محاورہ ، چند اہم محاورے اور ان کی وضاحت۔

آج ہم اس پوسٹ میں محاورہ کی تعریف ، پہچان اور چند ایک اہم محاورے اور ان کا مطلب واضح کریں گے ۔ 

محاورہ: قواعد کی رو سے محاورہ اسے کہتے ہیں کہ کوئی کلمہ یا کلام حقیقی کے بجائے مجازی معانی میں استعمال ہو ۔ یعنی لفظ کے لغوی معانی نہ لیے جائیں بلکہ وہ مخصوص مفہوم سمجھا جائے جو اہلِ زبان کی گفتگو میں رائج ہو ۔ 

چند اہم محاورے ، مفہوم اور جملوں میں ان کا استعمال بیان کریں ۔

1۔ آبرو خاک میں ملانا  : عزت برباد کرنا

اس نے برے کام کر کے اپنے خاندان کی آبرو خاک میں ملا دی۔

2۔ آب و دانہ اٹھنا : رزق ختم ہونا یا کسی جگہ کو چھوڑنے پر مجبور ہونا

یہاں سے ہمارا آب و دانہ اٹھ گیا ہے اب دیکھیے کہاں ٹھکانہ نصیب ہو؟ 

3۔  آپے سے باہر ہونا : سخت غصے میں ہونا ، خوشی سے بے قابو ہونا

وہ گالی سن کر آپے سے باہر ہو گیا۔

4۔ آپے میں نہ رہنا:  ہوش و حواس کھو بیٹھنا

ماں نے جب بیٹے کی لاش دیکھی تو وہ آپے میں نہ رہی۔

5۔  اپنا سا منہ لے کر رہ جانا : شرمندہ ہونا ، جواب نہ دے سکنا

جب میں نے اس کا جھوٹ ظاہر کیا تو وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گیا ۔

6۔ اپنے گریبان میں منہ ڈالنا:  اپنے عیبوں پر نظر ڈالنا

دوسروں کی برائیاں کرنے کی بجائے تمہیں اپنے گریبان میں منہ ڈالنا چاہیے ۔

7۔ اپنے منھ میاں مٹھو بننا : اپنی تعریف آپ کرنا

اعلیٰ ظرف لوگ اپنے منھ میاں مٹھو نہیں بنتے۔

8۔ آسمان سے باتیں کرنا : بہت اونچا ہونا ، پہنچ سے باہر ہونا ، مہنگا ہونا

ہمالیہ کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں ۔

9۔ آستین چڑھانا:  پوری طرح تیار ہونا ، خصوصاََ لڑنے کے لیے

وہ دونوں تو آستینیں چڑھا کر لڑنے مرنے کو تیار تھے میں نے بروقت صلح کرا دی۔

10۔ آگ برسانا : شدید گرمی پیدا کرنا

صحرا میں دوپہر کے وقت یوں لگتا ہے جیسے سورج اگ برسا رہا ہو۔

11۔ آگ بگولا ہونا : سخت غصے میں ہونا ، غضب ناک ہونا

وہ نوکر کے منہ سے انکار سنتے ہی آگ بگولا ہو گیا ۔

12۔ سبز باغ دکھانا:  دھوکہ دینا ، فریب دینا

احمد نے اصغر کو سبز باغ دکھا کر لوٹ لیا ۔

13 ۔ آسمان پر اڑنا:  غرور کرنا ، اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا

جب سے اس کے گھر دولت آئی ہے وہ آسمان پر اڑ رہا ہے کسی سے سیدھے منھ بات ہی نہیں کرتا۔ 

14 ۔  بے نقط سنانا : برا بھلا کہنا ، گالیاں دینا

احمد نے غصے میں آ کر زوہیب کو وہ بے نقط سنائی کہ بیچارہ اپنا سا منج لے کر رہ گیا۔ 

15 ۔  پانی پانی کرنا : شرمندہ ہونا

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

16۔  تارے گننا:  جاگتے رہنا ، رات بھر نیند نہ آنا

بچہ بیمار تھا میں نے ساری رات تارے گن کر گزار دی۔

17 ۔  جان چرانا: ٹالنا ، کام سے بچنا

وہ ہمیشہ میرا ساتھ دیتے تھے اب نہ جانے کیوں وہ مجھ سے جان چرانے لگے ہیں ۔

18۔ چار چاند لگنا : عزت اور مرتبہ بڑھنا

قوم کی محنت اور دیانت ہی سے وطن عزیز کو چار چاند لگ سکتے ہیں ۔

19۔ خون سفید ہونا : بے مروت ہونا، محبت نہ رہنا

قریبی رشتہ داروں کا بھی خون سفید ہو گیا ہے مصیبت کے وقت کوئی پوچھتا تک نہیں۔

20 ۔  دال نہ گلنا : کامیابی نہ ہونا

ان کی دلیلوں کے سامنے تمہاری دال گلتی نظر نہیں آتی ۔

21۔ رال ٹپکنا : جی للچانا

کھانا دیکھ کر اس کی رال ٹپکنے لگی۔ 

22 ۔  شگوفہ چھوڑنا : کوئی نئی بات کرنا یا کہنا جو تفریح یا فتنے کا باعث ہو

لوگ اپنے لیڈر کے استقبال کے لیے چشم براہ تھے اچانک کسی نے شگوفہ چھوڑ دیا کہ وہ گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ 

23 ۔  طوطی بولنا : شہرت پانا

کشتی کے فن میں بھولو برادران کا طوطی تمام دنیا میں بول رہا ہے۔ 

24۔  عید کا چاند ہونا : بہت عرصہ کے بعد ملنا

اخاہ !  آئیے ، آئیے ۔ آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئے۔

25۔  فاتحہ پڑھنا:  مایوس ہونا، نا امید ہونا

اللہ تعالیٰ کے کرم سے مسافر حادثے سے بچ گئے ورنہ وہ سب تو فاتحہ پڑھ چکے تھے۔

26۔  کاغذی گھوڑے دوڑانا : خط و کتابت کرنا

بیرونی حملے کی خبر سن کر صوبے دار نے فوج کو اکٹھا کرنے کے لیے کاغذی گھوڑے دوڑا دیے۔ 

27۔  گھوڑے بیچ کر سونا : بے فکر ہو کر سونا

تم یوں گھوڑے بیچ کر سوتے ہو کہ تمہیں کسی کے آنے جانے کی خبر ہی نہیں ۔

28۔ لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونا : ذرا سا کام کر کے خود کو بڑے آدمیوں میں شمار کرنا

ملک بنانے والے تو اور لوگ تھے ہم تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہو گئے۔

29۔  مٹھی گرم کرنا:  رشوت دینا

جب تک کلرکوں کی مٹھی گرم نہ کی جائے تو کوئی کام نہیں ہوتا ۔

30۔ نام روشن کرنا:  شہرت ہونا

ہمیں اچھا کام کر کے اپنے والدین کا نام روشن کرنا چاہیے۔ 

31۔  وارے نیارے ہونا : خوب نفع ہونا

آج کل تو آپ کے وارے نیارے ہیں ۔ ماشاءاللہ ! کاروبار میں ہر طرح سے منافع کی خبریں آرہی ہیں۔ 

32 ۔  ہاتھوں کے طوطے اڑنا : حواس باختہ ہونا ہکا بکا رہ جانا

بچے کے گم ہونے کی خبر  سن کر والدین کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔

33۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانا : جلد جلد سے جلد کام کرنا جو عموما ناممکن ہو

مجھے ہتھیلی پر سرسوں جمانا نہیں آتا اتنا بڑا مضمون ایک گھنٹے میں کس طرح لکھ ڈالوں؟ 

34۔  یار فروشی : جھوٹی تعریف ، خوشامد

بھائی ہم تو یار فروشی کرتے ہیں اور نہ ہی پسند کرتے ہیں۔

چند محاورہ کی شعری مثالیں ملاحظہ ہوں:-

1۔ الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

دام میں صیاد آنا محاورہ ہے ۔ 

2۔ غیر کی محفل میں مجھ کو مثل شمع

آٹھ آٹھ آنسو رلایا آپ نے

آٹھ آٹھ آنسو رونا محاورہ ہے ۔

3۔  تم کو چاہا تو خطا کیا ہے بتا دو مجھ کو

دوسرا کوئی تو اپنا سا دکھا دو مجھ کو

اپنا سا دکھانا محاورہ ہے ۔ 

4۔ تیرے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

روز مرہ اور محاورے میں فرق :-

1۔ روزمرہ حقیقی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ محاورہ مجازی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔

2۔ محاورہ قواعد کی رو سے بنتا ہے جبکہ روز مرہ قواعد کے زمرے میں نہیں آتا ۔

3۔ روز مرہ ایک لفظ پر بھی مشتمل ہو سکتا ہے جبکہ محاورہ دو یا دو سے زیادہ الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے۔ 

4۔  نثر میں روز مرہ کا استعمال ضروری ہے جبکہ محاورے کا استعمال ضروری نہیں۔

5۔  روزمرہ میں ضرورت کے تحت تبدیلی کی جا سکتی ہے جبکہ محاورے میں ایسا نہیں ہوتا ۔

6۔ محاورے میں ایک اسم ہوتا ہے اور دوسرا فعل جب کہ روزمرہ میں کوئی شرط نہیں ۔

کچھ مزید محاورے کے بارے میں مزید وضاحت اسے بھی پڑھیے: قواعد کی رو سے محاورہ اسے کہتے ہیں کہ کوئی کلمہ یا کلام حقیقی کی بجائے مجازی معانی میں آئے۔ یعنی لفظ کے لغوی معانی نہ لیے جائیں بلکہ وہ مخصوص مفہوم سمجھا جائے جو اہلِ زبان کی گفتگو میں رائج ہو۔

محاورہ : ( جمع= محاورے) ، کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ محاورہ دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان کے “فارمولے” کہلا‎ئے جا سکتے ہیں جو کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے والے چند مشہور محاورے درج ذیل ہیں: 

پڑھے نہ لکھے، نام محمد فاضل ، مکّہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا ،  لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ، قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے، کم بختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے، آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا ، اللہ ملائے جوڑی ایک اندھا ایک کوڑھی ، اندھوں میں کانا راجا ، کالے صابن مل کر گورے نہیں ہوتے ، اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے ،جو سکھ اپنے چوبارے نہ بلخ نہ بخارے، اپنے منہ میاں مٹھو ، کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا، دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر، چٹ منگنی پٹ بیاہ ، ایک چپ، سو سکھ ، بدن پر نہ لتّا پان کھائیں البتہ ، کھودا پہاڑ نکلا چوہا ، مگرمچھ کے آنسو، دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ، گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر ، آگ لگنے پر کنواں گھودنا ،  کتّے کی دم بارہ برس بھی نلکی میں رکھنے کے بعد ٹیڑھی نکلی ،  الٹے بانس بریلی کو لے جانا ،  اشرفیاں لٹیں کوئلوں پر مہر ،اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے ، اپنا رکھ پرایا چکھ ،  لڑے سپاہی نام سرکار کا ،  آگے کنواں،پیچھے کھائی ، آسمان کا تھوکا منہ پر گرے، آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا ، اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا ، لوہے کو لوہا کاٹتا ہے ،  آم کھاؤ پیڑ نہ گنو ، اندھیر نگری چوپٹ راج ، اندھا بانٹے ریوڑی اپنوں کو ، اونٹ کے منہ میں زیرہ ،  ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں ،  ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں ،  ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے ، ایک انار سو بیمار ، باوا بھلا نہ بھّیا ، سب سے بڑا روپیہ ، بات کا چوکا آدمی، ڈال کا چوکا بندر،  بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں  ،  بچھو کا منتر جانتے نہیں سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے چلے ، بدنامی سے گمنامی اچھی ،  بغل میں چھری منہ میں رام رام ، بڑے بول کا سر نیچا ، جائے لاکھ پر رہے ساکھ ، بندر کیا جانے ادرک کا سواد ،  بھوکے بھجّن نہ ہو ، پیش از مرگ واویلا ، تدبیر نہیں چلتی تقدیر کے آگے ،  تخت یا تختہ ،  جسے پیا چاہے وہی سہاگن* ،  جس کا کھانا اسی کا گانا ، جہاں دیکھی تری،وہیں بچھادی دری ، جتنی چادر دیکھو اتنے پیر پھیلاؤ ، جس کا کام اسی کو ساجھے ، جس کی لاٹھی اس کی بھینس ، جنّت کی غلامی سے جہنم کی حکومت بہتر ،سونے پہ سوہاگہ ، تیروں سے بارش ،  ایک انار سو بیمار ، طے شدہ  بہہ شدہ ،  جو سوچ  وہ کھوج ، آ بیل مجھے مار وغیرہ وغیرہ ۔ 

نوٹ : امید ہے کہ آپ روز مرہ محاورہ کا فرق جان چکے ہوں گے ۔ مزید یہ کہ مختلف محاورے کا استعمال بھی سمجھ آدی آگیا ہے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

 شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply