مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب نظم کا مرکزی خیال

مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب نظم کے بارے میں آج کی اس پوسٹ میں ہم پڑھیں گے ۔ اس نظم کا مرکزی خیال کیا ہے اس پر روشنی ڈالیں گے ۔

مرکزی خیال کیا ہوتا : وہ خاص معنی جسے ادبی اظہار کا روپ دینا، فن کار کا مقصد ہوتا ہے، اس کے لئے ادب پارے کو ایک دائرہ فرض کیا جاتا ہے اور مقصد کو مرکز قرار دیا جاتا ہے ۔

مرکزی خیال کا مطلب کسی بھی نظم یا نثر پارے کا بنیادی تصور ہے یعنی شاعر یا ادیب جس تصور کو بنیاد بنا کر نظم یا نثر پارہ لکھتا ہے اس تصور کو مرکز خیال کہتے ہیں ۔ مرکزی خیال مختصر اور جامع ہوتا ہے ۔

“مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب” – مرکزی خیال

جوش ملیح آبادی کی یہ نظم مسلمانوں، خصوصاً نوجوانوں، کو بیداری، غیرت اور ترقی کا پیغام دیتی ہے۔ شاعر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمانوں کو جہالت، سستی اور غلامانہ ذہنیت کو ترک کرکے علم، عمل اور جدو جہد کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔

وہ علی گڑھ یونیورسٹی کی تاریخی اور فکری اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے، جو مسلمانوں کو ذہنی و فکری آزادی دلانے کے لیے قائم کی گئی تھی۔ شاعر نوجوانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کی عظمت سے سبق سیکھیں، حال کے تقاضوں کو سمجھیں اور ایک روشن مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔

نظم کا بنیادی پیغام یہی ہے کہ اگر مسلمان علم و حکمت، خودداری اور محنت کو اپنا لائحہ عمل بنا لیں تو وہ ایک بار پھر دنیا میں عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ نظم ” مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے خطاب” کے مرکزی خیال  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply