مرثیہ کی تعریف ، وضاحت ، مثالیں اور ارکان مرثیہ
مرثیہ:
تعریف: مرثیہ عربی زبان کے لفظ “رثا” سے نکلا ہے جس کے لفظی معنی مردے کو رونا ، میت پر آنسو بہانا کے ہیں۔ صنف شاعری میں مرثیہ ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی فوت شدہ شخص کی خوبیاں بیان کی جائیں اور اس کی تعریف و توصیف دردمندی سے کی جائے ۔ اردو اور فارسی میں مرثیہ زیادہ تر شہدائے کربلا اور واقعہ کربلا کے بیان کے لیے مخصوص ہے ۔
وضاحت : دراصل مرثیہ میں کسی کے مرنے پر دکھ اور غم کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ اردو شاعری میں مرثیہ کے لیے حضرت امام حسین کی شہادت اور میدان کربلا کے المناک واقعات مرثیے کے اہم موضوع بن گئے ہیں۔
مثلاً
وہ لو وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن کا مثال شب
خود نہر علقمہ کے بھی سوکھے ہوئے تھے لب
خیمے جو تھے حبابوں کے تپتے تھے سب کے سب
اڑتی تھی خاک خشک تھا چشمہ حیات کا
کھولا ہوا تھا دھوپ سے پانی فرات کا
(میر ببر علی انیس)
مرثیہ کے ارکان : مرثیہ کے مندرجہ ذیل ارکان ہیں: ۔
چہرہ ، سراپا ، رخصت ، آمد ، رجز ، رزم ، شہادت ، بین اور دعا ۔
اب ہم مندرجہ بالا ارکان مرثیہ کی وضاحت کرتے ہیں۔
1۔ چہرہ
یہ ابتدائی حصہ ہوتا ہے اس میں تمہید باندھی جاتی ہے۔ اس میں عموماً حمد، نعت ،منقبت ، اخلاقی باتیں یا فطری مناظر سے متعلق اشعار ہوتے ہیں۔
2۔ سراپا
اس میں ممدوح کا حلیہ ،شکل و شباہت اور حسن و جمال بیان کیا جاتا ہے۔
3۔ رخصت
اس میں ممدوح کا میدان جنگ کی جانب روانہ ہونے کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔
4۔ آمد
اس میں میدان جنگ میں ممدوح کی آمد کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔
5۔ رجز
اس حصہ میں دشمن سے معرکہ آرائی سے پہلے ممدوح اپنے اوصاف اور اپنے خاندانی شرافت و نجابت کا ذکر کرتا ہے ۔
6۔ رزم
اس میں جنگ کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔ ممدوح کی شجاعت و بہادری کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔
7۔شہادت
اس میں ممدوح کے شہید ہونے کا منظر بیان کیا جاتا ہے۔
8۔ بین
اس میں ممدوح کی لاش پر رنج و علم کا منظر اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ سننے والوں کو رونا آ جائے ۔
9۔دعا
اس حصہ میں دعائیہ اشعار کہے جاتے ہیں۔
مرثیہ گو مندرجہ ذیل ہیں:۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھاٹ پر باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آب نہر پرند آ کے بے شمار
سقے زمین پہ کرتے تھے چھڑکاؤ بار بار
پانی کا دام و در پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لیے قحط آب تھا
(میر ببر علی انیس)
میدان کربلا میں جو پہنچا نبی کا پھول
فردوس میں علی سے یہ فرماتی تھی بتول
مانی تھی زندگی میں جو منت ہوئی قبول
قرآن دیں کی آخری آیت کا ہے نزول
بھٹکے گی اس کے پاس کے بعد نہ امت رسول کی
تکمیل پا رہی ہے رسالت رسول کی
( صبا اکبر آبادی )
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
( مرزا دبیر )
پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی
ساحل سے سر ٹپکتی تھی موجیں فرات کی
(میر ببر علی انیس)
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.