ملی نغمہ تشریح

آج کی اس پوسٹ میں ہم نظم ” ملی نغمہ” کی تشریح و توضیح کریں گے ۔ اس نظم کے شاعر احمد ندیم قاسمی ہیں ۔

شعر نمبر 1 :

خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر

اترے وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

مشکل الفاظ کے معانی : ارضِ پاک ( سر زمین مراد پاکستان) ،  فصل گُل (پھولوں کا موسم بہار) ،  اندیشہ زوال(  زوال کا خوف)

مفہوم :  خدا کرے میرے ملک میں ایسی بہار آئے جسے زوال کا خوف نہ ہو ۔

تشریح : احمد ندیم قاسمی ترقی پسند شاعر ہے ۔ ان کی شاعری احساس کی شدت اور مضامین میں جدت کی شاعری ہے ۔ ان کے کلام میں سادگی اور معنویت پائی جاتی ہے ۔ وہ شعر یوں کہتے ہیں جیسے بات کر رہے ہوں ۔ ان کی شاعری پر اقبال کے خیالات کی گرفت بھی نظر آتی ہے کیونکہ وہ اقبال ہی کے انداز میں فکریہ اشعار کہتے ہیں ۔ جو انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں تاہم اقبال کی نسبت ان کے کلام میں صادق سادگی کا عنصر نمایاں ہے ۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔

تشریح طلب شعر میں شاعر خدا کے حضور اپنے ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے دعا گو ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے خدا میرے ملک میں ایسی بہار آئے جو کبھی ختم نہ ہو اور اسے ختم ہونے کا خوف بھی نہ ہو ۔ میرے ملک میں ہمیشہ امن و سکون ، سلامتی اور خوشیوں کے ڈیرے قائم رہیں ۔ یہاں سے بد امنی بدحالی اور بے سکونی ختم ہو جائے ۔ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔ یا اللہ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں سے اس کی حفاظت فرما ۔ فصل گُل یعنی بہار پھولوں کے موسم کو کہتے ہیں بہار خوشحالی اور اچھے حالات کی علامت ہوتی ہے ۔ شاعر آرزو مند ہے کہ جس طرح بہار کے موسم میں ہر طرف رنگا رنگ پھول کھل اٹھتے ہیں اور سارا ماحول مہک اٹھتا ہے طرح طرح کی رونقیں اور نظارے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خدا کرے اس وطن میں ہر طرف خوشیوں کے ڈیرے ہوں۔  ہر فرد پھول کی مانند مہکتا ہو اور خوبصورت ہو اپنے ملک و قوم کی خوبصورتی اور رعنائی اور ترقی خوشحالی میں اضافے کا باعث ہو ۔ پھول تو کچھ دن بعد مرجھا جاتے ہیں اور بہار کا موسم کچھ عرصہ بعد رخصت ہو جاتا ہے ۔

بقول شاعر :

جو بہار آتی ہے پابند خزاں ہوتی ہے

زندگی موت کے سائے میں جواں ہوتی ہے

لیکن شاعر آرزو مند ہے اور خدا کے حضور دعا گو ہے کہ اس کے وطن کی یہ ترقی و خوشحالی کبھی زوال پذیر نہ ہو ۔ ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ وہ ہمیشہ خدا کی رحمت کے سائے میں پروان چڑھے ۔

شعر نمبر 2 :

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں

یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

مشکل الفاظ کے معانی : برسوں (برس کی جمع کئی سال ) ، خزاں( پت جھڑ کا موسم) ،  مجال( ہمت ،  طاقت)

مفہوم : خدا کرے میرے ملک میں ہمیشہ ہمیشہ بہار رہے اور کبھی خزاں نہ آئے ۔

تشریح : شاعر تشریح طلب شعر میں اپنے وطن کے لیے دعا گو ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے خدا میرا وطن ایک چمن کی مانند ہے عموماً چمن میں بہار کے موسم میں پھول کھلتے ہیں ۔ ہر طرف ہریالی اور سبزہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد خزاں کا موسم سارے چمن کو بے رونق کر دیتا ہے ۔ تمام پھول جھڑ جاتے ہیں اور درخت پتوں سے خالی ہو جاتے ہیں ۔ سبزہ خشک ہو جاتا ہے چنانچہ شاعر خدا کے حضور دعا گو ہیں کہ اے خدا میرے وطن کے چمن میں جو بھی پھول کھلے وہ برسوں تک کھلا رہے ۔ وہ کبھی خزاں کا موسم نہ دیکھے ۔ میرے وطن سے خزاں کو گزرنے کی کبھی ہمت ہی نہ ہو ۔ شاعر وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دعا گو ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ وطن کو جو بھی خوشی ملے وہ کبھی ختم نہ ہو ۔ وطن کے عظیم لوگ جو وطن کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں وہ پھولوں کی مانند خوبصورت ہیں ۔ چمن کے یہ پھول چمن کی رونق اور خوبصورتی میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ ہی وطن کی ترقی و خوشحالی اور سلامتی کا باعث ہیں ۔ چنانچہ شاعر دعا گو ہے کہ خدا وطن کے ایسے جان نثاروں کو تادیر سلامت رکھے ۔ یہ یوں ہی وطن کے لیے دن رات کام کرتے رہیں اور ہمارا وطن یوں ہی ترقی اور خوشحالی کی جانب گامزن رہے ۔

شعر نمبر 3 : 

یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبزہ کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

مشکل الفاظ کے معانی : سبزہ (گھاس ، سبز پودے ،  پھول ، درخت وغیرہ) ،  مثال( نظیر ، نمونہ)

مفہوم : خدا کرے میرے ملک میں ہمیشہ ایسی خوشحالی رہے جس کی دنیا میں مثال نہ ہو ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر وطن کی خوشحالی کے لیے دعا گو ہے جس طرح سبزہ چمن کی خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے اور آنکھوں کے لیے ٹھنڈ کا سامان ہوتا ہے اسی طرح وطن کی خوبصورتی اور رعنائی اور وطن کی ترقی اور خوشحالی اہل وطن کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہوتی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ چمنستان وطن میں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سرسبز رہے اور وہ کبھی ختم نہ ہو اور خزاں کا دور نہ دیکھے ۔ یہ سبزہ دنیا بھر میں بے مثال ہو ۔ وطن کی ترقی اور خوشحالی کو کسی کی نظر نہ لگے ۔ یہ ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ اسے کبھی زوال نہ ہو اور دنیا بھر میں اس کی کوئی مثال نہ ہو ۔

شعر نمبر 4 :

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں سے بھی روئیدگی محال نہ ہو

مشکل الفاظ کے معانی : گھٹا (سیاہ گہرا بادل) ،  روئیدگی( سبزہ اگنا ) ، محال (ناممکن )

مفہوم :  خدا کرے میرے ملک میں ایسی بارش ہو کہ پتھر بھی زرخیز ہو جائیں اور ان سے سبزہ نکل پڑے ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے خدا میرے ملک میں گھنے گہرے بادلوں سے ایسی بارش ہو کہ جس سے تمام ملک زرخیز ہو جائے یہاں تک کہ بنجر زمین اور پتھروں سے بھی سبزہ اگ آئے ۔ زرخیز زمین سے تو پھول ، پھل اور اناج اگتا ہی ہے لیکن شاعر کی خواہش ہے کہ سنگلاخ پہاڑ بھی زرخیز ہو جائیں اور ان سے بھی سبزہ اگنا ناممکن نہ رہے۔  بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے ۔ بارش سے ہر چیز دھل کر نکھر جاتی ہے اور جوبن پر آ جاتی ہے ۔ بارش زمین کی زرخیزی اور شادابی کا باعث بنتی ہے ۔ زمین سے غلہ ، اناج اور پھل پھول اگتے ہیں۔  زمین کی خوبصورتی اور رعنائی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے خدا میرے ملک پر ایسا فضل و کرم اور ایسی رحمت فرما کہ یہاں کا ہر فرد ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہو یہاں تک کہ وہ لوگ جو بےکار اور نااہل نظر آتے ہیں ۔ ان پڑھ اور بے ہنر ہیں ۔ وہ بھی معاشرے کے لیے مفید بن جائیں اور ملک و قوم کی فلاح و ترقی کے لیے کام کرنے لگ جائیں ۔ صحرا اور پہاڑ بھی معدنیات کے خزانے اگلنے لگ جائیں ۔

شعر نمبر 5 : 

خدا کرے کہ وقار اس کا غیر فانی ہو

اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

مشکل الفاظ کے معانی : وقار (عزت) ،  غیر فانی( نہ ختم ہونے والا ،  ہمیشہ رہنے والا ، ابدی) ،  تشویش (پریشانی)

مفہوم :  خدا کرے میرے ملک کی عزت ابدی ہو اور اس کی خوبصورتی کبھی ماند نہ پڑے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر ملک و قوم کی سلامتی کے لیے دعا گو ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے خدا میرے ملک کی عزت اور اس کا وقار ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ اسے کبھی زوال نہ ہو ۔ میرے ملک کی خوبصورتی ہمیشہ قائم رہے۔  وہ کبھی ماند نہ پڑے ۔ عموماً وقت گزرنے کے ساتھ کسی بھی چیز کا حسن و جمال ماند پڑ جاتا ہے اور ہر گزرتے دن اور ماہ و سال کے ساتھ وہ چیز پرانی ہو جاتی ہے گویا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ وہ زوال کی جانب گامزن رہتی ہے ۔ حسین و جمیل انسان بھی اپنی عمر کے بڑھنے سے خوفزدہ رہتا ہے ۔ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے اس کی فکر اور پریشانی بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ گزرتے ماہ و سال کے ساتھ وہ بڑھاپے کی جانب بڑھ رہا ہے جہاں اس کا حسن ماند پڑ جائے گا اور اس کا جسم کمزور اور جھریوں کا جال بن جائے گا ۔ چنانچہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح وقت کے دھارے کو روک سکے اور تیزی سے گزرتے ماہ و سال پر بند باندھ سکے لیکن وہ مجبور محض اور بے بس ہوتا ہے ۔

شاعر کہتا ہے کہ میرے وطن کو جو خوبصورتی ، حسن و جمال اور رعنائی عطا ہو اسے کبھی زوال نہ ہو اور ماہ و سال کے گزرنے کی اسے کوئی فکر اور پریشانی نہ ہو۔  عمر بڑھنے سے اس کی خوبصورتی ماند نہ پڑے۔  اس کے پہاڑ ، دریا ، سمندر ، وادیاں ، کھیت کھلیان اور سبزہ زار ہمیشہ اسی طرح وطن کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتے رہیں ۔ اس کے شہری صنعت کار ، تاجر ، کسان ، ڈاکٹر ، انجینیئر ، سائنس دان مرد عورت اور بچے بوڑھے سبھی اس کی عزت و وقار میں اضافے کا باعث بنتے رہیں ۔

شعر نمبر 6 : 

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوج کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

مشکل الفاظ کے معانی : اوج کمال( کمال کی بلندی،  انتہا درجے کی قابلیت) ،  ملول (غمگین ، اداس) ،  خستہ حال (برا حال ، پریشان ، رنجیدہ)

مفہوم :  خدا کرے میرے ملک کا ہر جوان تہذیب و فن کی پابندی پر فائض ہو ۔ کوئی شہری غمگین اور پریشان نہ ہو ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر وطن اور اہلِ وطن کے لیے دعا گو ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے میرے خدا میرے وطن کا ہر فرد ہنر مند ، سلیقہ مند ، تہذیب یافتہ اور قابل ہو۔  ہر شہری تہذیب و فن کے اوج کمال پر کھڑا ہو ۔ ڈاکٹر ، انجینیئر ، پروفیسر ، وکیل ، تاجر ، کسان ، صنعت کار اور مزدور الغرض ہر ایک فرد اپنے فن میں مہارت رکھتا ہو اور علم و ہنر کے بام عروج پر ہو ۔ اپنے وطن کی عزت و وقار میں اضافے کا باعث ہو اور دنیا میں وہی ملک ترقی یافتہ کہلاتے ہیں جن کے شہری تہذیب یافتہ اور ہنر مند ہوں ۔ جو ملک و معاشرے کے لیے مفید سرگرمیاں انجام دیں اور اپنے کارناموں سے ساری دنیا میں اپنی اور اپنے ملک کی عزت میں اضافے کا باعث بنتے رہیں ۔

دوسرے مصرعے میں شاعر دعا گو ہے کہ اے خدا میرے وطن کا کوئی بھی شہری غمگین نہ ہو اور خستہ حال نہ ہو ۔ ہر شہری خوشحال اور پُرسکون زندگی بسر کرے ۔ ملک و قوم کے لیے مفید کام سر انجام دے ۔ ہر شہری کا معیارِ زندگی بلند ہو ۔ کسی کو غربت اور بھوک کی فکر نہ ستائے ۔

بقول شاعر :

  خدا کرے کہ میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

شعر نمبر 7 : 

خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اترے

وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو 

مشکل الفاظ کے معانی : ارضِ پاک( سر زمین مراد پاکستان) ،  فصل گل( پھولوں کا موسم ، بہار) ،  اندیشہ زوال (زوال کا خوف)

مفہوم : خدا کرے کہ میرے ملک میں ہمیشہ شادابی رہے اور کبھی خزاں نہ آئے ۔

تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر خدا کے حضور اپنے ملک کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے دعا گو ہے ۔ شاعر کہتا ہے اے خدا میرے ملک میں ایسی بہار آئے جو کبھی ختم نہ ہو اور اسے ختم ہونے کا خوف بھی نہ ہو ۔ میرے ملک میں ہمیشہ امن و سکون ، سلامتی اور خوشیوں کے ڈیرے قائم رہیں ۔ یہاں سے بد امنی ، بدحالی اور بے سکونی ختم ہو جائے ۔ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے ۔ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رہے۔  فصل گل یعنی بہار پھولوں کے موسم کو کہتے ہیں ۔ بہار خوشحالی اور اچھے حالات کی علامت ہوتی ہے۔  شاعر آرزو مند ہے کہ جس طرح بہار کے موسم میں ہر طرف رنگا رنگ پھول کھل اٹھتے ہیں اور سارا ماحول مہک اٹھتا ہے ۔ طرح طرح کی رونقیں اور نظارے ہوتے ہیں ۔ اسی طرح خدا کرے اس وطن میں ہر طرف خوشیوں کے ڈیرے ہوں ۔ ہر فرد پھول کی مانند مہکتا ہو اور خوبصورت ہو اور ملک و قوم کی  خوبصورتی اور رعنائی اور ترقی و خوشحالی میں اضافے کا باعث ہو ۔ پھول تو کچھ دن کے بعد مرجھا جاتے ہیں اور بہار کا موسم کچھ عرصہ بعد رخصت ہو جاتا ہے ۔

بقول شاعر :

جو بہار آتی ہے پابند خزاں ہوتی ہے

زندگی موت کے سائے میں جواں ہوتی ہے

لیکن شاعر آرزو مند ہے اور خدا کے حضور دعا گو ہے کہ وطن کی یہ ترقی و خوشحالی کبھی زوال پذیر نہ ہو ۔ ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ وہ ہمیشہ خدا کی رحمت کے سائے میں پروان چڑھے ۔ آمین ثم امین ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” ملی نغمہ” کی تشریح  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ

 


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply