مل کے بیٹھے نہیں خوابوں میں شراکت نہیں کی

آج کی اس پوسٹ میں ہم ظفر اقبال کی غزل ” مل کے بیٹھے نہیں خوابوں میں شراکت نہیں کی ” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کریں گے ۔

شعر نمبر 1 :

مل کے بیٹھے نہیں خوابوں میں شراکت نہیں کی

اور کیا رشتہ ہو تجھ سے جو محبت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : شراکت( حصہ داری ، شریک ہونا ) ، رشتہ (ناطہ،  تعلق)

مفہوم :  میں نے اگر تم سے محبت نہیں کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کبھی تمہارے قریب نہیں رہا اور نہ ہمارے خواب مشترک ہیں ۔

تشریح : ظفر اقبال جدید غزل کے منفرد شاعر ہیں انہوں نے غزل کے پرانے روایتی انداز سے انحراف کیا اور جدت طرازی سے کام لیا ہے ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر محبت نہ کرنے کی توجیہ بیان کرتا ہے ۔ شاعر محبوب سے شکوہ کرتا ہے کہ اے محبوب ہم کبھی مل کے بیٹھے نہیں اور ملاقات نہیں کی ۔ ہمارے خواب بھی مشترک نہیں ہے تو پھر اس رشتے کو کیا نام دیں ۔  یہ محبت نہیں ہے قریب رہنے سے ایک دوسرے سے واقفیت بڑھتی ہے اور ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملتا ہے ایک دوسرے کے خیالات اور رجحانات کے متعلق آگاہی حاصل ہوتی ہے جو محبت کا باعث بنتا ہے ۔ محبت قربت کا تقاضا کرتی ہے قربت سے محبت زندہ و جوان رہتی ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے کہ اگر دو افراد کے خواب و خیالات اور خواہشات مشترک ہوں تو وہ بھی محبت کے تعلق کی بنیاد بن جاتی ہیں۔  ذہنوں کی یکسانیت دلوں کی قربت کا باعث بنتی ہے۔  ایک دوسرے کے قریب آنے اور محبت کا تعلق پروان چڑھنے کا باعث بنتی ہے۔  محبت کی روایتی صورت میں یہی ہوتا ہے کہ چاہنے والے کبھی مل کر بیٹھتے ہیں اور آپس میں بات چیت کرتے ہیں اور خوشی و مسرت کی باتیں کرتے ہیں ان میں ہم آہنگی بڑھتی ہے اور کبھی دوری یا جدائی درپیش ہو اور ملاقات کی ظاہری صورت ممکن نہ رہے تو خوابوں میں ملاقات کا ذریعہ تلاش کر لیا جاتا ہے لیکن یہاں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب روایتی عاشقوں کی طرح ہم کبھی مل کر بیٹھے نہ کبھی اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔ ہمارے خواب و خیال بھی مشترک نہیں ہیں ۔ ہمارے درمیان محبت کا رشتہ پھر کیسے قائم ہو سکتا ہے ۔

بقول بشیر بدر :

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی

بڑی آرزو تھی ملاقات کی

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر کہتا ہے اے محبوب اگرچہ ہم نے کبھی ملاقات نہیں کی نہ آپس میں مل کر بیٹھے نہ کبھی ملنے کی فرمائش کی لیکن میں نے اپنے خوابوں اور خیالوں میں تمہارے علاوہ کسی کو شریک نہیں کیا ۔ یہ محبت نہیں تو اور کیا ہے ۔ دوسرے مصرعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر سے محبوب نے شکوہ کیا ہے اور کسی اور نے اعتراض کیا ہے کہ تمہیں محبوب سے محبت نہیں کیونکہ روایتی عاشقوں کی طرح نہ تم نے کبھی ملاقات کی نہ کچھ بات کی جس کے جواب میں شاعر کہتا ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ محبت میں روز ملاقاتیں اور باتیں ہوں تو ہی محبت کی توثیق ہوگی بسا اوقات جن سے روز ملاقات اور بات چیت ہوتی ہے ان کے ساتھ دل کا رشتہ نہیں ہوتا لیکن بعض لوگ نظروں سے دور ہوتے ہوئے بھی دل کے قریب ہوتے ہیں اور خوابوں اور خیالوں میں وہی چھائے رہتے ہیں ۔ محبوب سے میری محبت بھی ایسی ہی ہے کہ اگرچہ ہم نے کبھی مل بیٹھ کر بات چیت نہیں کی کبھی ملاقات نہیں کی لیکن خوابوں اور خیالوں میں محبوب کے علاوہ کسی کو شریک نہیں کیا ۔ انسان عموماً جس کے بارے میں زیادہ سوچتا ہے وہی اس کے خواب میں آتا ہے چنانچہ شاعر کہتا ہے میرے خیالوں میں ہمہ وقت محبوب ہی بسا ہوتا ہے اس کے علاوہ کسی کا خیال نہیں آتا ۔ وہی میرے خوابوں میں ہوتا ہے یہ محبت ہی تو ہے ۔

بقول احمد فراز :

ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز

ایک ہی شخص کو محبوب بنائے رکھنا

شعر نمبر 2 : 

یہیں پھرتے ہیں شریف آدمیوں کی صورت

دشت میں خاک اڑائی نہیں ، وحشت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : دشت (صحرا ، بیابان ) ، خاک اڑانا( آوارہ پھرنا ) ، وحشت( خوف ،  گھبراہٹ ،  دیوانگی جنون)

مفہوم :  ہم محبت میں بھی شریف آدمیوں کی طرح شہر میں پھرتے رہے دیوانوں کی طرح جنون کے عالم میں صحراؤں میں جا کر خاک نہیں اڑائی ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں اسی شہر میں اپنے گلی محلوں میں شریف آدمیوں کی طرح رہتا ہوں ۔ روایتی عاشقوں کی طرح دیوانگی اور جنون کے عالم میں کبھی گریبان چاک نہ کیا ۔ کبھی وحشت میں جنگلوں اور صحراؤں کی خاک چھانی نہ میں نے اپنی محبت کا چرچا کیا ۔ میں نے محبت کو اپنے دل و دماغ تک محدود رکھا کیونکہ میرے نزدیک اس کا چرچا کرنا آدابِ محبت کے خلاف ہے ۔

بقول علامہ اقبال :

خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

عموماً روایتی عاشقوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ محبوب سے محبت کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔ محبوب کی طلب میں اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں ۔ جب ان کی خواہشات پوری نہیں ہوتی اور عشق ان کے ذہن و دل پر چھا جاتا ہے تو ان کی بے قراری اور بے تابی بھڑک کر جنون اور وحشت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔  وحشت وسعت کا تقاضا کرتی ہے اس لیے عاشق کا شہروں اور بستیوں میں دم گھٹنے لگتا ہے وہ جنگلوں ، صحراؤں اور بیابانوں کا رخ کرتے ہیں ۔ جنون میں اپنا گریبان چاک کرتے ہیں ۔ محبوب کا نام لے لے کر اسے پکارتے ہیں اور آہ و فریاد سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔

بقول شاعر :

کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی در بدر

غم عاشقی تیرا شکریہ میں کہاں کہاں سے گزر گیا

تشریح طلب شعر میں شاعر اس روایتی انداز سے انحراف کرتے ہوئے حق گوئی سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے میں نے عشق تو کیا لیکن میرا عشق شریفانہ تھا روایتی عاشقوں جیسا نہیں تھا نہ میں نے گریبان چاک کیا نہ شہروں اور بستیوں کو چھوڑ کر دشت و بیاباں کا رخ کیا ۔ میں اسی شہر میں عام لوگوں کی طرح زندگی گزار رہا ہوں ۔ عشق و محبت میں بے قراری اور بے تابی اپنی جگہ لیکن میں نے کبھی وحشت و جنون کا اظہار نہیں کیا۔  میری حالت روایتی عاشقوں اور دیوانوں جیسی نہیں ۔

بقول احمد فراز :

چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فراز

دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ شریف آدمیوں کی طرح یہیں شہر میں پھرتا ہوں اور آرام و سکون سے زندگی بسر کرتا ہوں ۔ میں نے محبت نہیں کی ۔ محبت کرنے والے عاشقوں کی طرح دیوانگی اور جنون میں میرا برا حال نہیں ہوا۔  میں نے صحراؤں کی خاک چھانی ن وحشت کا اظہار کیا گویا میں نے محبت ہی نہیں کی ۔

شعر نمبر 3:

خاص ہم سے تو کوئی تھا ہی نہیں تیرا سلوک

اور ہم نے بھی تیرے ساتھ رعایت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : خاص( اہم ، غیر معمولی) ،  رعایت (مہربانی ، عنایت ، لحاظ)

مفہوم : تمہارا سلوک ہمارے ساتھ کوئی خاص نہیں تھا اور ہم نے تمہارا کوئی لحاظ نہیں کیا ۔

تشریح : غزل کی روایتی انداز میں عموماً محبوب کو ظالم اور بے پرواہ ظاہر کیا جاتا ہے جو عاشق سے ہمیشہ بے رخی سے پیش آتا ہے۔  اس کے طرح طرح سے امتحان لیتا ہے جبکہ عاشق محبوب کی خاطر ہزاروں قربانیاں دیتا ہے تاکہ اس کے دل میں اپنے لیے نرم گوشہ بنا سکے ۔ اس کی بے رخی پر تڑپ جاتا ہے ۔ اس کی ایک نظر کرم اور عنایت کے لیے ہمیشہ عاجزی اور منت سماجت کا رویہ اختیار کرتا ہے لیکن محبوب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔

بقول مومن خان مومن :

اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا

رنج راحت فضا نہیں ہوتا

اور بقول میر تقی میر :

بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

تشریح طلب شعر میں شاعر اس روایتی انداز سے انحراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے محبوب تمہارا رویہ بھی ہمارے ساتھ کوئی خاص نہیں تھا اس لیے ہم نے بھی تمہارے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی ۔ تمہارا کوئی لحاظ نہیں کیا تم ہمارے ساتھ بے رُخی اور سرد مہری سے پیش آئے تو ہم نے بھی منت سماجت کرنے کی بجائے بے رُخی اور سرد مہری کا رویہ اختیار کیے رکھا ۔ تمہاری بے رُخی کا جواب بے رُخی ہی سے دیا ۔ روایتی عاشقوں کی طرح ہم نے عاجزی اور منتیں نہیں کیں ۔

بقول داغ دہلوی :

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

اور بقول مرزا غالب :

وہ اپنی خوں نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

الغرض میرے ساتھ تمہارا سلوک عام لوگوں کی طرح تھا ۔ تم نے مجھے کوئی خاص اہمیت نہیں دی بلکہ ہمیشہ نظر انداز کیا ۔ تمہاری بے رُخی اور بے نیازی دیکھ کر ہم نے بھی تمہارے ساتھ کوئی احسان نہیں کیا اور نہ تم پر کوئی مہربانی کی ۔ میں نے بھی تمہاری طرف توجہ دینا چھوڑ دی ۔

بقول وزیر علی صبا :

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

شعر نمبر 4 :

پوچھ لیتے کبھی تیرا بھی ارادہ تجھ سے

ہم نے چاہا تو کئی بار تھا ہمت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : ارادہ( نیت ،  خواہش ، عزم ،  مرضی) ،  ہمت (جرات ،  حوصلہ ، طاقت )

مفہوم : ہم نے کئی بار چاہا کہ تمہاری بھی مرضی پوچھیں لیکن پوچھنے کا حوصلہ نہ ہوا ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی کم ہمتی اور کم حوصلگی بیان کر رہا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے کئی بار چاہا کہ محبوب سے اس کی مرضی پوچھ لیں کہ وہ بھی ہم سے محبت پر آمادہ ہے یا نہیں کیونکہ ہم نے کبھی کھل کر اظہار کیا نہ محبوب نے اپنے رویے اور اشارے کنائے سے کوئی ایسا پیغام دیا جس سے معلوم ہو جاتا کہ وہ ہمارے بارے میں کیا جذبات رکھتا ہے ۔ ایک انجانے خوف اور حزم و حجاب کی وجہ سے محبوب سے کبھی اس کے دل کی بات پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی نہ تو ہم نے اظہار کیا اور نہ محبوب سے اس کا ارادہ ہی پوچھا کہ اس کے دل میں کیا ہے ۔

بقول برق :

رہی دل کی دل میں زبان تک نہ پہنچی

محبت کی دنیا بیاں تک نہ پہنچی

اور بقول احمد فراز :

اہل محفل پہ کب احوال کھلا ہے اپنا

ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پرسش نہیں کی

محبوب سے اس کی مرضی اور ارادہ نہ پوچھنے کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ بعض اوقات کوئی بات انسان کے اپنے نقطہ نظر سے بہت اہم ہوتی ہے لیکن اسے خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں مخاطب اسے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز نہ کر دے یا اس کی بات کا برا مان لیں اور ناراض ہو جائے ۔ چنانچہ شاعر کو بھی یہی خدشہ لاحق تھا کہ کہیں محبوب اس کی بات کا برا نہ مان لیں اور ناراض نہ ہو جائے ابھی تو وہ محبت کی خوش فہمی میں مبتلا ہے لیکن محبوب نے اگر انکار کر دیا اور برا مان لیا تو یہ ایک  یک طرفہ تعلق بھی ختم ہو جائے گا ۔

بقول سرمد صہبائی :

میں آج بھی نہ تم سے کوئی بات کر سکا

لفظوں کے پتھروں میں تمنا دبی رہی

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شاعر کو محبوب کی گفتگو اور قربت کی لذت کی وجہ سے بات کرنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔ محبوب کو حسن و جمال اور رعنائی دیکھ کر اس کے ہوش و حواس جاتے رہے ہیں ۔ وہ خاموش بت بنا محبوب کو دیکھتا رہتا ہے اور اس کی گفتگو سنتا رہتا ہے اپنی سوچی ہوئی باتوں میں سے کچھ بھی نہیں کہہ پاتا ۔

بقول فراق گورکھپوری :

تم مخاطب بھی ہو اور قریب بھی ہو

تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

تیسری وجہ محبوب کا رعب و وقار ہو سکتا ہے ۔ محبوب جب سامنے آتا ہے تو اس کے رعب اور وقار کی وجہ سے شاعر کو اس کے سامنے کچھ بولنے یا اس سے کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی اور محبوب کے جانے کے بعد وہ کف افسوس ملتا ہے کہ آج بھی وہ اس سے کوئی بات نہیں کر سکا ۔

بقول شاعر :

وہ سامنے جب آ جاتے ہیں یک لخت یہ کیا ہو جاتا ہے

میں دل سے جدا ہو جاتا ہوں دل مجھ سے جدا ہو جاتا ہے

الغرض شاعر کہتا ہے کہ کئی بار میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں محبت کا اظہار کروں اور محبوب سے بھی اس کا ارادہ پوچھ لوں کہ اس کے دل میں بھی میرے لیے محبت ہے یا نہیں ۔ شاعر کو اپنے دل کی کیفیت تو معلوم ہے لیکن اسے افسوس اس بات کا ہے کہ وہ کبھی محبوب کے دل کی بات نہ جان سکا  ۔

بقول ناصر کاظمی :

کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سنا

دل میں رہ گئی دل کی بات

شعر نمبر 5 :

بہت اچھا بھی لگا تو ، ہمیں اس محفل میں

ہم نے دانستہ وہاں تیری حمایت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : محفل (بزم ، انجمن ، مجلس ) ، دانستہ( جان بوجھ کر ، ارادۃ) ،  حمایت (طرف داری ، جانبداری یہاں مراد تعریف)

مفہوم : اگرچہ محفل میں تم بہت اچھے لگ رہے تھے لیکن ہم نے جان بوجھ کر تمہاری تعریف نہیں کی۔

تشریح :  کلاسیکی شعری روایت میں عموماً عاشق محبوب کی بڑھا چڑھا کر تعریف و توصیف کرتا ہے ۔ اس کے حسن و جمال ، لب و رخسار چہرے اور گیسوؤں کی تاریخ میں مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے ۔ دوسرے حسینوں کے مقابل محبوب کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس کے چہرے کو چاند اور لبوں کو گلاب سے زیادہ خوبصورت بناتا ہے ۔ اسے پرستان کی پریوں اور جنت کی حوروں سے بھی بڑھ کر محبوب کی رعنائی اور حسن و جمال نظر آتا ہے ۔ بقول شاعر :

خدا نے حسن سارا بھر دیا تیری صورت میں

پرستاں میں پری ایسی ، نہ حور ایسی ہے جنت میں

تشریح طلب شعر میں شاعر ظفر اقبال اس شعری روایت سے مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔  شاعر ایسی محفل میں موجود تھا جہاں بہت سے لوگ جمع تھے اور محبوب بھی وہاں جلوہ افروز تھا ۔ سب لوگ محبوب کے حسن و جمال اور رعنائی کی بڑھا چڑھا کر تعریف کر رہے تھے ۔ اگرچہ شاعر کو بھی محبوب سب سے زیادہ حسین نظر آ رہا تھا اور عزیز بھی تھا لیکن اس کے باوجود جب شاعر سے محبوب کے بارے میں پوچھا گیا تو شاعر نے تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا اور محبوب کی کوئی خاص تعریف نہیں کی بعد میں شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ اگرچہ محفل میں کوئی تجھ سا حسین نظر نہیں آیا اور تم ہی مجھے سب سے زیادہ عزیز تھے لیکن پھر بھی میں نے جان بوجھ کر بھری محفل میں تمہارے حسن و جمال اور خوبصورتی کی طرف داری اور تعریف نہیں کی ۔ لوگوں کے سامنے اس کا ذکر نہیں کیا اور دوسرے حسینوں کے مقابل تمہاری برتری ثابت نہیں کی کیونکہ اگر میں بھی تمہاری حمایت اور تعریف کرتا تو اہلِ محفل کو میری محبت کے بارے میں معلوم ہو جاتا ۔ اس طرح سب اہلِ محفل میرے حال دل سے واقف ہو جاتے ۔ چنانچہ مصلحت کے پیشِ نظر میں نے جانتے بوجھتے ہوئے خاموشی اختیار کی تاکہ محبوب کی عزت پر بھی حرف نہ آئے اور میری بھی رسوائی نہ ہو ۔ شاعر محبوب سے اپنی محبت کی پردہ داری چاہتا ہے ۔

بقول ابنِ انشا

کل چودویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا

کچھ نے کہا کہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا

ہم بھی وہیں موجود تھے ہم سے بھی سب پوچھا کیے

ہم ہس دیے ہم چپ رہے منظور تھا پردہ تیرا

محبوب کی حمایت اور تعریف نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شاعر کو اپنی انا اور خودداری زیادہ عزیز تھی ۔ اسے معلوم تھا کہ محبوب اپنی تعریف سن کر اور زیادہ مغرور ہو جائے گا اور اس کے الفاظ اور جذبات کی ناقدری کرے گا ۔ اس طرح بھری محفل میں شاعر کو خفت اٹھانا پڑی اور خجالت کا سامنا کرنا پڑا ۔ چنانچہ شاعر نے دانستہ طور پر سب کے سامنے محبوب کی تعریف نہیں کی ۔

بقول احمد فراز

سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی

دل نے چاہا بھی اگر ، ہونٹ نے جنبش نہیں کی

شعر نمبر 6 :

ظرف اتنا بھی کشادہ نہیں اپنا ، لیکن

ہم نے ، پیدا بھی ہوئی ہے تو شکایت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : ظرف (حوصلہ ، ہمت) ،  ظرف کشادہ ہونا( کھلے دل کا مالک ہونا ، بلند حوصلہ ہونا ) ، شکایت (گلا ، شکوہ)

مفہوم :  اگرچہ ہم بہت اعلیٰ ظرف نہیں لیکن پھر بھی تمہارے بارے میں اگر کبھی شکایت پیدا ہوئی تو ہم نے شکایت نہیں کی۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر روایتی شاعروں کی طرح محبوب کے ظلم و ستم پر شکوہ گلا اور شکایات کے انبار نہیں لگاتا اسے ظالم سنگدل اور بے رحم نہیں کہتا بلکہ لحاظ اور پاسداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اخلاقی حدود میں رہتا ہے ۔ شاعر ہمیشہ محبوب کے ہاتھوں مشق ستم ہی بنا رہا لیکن وہ محبوب کے ظلم و ستم اور سرد مہری کا اظہار کسی کے سامنے نہیں کرتا ۔ چنانچہ وہ محبوب سے کہتا ہے کہ اگرچہ مجھ میں اتنی برداشت اور صبر نہیں اور میں اتنا اعلیٰ ظرف بھی نہیں کہ کسی کے ظلم و ستم اور ناانصافی کو مسلسل برداشت کیے جاؤں اور شکایت نہ کروں یا کسی کے سامنے بیان نہ کروں لیکن تمہارے ظلم و ستم اور سرد مہری پر میرے دل میں تمہارے بارے میں کوئی گلا شکوہ یا شکایت پیدا نہیں ہوئی ۔ اگر کبھی پیدا ہوئی بھی تو کسی کے سامنے اسے بیان نہیں کیا ۔ لوگوں سے ملتے جلتے رشتے ناطے اور تعلقات میں عموماً کسی نہ کسی بات پر گلا شکوہ شکایت کا موقع پیدا ہو ہی جاتا ہے ۔ جسے عموماً لوگ ایک دوسرے کے سامنے بیان بھی کر دیتے ہیں۔  شاعر کا معاملہ بھی یہی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں بہت کشادہ ظرف نہیں ہوں ۔ مجھ میں برداشت کا مادہ بہت کم ہے ۔ میرے ساتھ جو جیسا رویہ رکھتا ہے میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہوں لیکن محبوب کے ساتھ میرا معاملہ الگ ہے ۔ اس کے کسی بھی رویے پر میرے دل میں اس کے خلاف کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی اور اگر ہو بھی تو میں اس کا اظہار نہیں کرتا ۔

بقول علامہ اقبال :

خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

شاعر نے یہاں منفرد انداز اختیار کیا ہے ایک طرف شاعر نے محبوب کو یہ جتا دیا ہے کہ میں نے کبھی کوئی شکایت یا شکوہ نہیں کیا دوسری طرف محبوب کو یہ بھی احساس دلایا ہے کہ تمہارا رویہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہے ۔ میں بھی جذبات رکھتا ہوں مجھ پر بھی حادثات و واقعات کا اثر ہوتا ہے ۔ میرا بھی دل ہے جو درد و غم سے بھر آتا ہے ۔ میرا ظرف اتنا کشادہ نہیں کہ بے جا ظلم و ستم پر میرے دل میں کوئی شکایت پیدا نہ ہو ۔ میرے دل میں بھی شکوہ شکایت پیدا ہوتی ہے لیکن میں اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا ۔ میرے دل میں محبوب کا ادب و احترام ہے محبوب کے خلاف شکوہ شکایت پر میں اپنے لب سی لیتا ہوں ۔

بقول حسرت موہانی :

تجھ کو پاس وفا ذرا نہ ہوا

ہم سے پھر بھی تیرا گلا نہ ہوا

اور بقول احسان دانش :

زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی

آہ نہ کر لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں

دراصل شعر میں شاعر نے اپنی اعلیٰ ظرفی کو عاجزانہ انداز میں بیان کیا ہے کہ محبوب کے ظلم و ستم پر اس کے دل میں شکایات پیدا ہو بھی تو وہ شکایت نہیں کرتا ۔ دل میں شکوہ شکایت پیدا ہونا قدرتی امر ہے لیکن اسے بیان نہ کرنا یہ ادب و احترام اور اخلاقی اور اعلیٰ ظرفی کا شاندار مظاہرہ ہے ۔ عشق و محبت کے آداب بھی یہی ہیں کہ راہِ محبت میں آنے والی ہر تکلیف کو صبر سے برداشت کیا جائے اور شکایت کے لیے زبان نہ کھولی جائے یہی عاشق صادق کی پہچان ہے ۔

بقول شاعر :

وہ جن کا عشق صادق ہو وہ کب فریاد کرتے ہیں

لبوں پر مہر خاموشی دلوں میں یاد کرتے ہیں

شعر نمبر 7 :

یہ بھی سچ ہے کہ تیرے ہم بھی سوالی نہ ہوئے

اور تو نے بھی کبھی کوئی عنایت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : سوالی (طلبگار ، سوال کرنے والا ) ، عنایت( مہربانی)

مفہوم :  یہ سچ ہے کہ ہم نے کبھی تمہاری طلب نہیں کی اور یہ بھی سچ ہے کہ تم بھی کبھی ہم پر مہربان نہیں ہوئے ۔

تشریح : غزل کی روایتی انداز میں عاشق محبوب کی طلب اور اس کے در کے چکر کاٹتا ہے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے ہمیشہ بے تاب رہتا ہے ۔ وہ محبوب سے ملاقات اور دیدار کے لیے محبوب کی منت سماجت کرتا ہے لیکن تشریح طلب شعر میں شاعر اس روایتی انداز سے انحراف کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے محبوب کی طلب نہیں اور نہ میں نے کبھی اس سے محبت کی بھیک مانگی ہے ۔ مجھے اس کے وصل اور قربت کی طلب نہیں لیکن محبوب نے بھی مجھ پر کوئی مہربانی اور عنایت نہیں کی ۔ شاعر خودداری کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ اگرچہ میرے دل میں محبوب کی محبت موجود ہے لیکن میں نے محبوب کے سامنے کبھی دست سوال دراز نہیں کیا ۔ اس کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ۔ اس سے محبت اور وصل کی بھیک نہیں مانگی کیونکہ اس طرح میری خودداری مجروح ہوتی ہے ۔

دوسری جانب محبوب نے بھی کمال بے نیازی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ۔ اس نے بھی مجھ پر کوئی مہربانی نہیں کی ۔ اس کے رویے میں کوئی نرمی اور لچک نظر نہیں آئی ۔ اس نے اشارے کنائے سے بھی یہ تاثر نہیں دیا کہ اس کے دل میں بھی محبت ہے ۔ غرض وہ مجھے کسی خاطر میں نہ لایا ۔

بقول احمد فراز :

  یہ بھی کیا کم ہے کہ دونوں کا بھرم قائم ہے

اس نے بخشش نہیں کی ہم نے گزارش نہیں کی

شعر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر درپردہ محبوب سے اس کی بے رخی اور بے اعتنائی کا شکوہ کر رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ روایتی عاشقوں کی طرح میں نے کبھی محبوب سے سوال نہیں کیا لیکن اصل تو یہ ہے کہ محبوب نے مجھ پر کبھی مہربانی اور عنایت کی ہی نہیں ۔ میری بے طلبی اور بے نیازی کے اس رویے کی وجہ دراصل محبوب ہی ہے کیونکہ اگر محبوب مجھ پر مہربان ہوتا اور مجھ پر نظر کرم کرتا تو میرے دل میں بھی محبوب کے لیے تڑپ پیدا ہوتی ۔ میں بھی اس کے لیے بے چین و بے قرار ہوتا محبت دو طرفہ معاملہ ہے ۔ دونوں طرف جذبوں کا ہنر ضروری ہے ۔ جب محبوب مجھ پر مہربان نہیں تو میں نے بھی اس کی طلب چھوڑ دی ۔

بقول شاعر :

اس نے دل کا حال بتانا چھوڑ دیا

ہم نے بھی گہرائی میں جانا چھوڑ دیا

جب اس کو ہی دوری کا احساس نہیں تو ہم نے بھی احساس دلانا چھوڑ دیا ۔ الغرض روایتی عاشقوں کے برعکس شاعر اپنی بے طلبی کی وجہ محبوب ہی کی بے رُخی بتاتا ہے کہ اگر محبوب مجھ پر مہربان ہوتا تو میرے دل میں بھی اس کے لیے طلب اور تڑپ ہوتی ۔

شعر نمبر 8 :

ہو رہا ، جو اسی طرح سے ہونا تھا یہاں

اس لیے ہم نے کسی بات پہ حیرت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : حیرت (حیرانی  ،تعجب)

مفہوم : جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں معلوم تھا کہ اسی طرح ہونا ہے اس لیے ہمیں کسی بات پر تعجب نہیں ہوا ۔

تشریح : انسانی نفسیات ہے کہ انسان معمول کے حالات و واقعات پر حیران نہیں ہوتا کیونکہ وہ ان کا عادی ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی بات یا واقعہ خلافِ معمول ہو جائے تو وہ حیران و پریشان ہو جاتا ہے دوسرا یہ کہ بعض اوقات انسان اپنے علم تجربے اور مشاہدے کی بنا پر آنے والے وقت کے بارے میں پہلے ہی آگاہ ہو جاتا ہے یا اسے اپنے اعمال کے نتائج کا پہلے ہی اندازہ ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اسے حیرت نہیں ہوتی ۔

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ہمارے گرد و پیش جو کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہی ہے ۔ مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہی کچھ ہونا ہے ۔ اس لیے مجھے کسی بات اور کسی واقعہ پر حیرت نہیں ہوتی جیسے اعمال ہوتے ہیں ویسے ہی حالات و واقعات اور نتائج سامنے آتے ہیں ۔

بقول شاعر :

جاری ہے ازل سے یہی قانون الٰہی

اعمال بگڑتے ہیں تو آتی ہے تباہی

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے ۔ تقدیر کا لکھا ہو کر رہتا ہے ۔ انسان اسے تبدیل نہیں کر سکتا ۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی تدبیر تقدیر کے سامنے ہار جاتی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ مجھے یقین ہے جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ تقدیر کے مطابق ہو رہا ہے اور آئندہ بھی جو کچھ ہوگا وہ تقدیر کے مطابق ہی ہوگا اس لیے میں کسی بات پر حیران نہیں ہوتا ۔ میں ہر بات اور ہر واقعہ کو قسمت کا لکھا سمجھ کر تسلیم کر لیتا ہوں۔

بقول ارشاد لکھنوی :

عقل آرائی و تدبیر سے کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

غزل کے روایتی انداز میں شعر کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ دنیا میں جس طرح پہلے ہوا کرتا تھا اب بھی اسی طرح ہو رہا ہے ۔ محبوب ہمیشہ اپنے حسن و جمال پر مغرور اور نازاں ہوتا ہے ۔ وہ عاشق کی قدر نہیں کرتا اس سے بے رخی اور سرد مہری سے پیش آتا ہے ۔ اس کی قربانی اور وفاداری کو کسی خاطر میں نہیں لاتا ۔ محبوب کا کوئی وعدہ وفا نہیں ہوتا ۔ اس کی وفائیں ہمیشہ رقیب کے لیے ہوتی ہیں ۔ محبوب کی یہ روش دنیا میں ازل سے ایسے ہی چلی آ رہی ہے اس لیے شاعر کو حیرت نہیں ہوتی ۔

دوسرا یہ کہ عموماً رشتہ نبھانے کے لیے کسی ایک کو نرمی دکھانا پڑتی ہے اگر دونوں جانب سے انا اور خودداری کا مظاہرہ ہو تو اس کا انجام بالآخر جدائی ہی ہوتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ جب میں نے انا اور خودداری دکھائی تو محبوب نے بھی بے نیازی اور لاپرواہی دکھائی ۔ میں نے اس کی طلب نہیں کی تو اس نے بھی مجھ پر کوئی مہربانی اور عنایت نہیں کی ۔ مجھے معلوم تھا کہ اس کا انجام بخیر نہیں ہوگا ۔ چنانچہ ویسا ہی ہوا اور ہم میں ترک تعلق ہو گیا ۔ اس لیے مجھے اس پر کوئی حیرت نہیں ۔

بقول عارف اشتیاق :

یہی ہونا تھا اور ہوا جاناں

ہو گئے ہم جدا جدا جاناں

ایک اور شاعر کہتا ہے :

پھر یوں ہوا کہ راستے یکجا نہیں رہے

وہ بھی انا پرست تھا میں بھی انا پرست

شعر نمبر 9 :

جو میسر ہوا ، تھا وہ بھی زیادہ ، کہ ظفر

جو ملا ہی نہیں اس کی کبھی حسرت نہیں کی

مشکل الفاظ کے معانی : میسر ہونا (حاصل ہونا ، موجود ہونا) ،  حسرت( ارمان  ، کسی چیز کے نہ ملنے کا افسوس )

مفہوم :  مجھے جو ملا وہ بھی میرے لیے بہت تھا اس لیے میں نے کبھی اس چیز کی خواہش ہی نہیں کی جو مجھے نہیں ملی ۔

تشریح :  انسان فطرتاً حریص واقع ہوا ہے۔  اسے دنیا میں جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ اس پر مطمئن نہیں ہوتا۔  اسے ہمیشہ زیادہ کی تمنا رہتی ہے اور خوب سے خوب تر کی تلاش رہتی ہے لیکن تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ میری بساط اور اوقات سے بڑھ کر ملا ہے ۔ مجھے عزت ، دولت ، شہرت اور نعمتیں خدا نے عطا کی ہیں ۔ میں ان سب کے قابل نہیں تھا ۔ شاعر صبر و شکر اور قناعت کا اظہار کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے جو ملا وہ بھی زیادہ تھا ۔ میری ضرورت سے بڑھ کر مجھے ملا اور جو مجھے نہیں ملا اس کی میں نے کبھی تمنا ہی نہیں کی ۔ میں نے اپنی خواہشات کو محدود رکھا ان چیزوں کی خواہش کو دل میں کبھی جگہ ہی نہیں دی جو مجھے نہیں ملی ۔ ہمیشہ قناعت کے ساتھ صبر کے دامن کو تھامے رکھا ۔ جو مل گیا اس پر قناعت کر لی جو نہیں ملا اس پر صبر کیا ۔ میرے دل میں اسے حاصل کرنے کا ارمان اور حسرت کبھی نہیں رہا ۔ الغرض میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں مجھے اپنی قسمت پر کسی قسم کا گلا اور شکوہ نہیں ہے بلکہ میں راضی بہ رضا ہوں ۔

بقول سحر لدھیانوی:

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا

جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

اور بقول احمد فراز :

جس قدر اس سے تعلق تھا چلے جاتا ہے

اس کا کیا رنج کہ جس کی کبھی خواہش نہیں کی

دراصل انسان کی خواہشات کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ ایک کے بعد ایک خواہش جنم لیتی رہتی ہے لیکن اگر انسان قناعت پسند ہو اور صبر و شکر کا عادی ہو تو اس کی زندگی میں اطمینان و سکون رہتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ صبر و شکر کرنے والوں کو اور زیادہ نوازتا ہے ۔ قران پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جس کا ترجمہ ہے :

” اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دوں گا ۔ “

سورۃ ابراہیم آیت نمبر سات

نوٹ : امید ہے کہ آپ  ظفر اقبال کی غزل ” مل کے بیٹھے نہیں خوابوں میں شراکت نہیں کی” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply