لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
آج کی اس پوسٹ میں ہم بہادر شاہ ظفر کی غزل ” لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں ” کی تشریح اور مشکل الفاظ کے معانی و مفہوم پر گفتگو کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائدار میں
مشکل الفاظ کے معانی: اجڑنا (ویران ہونا ، تباہ ہونا) ، دیار( ملک، شہر، علاقہ ) ، عالم ناپائیدار( فانی دنیا ، مٹ جانے والی دنیا)
مفہوم : شاعر کا دل ویران و سنسان اور اجڑے ہوئے ملک میں نہیں لگتا ۔ افسوس یہ دنیا فانی کسی کی نہ بن سکی ۔
تشریح : بہادر شاہ ظفر کے کلیات میں 30 ہزار سے زائد شعر ہیں ۔ انھوں نے تقریبا سبھی اصنافِ شاعری میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی پہچان ان کی غزل ہے۔ جس میں سوز و گداز اور غم کے مضامین پڑھنے والوں کو متاثر کرتے ہیں ۔ زبان کی صفائی اور روزمرہ کے استعمال نے ان کی غزل کو ایک خاص رنگ عطا کیا ہے ۔ جس کی بدولت انہیں اردو کے اچھے غزل گو شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
نوٹ : مندرجہ بالا اقتباس اس غزل کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھا جا سکتا ہے ۔
شاعر کا دل ویران سنسان اور اجڑے ہوئے ملک میں نہیں لگتا ۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے برما کے شہر رنگون میں قید کر کے بے پناہ تکلیفیں دیں ۔ ان کی شاعری انہی محرومیوں کی عکاسی کرتی ہے اور انگریزوں کی شاطرانہ چالوں اور اپنوں کی بے اعتنائی کا ایسا منظر پیش کرتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر اپنے اس شعر میں دکھوں اور مصیبتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری دنیا اجڑ چکی ہے ۔ اس تباہ حال اور ویران جگہ پر میرا دل نہیں لگتا ۔ ویسے میری ہی نہیں بلکہ یہ عارضی اور فانی دنیا میں کسی کی بھی نہ بن سکی۔ مراد یہ ہے کہ دنیا مصائب کا گھر ہے ۔ یہاں مصیبتوں اور تکلیفوں کے سوا کچھ نہیں۔ ہر شخص پریشان اور اداس دکھائی دیتا ہے۔ اس دنیا میں کوئی بھی خوش نہیں ۔
بقول شاعر :
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
بہادر شاہ ظفر اس دنیا کو عارضی ٹھکانہ کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ناپائیدار دنیا سے دل لگانے کا کیا فائدہ ہے۔ ہر عقلمند ذی روح آخرت کی فکر کرتا ہے۔ جہاں ابدی زندگی گزارنی ہے ۔ اس لیے اس عارضی دنیا کی ہر شے عارضی اور فانی ہے ۔
بقول شاعر :
زندگی جس پہ ناز ہے اتنا
چند سانسوں کی ایک کہانی ہے
شعر نمبر 2 :
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
مشکل الفاظ کے معانی : عمر دراز (لمبی عمر) ، آرزو (تمنا ، خواہش ) ، چار دن) چند روز ، ذرا سی مدت)
مفہوم : زندگی بہت مختصر ہے آدھی زندگی آرزوئیں کرتے اور باقی باقی زندگی آرزوئیں پوری کرنے کے انتظار میں گزر جاتی ہے ۔
تشریح: بہادر شاہ ظفر کی شاعری سوز و گداز اور غم کے مضامین دل پر اثر کرتے ہیں۔ مذکورہ شعر میں انھوں نے بہت عمدہ انداز میں طنزیہ بات کی ہے۔ ایک طرف تو اس نے لمبی عمر کی بات کی ہے اور دوسری طرف عمر دراز کو چار دن سے تشبیہ دی ہے۔ مختصر زندگی کو عمر دراز سے تشبیہ دے کر اس بات کو نمایاں کیا گیا ہے کہ اس معمولی سے عرصے میں انسان کیا کر سکتا ہے آرزوؤں کے برعکس مصیبتوں اور دکھوں کو دیکھا جائے تو انسان مختصر سی زندگی سوچ و بچار میں ہی گزار دیتا ہے۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے چار دن کی عمر مانگی تھی۔ جو نہایت ہی مختصر زندگی تھی آرزوئیں اور امنگیں بہت زیادہ تھیں۔ ساری زندگی گزر گئی لیکن آرزوئیں پوری نہ ہوئی۔ کوئی امید بھی بر نہ آئی ۔ ہم اس دنیا میں جس طرح خالی ہاتھ آئے تھے اسی طرح خالی ہاتھ چلے گئے ۔ مختصر یہ کہ دنیا میں کسی کی بھی سب تمنائیں اور آرزوئیں پوری نہیں ہوتی ۔ اسی مضمون کو اپنے انداز میں مرزا غالب نے یوں بیان کیا ہے:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
شاعر کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی کے چار دنوں میں سے دو خواہشیں کرتے گزر جاتے ہیں اور باقی دو خواہشوں کے پورا ہونے کے انتظار میں گزر جاتے ہیں۔ یوں یہ زندگی ختم ہو جاتی ہے۔
بقول شاعر :
مرنے کے بعد بھی میری آنکھیں کھلی رہیں
عادت جو پڑ گئی تھی تیرے انتظار کی
ایک اور ایک اور شاعر چار دن کی زندگی کا گلہ اس طرح کرتے نظر آتے ہیں:
میرے محبوب نے وعدہ کیا تھا پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا کہ دنیا چار دن کی ہے
شعر نمبر 3 :
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
مشکل الفاظ کے معانی : باغباں( مالی ) ، گلہ( شکایت ) ، صیاد (شکاری) ، فصل بہار( بہار کا موسم) ، قسمت( مقدر) ، قید ( اسیری ، پابندی) مفہوم : مجھے اپنے دوستوں اور دشمنوں سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ شاہانہ زندگی میں زوال تو میرے مقدر میں لکھا تھا ۔
تشریح : بہادر شاہ ظفر کی پہچان ان کی غزل ہے۔ زبان کی سلاست اور روانی نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔ اس شعر میں بظاہر یہ کہا گیا ہے کہ بلبل کو مالی یا اسے پکڑنے والے شکاری سے کوئی شکایت نہیں کیونکہ موسم بہار یا خوشی کے دنوں میں تو اس کے مقدر میں پنجرے میں بند ہونا ہی لکھا تھا ۔ شاعر کہتا ہے کہ جب ہر کام اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی سے ہوتا ہے تو پھر انسان کو یہ آرام اور مشکل کی گھڑی میں اپنی قسمت اور مقدر پر صبر کرنا چاہیے۔ اگر میں اب قید و بند میں مبتلا ہوں تو یہ میری قسمت میں ہی ہے۔ اسی لیے میں کسی کو برا بھلا نہیں کہہ سکتا ۔ اصل میں شاعر بہادر شاہ ظفر کو اپنی بادشاہت کا زمانہ یاد آ رہا ہے ۔ جب رعایا پر ان کا حکم چلتا تھا ۔ پھر وہ برما کے شہر رنگون میں قید کر دیے گئے ۔ جہاں انھیں انگریزوں نے طرح طرح کی تکلیفیں اور اذیتیں پہنچائیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ مجھے نہ تو انگریزوں سے کوئی گلہ ہے اور نہ ہی اپنی رعایا سے کوئی شکایت ہے کیونکہ قید تو میرے مقدر میں لکھی تھی۔ زمانہ عروج پر زوال کا آ جانا ہی میرا نصیب تھا ۔
بقول شاعر :
تقدیر بنانے والے تو نے کمی نہ کی
اب کس کو کیا ملا ہے مقدر کی بات ہے
ایک اور شاعر قسمت کی کمی کا گلہ اس طرح کرتے ہیں :
اب فیصلہ نصیب پہ چھوڑیں جو ہو سو ہو
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
شعر نمبر 4 :
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
مشکل الفاظ کے معانی : حسرت( آرزو ، خواہش) ، کہیں اور (کسی دوسری جگہ ) ، بسنا (رہنا ، گھر بنانا، آباد ہونا) ، دل داغدار ( زخمی دل) ، کہہ دو (کہو)
مفہوم : شاعر اپنی حسرتوں آرزوں اور خواہشوں کو چھوڑنا چاہتا ہے ۔ اس لیے کہہ رہا ہے کہ اس کے زخمی دل میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
تشریح : بہادر شاہ ظفر مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ تھے ۔ 1857ء کے انقلاب میں انگریزوں نے دلی پر قبضہ کر لیا ۔ دلی کی رونقیں برباد ہو گئیں۔ بہادر شاہ ظفر کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا ۔ ان کے بیٹوں کو قتل کر دیا گیا اور انھیں رنگون کے قید خانے میں ڈال دیا گیا اور ان کی زندگی کے آخری ایام انتہائی کسمپرسی کے عالم میں گزرے ۔ اسی لیے زندگی کی تلخیوں اور آلام و مصائب سے تنگ شاعر ان سب آرزوں ، تمناؤں ، خواہشوں اور امنگوں کو ترک کرنا چاہتا ہے ۔ جو دنیا میں صرف خواب بن کر رہ گئی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی امید بر آتی دکھائی نہیں دے رہی ۔ اس لیے وہ ان تمام حسرتوں اور امیدوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ اب میرا پیچھا چھوڑ کر کہیں اور جا بسیں ۔ اب میری ہمت جواب دے چکی ہے۔ میرے زخمی دل میں اب تمھارے لیے کوئی رہنے کی جگہ نہیں کیونکہ اس سے تو خوشیوں اور قہقہوں کے بجائے آہیں سسکیاں اور فریادیں نکل رہی ہیں۔ میری نا تمام خواہشات کو چاہیے کہ وہ کہیں اور اپنا ٹھکانہ بنا لیں۔ دل کے زخموں سے اب خون رسنے لگا ہے۔ اس دل میں اب مزید زخم سہنے کی ہمت نہیں رہی۔
بقول شاعر :
غم دل کی تاب کہاں مجھے میں تو مر چکا میرے دوستو
جسے جسم کہتے ہو تم میرا میری حسرتوں کا مزار ہے
شعر نمبر 5:
دن زندگی کے ختم ہوئے شام ہو گئی
پھیلا کے پاؤں سوئیں گے کنج مزار میں
مشکل الفاظ کے معانی : کنج مزار (مزار کا کونا) ، کنج (کونا ، گوشہ) ، شام ہو گئی ( زندگی ختم ہو گئی) ، سوئیں گے( ارام کریں گے ) ، مزار( زیارت کرنے کی جگہ ، قبر درگاہ) ، پاؤں پھیلا کے (بے فکر ہو کے)
مفہوم : زندگی کے دن ختم ہونے والے ہیں ۔ اب تو موت ہی میرے لیے باعثِ راحت ہوگی اور ہم سکون سے سو جائیں گے۔
تشریح : بہادر شاہ ظفر نے زندگی کے آخری ایام رنگون کے قید خانے میں گزارے ۔ یہ قید خانہ تنگ و تاریک تھا ۔ شاعر زندگی سے مرنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ وہ ان پریشانیوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور ان سے نجات کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ انسان اس دنیا سے چل بسے ۔ پھر ہی سکون مل سکتا ہے۔ برما کے شہر رنگون میں قید آخری مغل بادشاہ اور شاعر بہادر شاہ ظفر مصائب جھیلتے جھیلتے خود کو دلاسہ دے رہے ہیں کہ زندگی کے آخری لمحات ہیں۔ اب موت آنے ہی والی ہے۔ پھر قبر کے ایک کونے میں پڑے بے فکر ہو کر سوئیں گے اور تاحشر ہم تخریبات زمانہ سے محفوظ رہیں گے۔
بقول شاعر :
زندگی تجھ سے تو اپنی کوئی قیمت نہ لگی
موت آئے گی تو کر جائے گی مہنگا ہم کو
ایک اور شاعر زندگی کی مصیبتوں کا تذکرہ اس طرح کرتے ہیں :
زندگی تو بے وفا ہے ساتھ چھوڑ جائے گی
موت کتنی باوفا ہے ساتھ لے کر جائے گی
افلاطون سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے موت سے سخت کس چیز کو پایا ہے ۔ افلاطون نے جواب دیا زندگی کو کیونکہ موت تو ان تمام تکالیف کا خاتمہ کر دیتی ہے جو ہم زندگی میں جھیلتے ہیں ۔
شعر نمبر 6 :
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ ملی کوہ یار میں
مشکل الفاظ کے معانی : بد نصیب( بدقسمت) ، کتنا ہے (یعنی بہت زیادہ ہے ) ، دو گز زمین( تھوڑی سی زمین) ، کوئے یار( محبوب کی گلی یا کوچہ مراد ہے اپنا ملک )
مفہوم : شاعر بہادر شاہ ظفر اپنی بدقسمتی کا رونا روتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی وہ ہندوستان کے بادشاہ تھے آج انھیں یہاں دفن ہونے کے لیے دو گز زمیں بھی نہیں مل سکی۔
تشریح : بہادر شاہ ظفر اپنی غزل کے اس شعر میں بد نصیبی اور بدقسمتی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھ جیسا بدنصیب دنیا میں کوئی شخص ہوگا جو مصیبت کا مارا اور بدقسمت ہو۔ جس کے بادشاہ ہونے کے باوجود دفن ہونے کے لیے اپنے وطن میں قبر کے لیے جگہ بھی نہ ملی ہو ۔ اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوگی ۔ ایک زمانہ تھا جب بہادر شاہ ظفر ہندوستان کے بادشاہ تھے اور ان کا حکم چلتا تھا ۔ وقت نے پلٹا کھایا تو انگریزوں نے انھیں برما کے شہر رنگون کی جیل میں بند کر کے ظلم کی انتہا کر دی ۔ بدقسمتی یہ کہ ان کے دو جوان بیٹوں کو انھیں کی آنکھوں کے سامنے گولی مار دی گئی۔ بادشاہی ماضی کا قصہ بن گئی۔ کل کا بادشاہ آج فقیروں سے ابتر تھا ۔ بہادر شاہ ظفر نے قید میں ہی وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔ گو کہ یہ شعر انھوں نے اپنی زندگی میں کہا لیکن ان کی یہ بات اللہ نے پوری کی۔ انھیں ہندوستان کی مٹی نصیب نہ ہو سکی اور رنگون میں ہی دفن کیے گئے۔ ان کا شکستہ حال مزار آج بھی بادشاہوں کے ساتھ ساتھ بادشاہوں کے سلوک کی غمازی کرتا نظر آتا ہے۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ بہادر شاہ ظفر کی غزل ” لگتا نہیں ہے دل ❤️ میرا اجڑے دیار میں” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.