آج کی اس پوسٹ میں ہم اسد اللّٰہ خان غالب کے فکر و فن ، شاعری ، حالات زندگی ، غالب کا اچھوتا پن اور ان کی تصانیف پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔
ابتدائی تعارف : اردو ادب کے سب سے بڑے شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے ابتدا میں اسد اور بعد میں غالب تخلص اختیار کیا ۔ شاہی دربار سے نجم الدولہ اور دبیر الملک جیسے خطاب پائے ۔ غالب کے آباؤ اجداد ترک سلجوک تھے جو مغلیہ عہد میں ماوراء النہر سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور اچھے سرکاری عہدوں پر فائض رہے ۔ ان کے چچا نصراللہ بیگ شاہی فوج میں رسالدار تھے ۔ نوابان لوہاروں سے مرزا غالب کا سسرالی رشتہ تھا اپنی خاندانی وجاہت پر انہیں ناز تھا جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں :
سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
شاعری کا ابتدائی دور : اپنی شعر گوئی کے پہلے دور میں غالب نے مشکل پسندی اختیار کی جس پر بہت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر آپ نے پرواہ نہ کی اور کہا :
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
لیکن جلد ہی آپ نے محسوس کیا کہ شاید اس طرح میں حال دل سنانے اور سمجھانے سے قاصر رہوں اور پھر سادہ طرز اپنایا ۔ اس ابتدائی دور میں وہ ” اسد ” تخلص استعمال کرتے تھے ۔
غالب کی شاعری کی نمایاں خصوصیات : غالب ایک الگ طرزِ ادا اور خیال کے شاعر ہیں ۔ انھیں باغی شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔ روایت سے ہٹ ایک الگ انداز میں چیزوں کو دیکھنا اور پھر اسی لب و لہجے اور انداز اسے بیان کرنا غالب تک ہی محدود ہے ۔ اس کا اپنا نظریہ اور اپنا فلسفہ ہے جیسا کہ ایک شعر جنت کے بارے میں ملاحظہ ہو :
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
خیال کی لطافت ، بلندی ، روز مرہ ، محاورات کا لطف ، طرز ادا کی شوخی اور موضوعات کی رنگا رنگی نے ان کے کلام کو منفرد اور دلکش بنا دیا ۔
غالب کا اچھوتا پن : غالب ایک الگ اچھوتے انداز بیاں کے شاعر ہیں ۔ یہی خوبی انھیں دوسرے شعراء سے ممیز کرتی ہے ۔ انھوں نے زندگی انتہائی کسمپرسی کی حالت میں گزاری مگر کبھی لب پہ حرف شکایت نہیں آنے دیا ۔ زندگی کے غموں اور دکھوں کے باوجود وہ خوش طبعی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے تھے ۔
ان کی شاعری کی ایک اہم خوبی محکات( منظر نگاری) ہے ۔ وہ لفظوں سے تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں ۔ انہوں نے اپنی شاعری کا انتخاب دیوان غالب کی شکل میں کیا اور ان کے شاعرانہ عظمت میں اس انتخاب کو بڑا دخل ہے ۔
علمی و ادبی خدمات:
غالب ایک باصلاحیت عالم اور ادیب تھے۔ انہوں نے فارسی، عربی، اور اردو زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ وہ ایک ماہر خطاط اور نقاش بھی تھے۔
غالب کی شاعری اپنی گہرائی، وسعت، اور اختراع کے لیے مشہور ہے۔ وہ اردو غزل کے سب سے بڑے شاعروں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں فلسفہ، تصوف، اور انسانی تجربے کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
غالب نے نثر میں بھی کچھ کام کیا، جس میں ان کے خطوط اور ان کی خود نوشت سوانح حیات “مکاتیب غالب” شامل ہیں۔
تصانیف:
غالب کی سب سے مشہور تصنیف ان کا دیوان ہے، جس میں غزلیں، قصائد، مثنویاں، قطعات، اور رباعیات شامل ہیں۔ ان کی دیگر تصانیف میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں:
مہر نیمروز: فارسی شاعری کا اردو ترجمہ
قاطع برہان: فارسی شاعری کا اردو ترجمہ
میخانہ آرزو: فارسی شاعری کا اردو ترجمہ
سبد چین: فارسی شاعری کا اردو ترجمہ
عودہندی: فارسی شاعری کا اردو ترجمہ
مکاتیب غالب: خطوط کا مجموعہ
نکات غالب: شاعری پر مضامین کا مجموعہ
رقعات غالب: خطوط کا مجموعہ
قادرنامہ: نثر کا ایک مختصر کاماردو کا یہ شاعر دلی میں انتقال کر گیا تصانیف دیوان غالب اردو معلی عہدہ ہندی لطائف غیبی کلیات غالب فارسی کاتبران دست نبو وغیرہ ۔
غالب کی میراث:
غالب کی شاعری اردو ادب کا ایک لازمی حصہ ہے۔ انہوں نے اردو زبان اور شاعری کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی شاعری آج بھی دنیا بھر کے قارئین اور ناظرین میں مقبول ہے۔
یہاں ہم غالب کی شاعری کے کچھ مشہور نمونے پیش کرتے ہیں امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گا ۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ریختہ کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں ، اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
یہ وہ اشعار ہیں جنھیں غالب کی میراث سمجھا جاتا ہے اور انھی اشعار کی وجہ سے غالب آج بھی ہم میں زندہ ہے اور رہے گا ۔ ایسے سیکڑوں اشعار مل جاتے جاتے جو غالب شاعرانہ عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ وقت کی قلت کے سبب انھیں پر اکتفا کرتا ہوں ۔
غالب نہ صرف اپنے عہد بلکہ ہر عہد کے بڑے شاعر رہے ہیں ۔ جنہوں نے اردو ادب پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی شاعری آج بھی دنیا بھر کے قارئین اور ناظرین کے لیے ایک ذریعہ تحریک اور تخیل ہے۔
وفات: اردو و فارسی کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869ء کو مفارقت جدائی دے گیا مگر وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا ۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔ شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.