہمن (ہندوؤں کا مذہبی پیشوا) ،  صباحت (خوبصورتی ) ، ناقوس (وہ سنکھ جو ہندو پوجا کے وقت بجاتے ہیں ، بگل ) ، فغاں (فریاد ) ، حمد (اللہ تعالیٰ کی تعریف)

مفہوم : صبح کے وقت تازہ کھلے ہوئے پھولوں پر شبنم کی لطافت قابل دید ہے ۔ ایک حسن سے یہ سب چیزیں مسکرا رہی ہیں ۔ بت خانوں کی سجاوٹ اور بتوں کا جلوہ قابلِ دید ہے ۔ برہمن کے چہرے کی خوبصورتی عیاں ہے ۔ بت خانہ سے ناقوس کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔ دوسری طرف مسلمان عبادت گزاروں کا منظر ہے اور اللہ کی حمد میں ڈوبی ہوئی اذان کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔

تشریح: تشریح طلب بند میں شاعر طلوعِ سحر کے خوبصورت مناظر بیان کرتا ہے اور مختلف مذاہب کی صبح کی عبادت کی منظر کشی کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کے وقت ہر طرف رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں اور یہ پھول شبنم کے قطروں سے دھلے ہوئے ہیں ۔ شبنم کے قطروں کی تراوٹ اور لطافت سے پھولوں کی خوبصورتی مزید نکھر گئی ہے ۔ ان کا حسن سامان حقیقت کی مسکراہٹ معلوم ہوتا ہے ۔ تمام چیزیں ایک حسن ترتیب کے ساتھ پڑی نظر آتی ہیں ۔ صبح کے حسن کی وجہ سے کائنات کی ہر چیز کی خوبصورتی بڑھ گئی ہے ۔ صبح کا وقت عبادت اور سعادت کا وقت ہوتا ہے ۔ صبح کے وقت ایک خاص کیفیت ہوتی ہے اور اس وقت عبادت میں ایک خاص کیف ہوتا ہے ۔ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے ۔ اس لیے دعائیں خود بخود منہ سے نکلتی ہیں ۔ ہر مذہب کے ماننے والے عبادت کی جانب مائل ہوتے ہیں اور عبادت کی تیاری کرنے لگتے ہیں ۔ پرند ، چرند ، انسان ، حیوان سبھی بیدار ہو جاتے ہیں اور اپنے اپنے رسم و رواج کے مطابق عبادت کرتے ہیں ۔

بقول حفیظ جالندھری :

عبادتوں کے در کھلے

سعادتوں کے در کھلے

در قبول وا ہوا

دعا کا وقت آ گیا

چنانچہ شاعر مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں اور ان کی رسوم عبادت کی منظر کشی کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے صبح کے وقت بت خانے سج گئے ہیں اور ان میں بتوں کو آراستہ کیا جا رہا ہے ۔ ان کی سج دھج اور جلوہ دیکھنے کے قابل ہے ۔ ہندوؤں کے مذہبی پیشوا برہمن کا چہرہ چمک رہا ہے۔  بت خانوں اور مندروں سے بگل بجنے کی آواز فضا میں بلند ہوتی جا رہی ہے ۔ جسے سن کر پجاری مندر میں عبادت کے لیے چل پڑے ہیں ۔ جوش ملی آبادی لکھنؤ میں رہتے تھے وہاں ان کے آس پاس کثرت سے ہندو رہتے تھے ۔ جوش ہر روز صبح کے وقت ان کی رسومات عبادت دیکھتے تھے ۔ چنانچہ انھوں نے اس نظم میں بھی اسی کا تذکرہ کیا ہے ۔ دوسری طرف مسلمان بھی اپنے رب کی عبادت کے لیے بیدار ہو گئے ہیں اور مساجد سے اللہ کی حمد و ثنا میں ڈوبی اذان کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں ۔ مسلمان اپنے رب کے حضور سر بسجود ہونے کے لیے گھروں سے نکل کر مساجد کی جانب گامزن ہیں ۔ الغرض صبح آنکھ کھلتے ہی ہندو مسلم سب اپنے رب کی عبادت کے لیے مستعد ہو جاتے ہیں ۔

بقول حفیظ جالندھری :

 اذان کی صدا اٹھی

جگا دیا نماز کو

چلی ہے اٹھ کے بندگی

لیے ہوئے نیاز کو

صنم کدہ بھی کھل گیا

اٹھا ہے شور سنکھ کا

چلو نمازیوں چلو

اٹھو پجاریوں اٹھو

عبادتوں کے در کھلے

سعادتوں کے در کھلے

بند نمبر 7 :

آقا کا غلاموں سے یہ ہے قرب کا ہنگام !

دل ہوتے ہیں سرشار ، فنا ہوتے ہیں آلام

چھا جاتی ہے رحمت ، تو برس پڑتے ہیں انعام

اس وقت کسی طرح مناسب نہیں آرام

رونے میں جو لذت ہے تو آہوں میں مزہ ہے

اے روح ! خودی چھوڑ کے نزدیک “خدا “ہے

مشکل الفاظ کے معانی : قرب کا ہنگام( قریب ہونے کا وقت) ، سرشار (مست ، بے خود) ، فنا (ختم ہونا) ، آلام ( الم کی جمع غم  ،مصائب) ، لذت (مزہ) ، آہوں (آہ کی جمع فریاد) ، خودی (غرور ، خود پسندی)

مفہوم :  یہ آقا و مالک کا اپنے بندوں سے قریب ہونے کا وقت ہے ۔ اس وقت دل بے خود ہو جاتے ہیں اور سب رنج و الم ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس وقت رحمت رب چھا جاتی ہے اور انعامات کی بارش ہوتی ہے ۔ اس وقت آرام کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ۔ اس وقت اللہ کے سامنے آہ و فریاد کرنے میں ایک لذت ہے ۔ اے روح غرور چھوڑ کر عاجزی اختیار کر کہ اس وقت خدا بہت قریب ہے ۔

تشریح : تشریح طلب بند میں شاعر صبح کے وقت عبادت کی کیفیت بیان کرتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ صبح کا وقت بڑا سعادت اور برکت والا ہوتا ہے ۔ صبح کا وقت آقا کا غلاموں کے قریب ہونے کا وقت ہوتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو انسانوں کا خالق و مالک ہے صبح کے وقت اپنے بندوں کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ اس وقت دل نرم ہوتے ہیں اور روحانی جذبات سے بھرے ہوتے ہیں ۔ اس وقت اللہ کی قربت میں ایسا کیف ہوتا ہے کہ دل بے خود اور سرشار ہو جاتے ہیں ۔ قربت کی اس لذت سے آشنا ہونے کے بعد دلوں کی پریشانیاں اور غم خود بخود ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس وقت اللہ کی رحمت چھائی ہوتی ہے اور اس کا انعام و اکرام بارش کی طرح برس رہا ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایسے میں غفلت کی نیند سونا اور آرام کرنا مناسب نہیں ۔ ورنہ اس انعام و اکرام اور رحمت سے محرومی مقدر ہو جائے گی ۔

بقول شاعر :

حیف تو سوتا رہے ہر صبح اور وقت اذاں

مرغ و ماہی سب اٹھیں یاد خدا کے واسطے

یہ وقت اللہ کے سامنے دعا و مناجات کرنے کا ہے ۔ اللہ کے سامنے اپنے دکھ درد اور پریشانیاں بیان کرنے کا بہترین وقت ہے ۔ اس وقت رب کے حضور آہ و فریاد کرنے اور آنسو بہانے میں ایک خاص لذت ہے ۔

بقول شاعر :

ساری چمک دمک تو ان موتیوں سے ہے

آنسو نہ ہو تو عشق میں کچھ آبرو نہیں

چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے روح خود پسندی ، انا اور غرور چھوڑ دے اور عاجزی اور انکساری اختیار کر کیونکہ اس وقت خدا بہت نزدیک ہے ۔ آقا و مالک کے سامنے نیاز مندی ضروری ہے ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” مناظر سحر” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply