مستنصر حسین تارڑ کے ناول ” بہاؤ” کا تاریخی و تہذیبی پہلو

آج کی اس پوسٹ میں ہم مشہور ناول نگار مستنصر حسین تارڑ کے حالات زندگی ، فکر و فن اور ناول ” بہاؤ” کا تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے تجزیہ کریں گے ۔

مستنصر حسین تارڑ کا مختصر تعارف : مستنصر حسین تارڑ 1 مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں اُن کا بچپن گذرا جہاں سعادت حسن منٹو پڑوس میں رہتے تھے۔ اُنھوں نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی ۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ایف اے کے بعد برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ پانچ برس وہاں گزارے اور ٹیکسٹائل انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹے۔

مستنصر حسین تارڑ کا فکر و فن : انھوں نے ٹی وی ڈراموں میں کام کیا ہے۔ متعدد سفر کیے۔ آج کل اخبار جہاں میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناول کے حوالے سے بھی وہ ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے بہاؤ، راکھ (ناول)، خس و خاشاک زمانے اور اے غزال شب جیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے۔ اس کے علاوہ آپ نے ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی وی نے جب پہلی مرتبہ 1988ء میں صبح کی نشریات صبح بخیر کے نام سے شروع کیں تو مستنصر حسین تارڑ نے ان نشریات کی کئی سال تک میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ ریڈیو پروگرام کی بھی میزبانی کی ۔

1957ء میں شوقِ آوارگی انھیں ماسکو، روس میں ہونے والے یوتھ فیسٹول لے گئی۔ (اُس سفر کی روداد 1959 میں ہفت روزہ قندیل میں شایع ہوئی۔)۔ اس سفر کی روداد پر ناولٹ “فاختہ” لکھی۔ یہ قلمی سفر کا باقاعدہ آغاز تھا۔

ٹی وی

ترمیم

پاکستان لوٹنے کے بعد جب ان کے اندر کا اداکار جاگا، تو انھوں نے پی ٹی وی کا رخ کیا۔ پہلی بار بہ طور اداکار ”پرانی باتیں“ نامی ڈرامے میں نظر آئے۔ ”آدھی رات کا سورج“ بہ طور مصنف پہلا ڈراما تھا، جو 74ء 19میں نشر ہوا۔ آنے والے برسوں میں مختلف حیثیتوں سے ٹی وی سے منسلک رہے۔ جہاں کئی یادگار ڈرامے لکھے، وہیں سیکڑوں بار بہ طور اداکار کیمرے کا سامنا کیا۔ بچوں کے چاچا جی کے طور پر معروف ہوئے۔ 2014ء میں ایکسپریس ٹی وی پر “سفر ہے شرط” کے نام سے سفر نامہ پروگرام بھی کر رہے ہیں ۔جیو ٹی وی پر شادی کے حوالے سے ایک پروگرام بھی کیا ۔

پی ٹی وی نے صبح کی نشریات (صبح بخیر)کا آغاز 16 جنوری 1988 سے کیا اور اس صبح کی نشریات کے پہلے میزبان مستنصر حسین تارڑ المعروف چاچا جی تھے۔

ناول اور سفرناموں کے علاوہ مستنصر صاحب نے ڈرامے بھی تحریر کیے جن میں قابل ذکر یہ ہیں :

شہپر

ہزاروں راستے

پرندے

سورج کے ساتھ ساتھ

ایک حقیقت ایک افسانہ

کیلاش

فریب

ناولبہاؤکا تاریخی و ثقافتی جائزہ :  مستنصر حسین تارڑ کا ایک شاہکار ناول ہے جونہ صرف اردو ادب میں اپنی انفرادیت کے لیے مشہور ہے بلکہ تاریخی اور تہذیبی پہلوؤں کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ ناول قدیم وادیٔ سندھ کی تہذیب، یعنی موہنجوداڑو اور ہڑپہ کی تہذیب، کو بنیاد بناتا ہے اور قاری کو ہزاروں سال پرانی زندگی کی جھلک دکھاتا ہے۔

تاریخی پہلو:

1. وادیٔ سندھ کی تہذیب: “بہاؤ” میں تارڑ نے وادیٔ سندھ کی تہذیب کی زندگی، رہن سہن، رسم و رواج اور سماجی ڈھانچے کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ ناول میں پانی کے کردار کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، جو وادیٔ سندھ کی زندگی میں اہمیت رکھتا تھا۔

2. ماحولیاتی تبدیلی: ناول میں اس وقت کی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذکر ملتا ہے جو تہذیب کے زوال کا باعث بنی، جیسے دریاؤں کے بہاؤ میں کمی، زمین کی زرخیزی کا ختم ہونا، اور خشک سالی۔

3. تاریخی تحقیق: مستنصر حسین تارڑ نے اس ناول میں تاریخی حقائق کو نہایت تحقیق کے بعد پیش کیا ہے۔ یہ قاری کو اس قدیم تہذیب کے بارے میں مزید جاننے کی ترغیب دیتا ہے۔

تہذیبی پہلو:

1. زندگی کا طرز: ناول میں موہنجوداڑو کے لوگوں کی روزمرہ زندگی، عبادات، زراعت، اور تجارت کا نہایت تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔

2. ثقافتی رنگ: مستنصر حسین تارڑ نے تہذیب کے لوگوں کی رسم و رواج، لباس، کھانے، اور رہائش کو اس انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری اس دور کی تصویر کشی محسوس کرتا ہے۔

3. تصوف اور روحانیت: “بہاؤ” میں روحانی پہلو بھی نمایاں ہے، جہاں کردار اپنے ارد گرد کی کائنات اور فطرت کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہیں۔

4. پانی کی علامت: پانی کو زندگی، بقا، اور تہذیب کے زوال کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ یہ بہاؤ نہ صرف دریا کا ہے بلکہ زندگی کا بھی استعارہ ہے۔

اہمیت:

“بہاؤ” اردو ادب میں اپنی نوعیت کا منفرد کام ہے جو تاریخ اور تہذیب کو کہانی کے ساتھ جوڑتا ہے۔ یہ ناول پڑھنے والے کو نہ صرف ادب کی لطافت سے روشناس کرواتا ہے بلکہ تاریخ کی گہرائی میں لے جاتا ہے، جہاں وہ انسانی تہذیب کے عروج و زوال کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

یہ کتاب ان لوگوں کے لیے خاص طور پر دلچسپ ہو سکتی ہے جو تاریخ، تہذیب، اور ادب کے سنگم کو سمجھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply