لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے

آج کی اس پوسٹ میں ہم احمد فراز کی غزل ” لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے” کی لغت ، مفہوم اور تشریح کے بارے میں پڑھیں گے ۔

شعر نمبر 1 :

لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے

اب لہو بولے گا تلوار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : لب کشا( لب کھولنا ، بات کرنا) ،  سرکار (حکومت ، بادشاہ) ،  لہو بولنا( مراد انقلاب آنا )

مفہومِ : اب لوگوں میں بولنے کی ہمت پیدا ہو گئی ہے اس لیے حکومت کو خاموش ہونا پڑے گا ۔ اب تلوار نہیں لہو بولے گا ۔

تشریح : ہر دل عزیز اور مقبولِ عام شاعر احمد فراز ترقی پسند اور انقلابی سوچ کے حامل تھے۔  انہوں نے ساری زندگی مارشل لا حکومتوں اور آمروں کے خلاف علم بغاوت بلند کیے رکھا ۔ ان کی شاعری میں معاشرتی ناہمواریوں ، سماجی ناانصافیوں اور حکومت وقت کے ظالمانہ فیصلوں کے خلاف شدید رد عمل پایا جاتا ہے ۔ ظالم اور جابر حکمران اپنے ذاتی مفاد کی خاطر عوام پر ظلم و ستم ڈھاتے ہیں ۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ اگر کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے سخت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ زندان میں قید کر دیا جاتا ہے یا اسے تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے ۔ اس طرح طاقت کے زور پر لوگوں کی زبانیں بند کرا دی جاتی ہیں اور آزادی رائے کا حق چھین لیا جاتا ہے ۔ کچھ عرصہ تک تو لوگ ظالم حکمرانوں کی یہ پابندیاں ، سختیاں اور ظلم و ستم برداشت کرتے ہیں لیکن بالآخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور وہ مزاحمت پر اتر آتے ہیں ۔ حکومت وقت کے خلاف سراپا احتجاج ہو جاتے ہیں اور علم بغاوت بلند کر دیتے ہیں ۔

مشہور مثل ہے کہ ظلم کی ٹہنی پھلتی پھولتی نہیں ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو وہ مٹ جاتا ہے ۔

بقول ساحر لدھیانوی :

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

تشریح طلب شعر میں بھی اسی پس منظر میں ایک مزاحمتی شعر ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ظالم حکمرانوں نے جتنے ظلم و ستم ڈھانے تھے وہ ڈھال لیے اب لوگ حکومت وقت کی بات نہیں سنیں گے اور نہ ان کے ظلم و ستم مزید برداشت کریں گے ۔ اب لوگ سراپا احتجاج ہیں اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ حکومت وقت اب طاقت کے زور پر انہیں خاموش نہیں کرا سکتی ۔ حکومت کی تلوار لوگوں کا خون بہاتی رہی اب تلوار نہیں بلکہ لوگوں کا لہو بولے گا ۔ عوام ظالم حکمران کا تختہ الٹ دیں گے ۔

بقول شاعر :

دیکھیے سہتے ہیں کب تک اہل جور و ستم

دیکھیے رہتی ہے کب تک ظلم کی رسی دراز

شاعر نے لفظ تلوار طاقت ، ظلم و ستم اور جبر کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے ۔ اسی طرح لہو کے بولنے سے مراد انقلاب برپا ہونا ہے یعنی اب حکومت وقت لوگوں کو طاقت اور ظلم و جبر سے خاموش نہیں کرا سکتی ۔ اب ایک عظیم انقلاب حکومت وقت کا تختہ الٹ دے گا ۔ حکمرانوں نے جتنا ظلم و ستم کرنا تھا وہ کر چکے اب وقت آ چکا ہے کہ ان مظلوموں کے خون کا بدلہ چکایا جائے ۔ پہلے لوگوں کو خوف تھا کہ ظلم کے خلاف زبان کھولی تو سزا ملے گی لیکن اب لوگ بے باک اور نڈر ہو گئے ہیں اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔  اب انہیں جبر اور طاقت سے خاموش نہیں کروایا جا سکتا ۔ یہ ایک عظیم انقلاب کا پیش خیمہ ہے ۔

بقول فیض احمد فیض :

اے خاک نشینوں اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے

جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے

اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں

جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

شعر نمبر 2 :

بکنے والوں میں جہاں ایک سے ایک آگے ہو

ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : بکنے والے،( جنہیں خریدا جا سکے مراد غدار لوگ) ، میلہ( لوگوں کا اجتماع جہاں خرید و فروخت اور کھیل تماشوں کا اہتمام ہو)

مفہوم :  جہاں سب لوگ آگے بڑھ کر بکنے کو تیار ہوں وہاں خریدار کو بولی لگانے کی ضرورت نہیں ۔ تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر ایسے ضمیر فروشوں اور غداروں کے بارے میں بات کر رہا ہے جو قومی مفاد پر اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور چند پیسوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کر دیتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے جب ضمیر فروشوں اور غداروں کا میلہ لگا ہوا ہو اور ایک سے بڑھ کر ایک بکنے کے لیے تیار بیٹھا ہو تو وہاں خریدار کو اونچی آواز میں بولی لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور قیمت کے تعین میں زیادہ بحث و تکرار نہیں کرنا پڑتی ۔

بقول عدیم :

اس نے کہا کہ ہم بھی خریدار ہو گئے

بکنے کو سارے لوگ ہی تیار ہو گئے

منڈی یا بازار کا قاعدہ ہے کہ چیزوں کی قیمت ان کی طلب اور رسد کے مطابق مقرر ہوتی ہے ۔ جب کوئی چیز قیمتی ہو اور تھوڑی مقدار میں ہو تو اس کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے ۔ بعض اوقات اس سے بولی لگا کر بھی بیچا جاتا ہے ۔ ہر خریدار اونچی آواز میں ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی لگاتا ہے جو زیادہ بولی لگاتا ہے وہ اسے خرید کر لے جاتا ہے ۔ اس کے برعکس جب چیز بے وقت ہو اور وافر مقدار میں ہو تو اس کی قیمت کم ہوتی ہے ۔ خریداروں کو بولی لگانے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور قیمت کے لیے زیادہ بحث و تکرار نہیں کرنا پڑتی ۔ طلب اور رسد کا یہ اصول ہر جگہ لاگو ہوتا ہے ۔ جب کوئی چیز زیادہ مقدار میں دستیاب ہو تو وہ سستی ہو جاتی ہے ۔ شاعر کہتا ہے ہمارے ملک میں بھی ایسے غدار اور ضمیر فروش لوگوں کی کثرت ہے جو چند پیسوں کی خاطر یا کسی عہدے کی لالچ میں وطن فروشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور دشمنوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ ہر غدار وطن اور ضمیر فروش ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر دشمن کے سامنے خود کو فروخت کرنے کے لیے پیش کرتا ہے اور کہتا ہے مجھے اگر پیسے دو تو میں دوسروں سے زیادہ خون بہاؤں گا ۔ ایسے بے ضمیروں کے میلے میں خریدار کو بولنے کی ضرورت نہیں ۔ ایسے ہی غداروں اور ضمیر فروشوں کی سازشوں کی وجہ سے ہمارا آدھا ملک مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا ۔ شاعر ایسے لوگوں پر طنز کر رہا ہے کہ یہ لوگ بازار کی جنس کی مانند ہیں جنہیں کوئی بھی خرید سکتا ہے ۔

بقول علامہ اقبال :

یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو

مجھ کو تو گلا تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد ملک کو کوئی مخلص رہنما میسر نہیں آیا ۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر نوابوں اور وڈیروں اور زمینداروں ہی کی حکومت رہی ہے ۔ جو انتخابی مہم کے دوران اپنی طاقت اور دولت کے بل بوتے پر لوگوں کے ووٹ خرید لیتے ہیں یا پھر انتخابی عملہ کو خرید کر جعلی ووٹ ڈلواتے ہیں ۔ یہ عوام کی جہالت اور بے ضمیری ہے کہ وہ چند پیسوں کی خاطر بددیانتی پر رضامند ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حکومتوں اور نظام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ سالہا سال سے موروثی سیاست چلی آ رہی ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے جن لوگوں سے مجھے توقع تھی کہ وہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے میرے ساتھ مل کر جدوجہد میں شریک ہوں گے ۔ وہ سب ایک دوسرے سے بڑھ کر ضمیر فروش نکلے ۔ جہاں چھوٹا بڑا ہر شخص بکنے کے لیے تیار ہو وہاں حکمرانوں یا خریداروں کو بولی لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور انہیں خریدنے میں زیادہ رد و قدح اور بحث و تکرار نہیں کرنا پڑتی ۔

بقول شاعر :

ہم نے دیکھا ہے کہ دولت کے حسین شانوں پر

لوگ بڑے آرام سے غیرت کو سلا دیتے ہیں

شعر نمبر 3 :

لو چلے آئے ہیں عدالت میں گواہی دینے

مجھ کو معلوم ہے کسی یار نے کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : عدالت( کچہری ،  کوٹ) ،  یار( دوست)

مفہوم :  عدالت میں میرے خلاف گواہی کے لیے جنہیں لایا گیا ہے مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے کس نے کیا بولنا ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر معاشرے میں پائی جانے والی برائی منافقت کو بیان کرتا ہے ۔ بعض لوگ بظاہر تو ہمارے دوست ہوتے ہیں لیکن در پردہ وہ ہمارے مخالف ہوتے ہیں ۔ آستین کے سانپ کی مانند معمولی فائدے کی خاطر جب بھی انہیں موقع ملتا ہے تو وہ گزند پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں ظالم حکمرانوں نے مجھ پر مقدمہ دائر کر دیا ہے ۔ جب مجھے عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے خلاف گواہی دینے کے لیے جن کو لایا گیا ان میں سے میرے دیرینہ دوست بھی شامل ہیں جو کبھی بظاہر میرے ساتھ ہوتے تھے لیکن اپنی منافقت اور بے ضمیری کی وجہ سے وہ آج میرے خلاف گواہی دینے چلے آئے ہیں ۔ وہ حکمرانوں کے منظورِ نظر بننا چاہتے ہیں ۔ اس لیے میرے خلاف گواہی دینے آ گئے ہیں ۔ حکومت وقت نے انہیں خرید لیا ہے ۔ مجھے ہر دوست کی روش معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ کس دوست نے میرے خلاف کیا گواہی دینی ہے۔  ان مفاد پرستوں نے اپنے معمولی فائدے کی خاطر اپنے ضمیروں کا سودا کر لیا ہے ۔ جب مخلص لوگ پیچھے ہٹ جائیں تو ظالمانہ نظام اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے ۔

بقول جالب :

دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے

دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے

اور بقول حفیظ جالندھری :

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لوگ گواہی دیتے وقت حق اور انصاف کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں ۔ وہ سچ اور جھوٹ دیکھے بغیر جہاں انہیں فائدہ نظر آتا ہے وہیں جھک جاتے ہیں ۔ اپنے معمولی سے فائدے کی خاطر حق و انصاف کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جہاں جھوٹی گواہی کے لیے لوگ تیار ہوں ایسا معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔

بقول جون ایلیا :

بولتے کیوں نہیں میرے حق میں

آبلے پڑ گئے زباں میں کیا

اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ گواہی دیتے وقت حق اور سچ سے نہ پھرا جائے چاہے اپنے قریبی رشتہ داروں ہی کے خلاف گواہی کیوں نہ دینی پڑے ۔ شاعر کہتا ہے مجھے معلوم ہے عدالتوں میں کس طرح کے لوگ آتے ہیں اور ان کی گواہیوں میں کتنی صداقت ہوتی ہے ۔ مجھے معلوم ہے یہ ضمیر فروش اور مفاد پرست لوگ کس کے خلاف کیا گواہی دیں گے ۔

بقول قتیل شفائی :

عدل کی تم نہ ہمیں آس دلاؤ کہ یہاں

قتل ہو جاتے ہیں زنجیر ہلانے والے

اور بقول شبنم شکیل :

یہ کیسی منصفی تھی کہ منصف کے روبرو

جھوٹی شہادتوں کو بھی سچا لکھا گیا

ملزم کو بھی تو ملتا ہے کچھ بولنے کا حق

پھر کیوں نہیں بیان ہمارا لکھا گیا

شعر نمبر 4 :

اور کچھ دیر رہے گوش بر آواز ہوا

پھر چراغِ سرِ دیوار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : گوش پر آواز (آواز پر کان لگانا  ، سننے کا منتظر توجہ سے سننا ( , چراغِ سرِ دیوار (دیوار پر رکھا ہوا چراغ)

مفہوم :  ہوا کچھ دیر اور چراغ بجنے کی آواز کی منتظر رہے گی ۔ چراغ بجھنے کے بعد پھر آواز سنائی نہیں دے گی ۔

تشریح : زمانہ قدیم میں روشنی کے لیے رات کے وقت دیوار پر یا طاق پر چراغ رکھ دیا جاتا تھا جس سے تمام گھر روشن ہو جاتا تھا لیکن تیز ہواؤں کی موجودگی میں چراغ کا جلنا مشکل ہو جاتا تھا ۔ ہوا کا کام چراغ کو گل کرنا ہوتا ہے ۔ جب ہوا چلتی ہے تو وہ چراغ کو بجھا دیتی ہے۔  ہوا کی تیزی اور تندی چراغ کے لیے خطرہ جاں ہوتی ہے ۔ بجھنے سے پہلے چراغ کی لو پھڑپھڑاتی ہے اور کچھ دیر ٹمٹماتی ہے اور ہوا کا مقابلہ کرتی ہے ۔ چراغ جب تک بجھ نہیں جاتا ہوا اور اندھیرے سے ٹکراتا رہتا ہے اور روشنی پھیلاتا رہتا ہے ۔ چراغ کا کام روشنی پھیلانا ، اندھیرے ختم کرنا اور ہواؤں کے خلاف مزاحمت کرنا ہوتا ہے۔ جس وقت ہوا چراغ سے ٹکراتی ہے تو چراغ کی لو کے پھڑپھڑانے سے ایک آواز پیدا ہوتی ہے۔  جس سے ہوا کے مقابلے میں چراغ کی مزاحمت کا اندازہ ہوتا ہے جب یہ مزاحمت ختم ہو جاتی ہے تو چراغ بجھ جاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ابھی ہوا کچھ دیر اور چراغ کے بجنے کی آواز کی منتظر رہے ۔ چراغ کے بجنے کے بعد پھر یہ آواز سنائی نہیں دے گی ۔ احمد فراز ایک اور شعر میں کہتے ہیں :

اگرچہ زور ہواؤں نے ڈال رکھا ہے

مگر اس چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے

تشریح طلب شعر میں شاعر نے چراغ کا استعارہ اپنی ذات کے لیے استعمال کیا ہے ۔ جس طرح چراغ روشن ہو کر رات کی تاریکی کا پردہ چاک کرتا ہے اور اندھیرے کو اجالے میں بدل دیتا ہے ۔ اسی طرح شاعر کی ذات اور اس کی زندگی بھی چراغ کی مانند زمانے کی تاریکی کو روشنی میں بدل رہی ہے ۔ شاعر کی روشن خیالی ، اس کی شاعری اور تعلیمات جہالت کے لیے نور کا چراغ ہیں ۔ مایوسی اور مردہ دلوں کے لیے امید اور زندگی کا پیغام ہے لیکن ظالم اور شر پسند عناصر جن کے ہاتھوں میں طاقت کا عصا ہے وہ اس چراغ کو بجھانے کے درپے ہیں تاکہ لوگوں پر روشن خیالی اور آگاہی کا دروازہ بند ہو جائے ۔

بقول شاعر :

کتنا مشکل ہے جلانا کسی رستے میں چراغ

کتنا آسان ہے ہواؤں کو اشارہ کرنا

چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ میں بجھنے والا ہوں لیکن جب تک جلتا رہوں گا روشنی پھیلاتا رہوں گا ۔ ابھی ہوا کو میرے بجنے کی آواز کا انتظار کرنا پڑے گا ۔ جب تک میں مکمل بجھ نہیں جاتا میں اسی طرح روشنی پھیلاتا اور تاریکی کا پردہ چاک کرتا رہوں گا ۔ یہاں شاعر کی عزم و ہمت کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ جب تک میں زندہ ہوں ظلم و جبر کے خلاف ڈٹ کر لڑتا رہوں گا ۔ ابھی ہوا میرے بجھنے کی آواز کے منتظر رہے یعنی میرے دشمن ابھی میرے مرنے کا انتظار کریں ۔

بقول شاعر :

ہر حال میں حق بات کا اظہار کریں گے

ممبر نہیں ہوگا تو سر دسر کریں گے

اور بقول مرزا غالب :

ہمارے بعد کہاں یہ وفا کے ہنگامے

کوئی کہاں سے ہمارا جواب لائے گا

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کی زندگی بھی چراغ کی طرح عارضی اور فانی ہے ۔ کسی بھی حادثے یا بیماری کے جھونکے سے زندگی کا چراغ بجھ سکتا ہے ۔ حق کی آواز بلند کرنے والے کے خلاف بہت لوگ ہوتے ہیں ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ میں کچھ دیر تک تو حق کی سربلندی کے لیے شاید بول سکوں لیکن پھر چراغ سحر کی مانند بجھا دیا جاؤں گا اور میری آواز خاموش ہو جائے گی ۔ انسان تو مر جاتا ہے لیکن اس کا کردار ہمیشہ زندہ رہتا ہے کردار کو موت نہیں آتی ۔ اس لیے اے ہوا کان لگا کر اس عارضی فنا کی کہانی سن لے اور جان لے کہ اگر ایک چراغ گل ہو جاتا ہے تو اس کے بدلے کئی اور چراغ روشن ہو جاتے ہیں ۔ اگر ایک حق گو اور راست باز شخص کو طاقت کے زور پر چپ کروا بھی دو تو حق کو دبایا نہیں جا سکتا حق تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے ۔ حق کی آواز اٹھانے والے کئی اور لوگ پیدا ہو سکتے ہیں ۔

بقول علامہ اقبال :

جہاں میں اہل ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

شعر نمبر 5:

مجھ سے کیا پوچھتے ہو آخری خواہش میری

ایک گنہگار سرِ دار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : گنہگار (خطا کار یہاں مراد مجرم ) ، سر دار (پھانسی کے تختہ پر )

مفہوم :  مجھ سے میری آخری خواہش کیوں پوچھتے ہو ۔ ایک گنہگار پھانسی کی تختے پر کیا بولے گا ۔

تشریح :  زمانہ قدیم سے یہ اصول ہے کہ جب کسی مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے تو پھانسی سے قبل اس کے گھر والوں سے اس کی آخری ملاقات کرائی جاتی ہے اور اس کی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے تاکہ اسے پورا کر دیا جائے لیکن اگر کوئی مجرم یہ خواہش کرے کہ اسے سزائے موت نہ دی جائے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں کی جاتی ۔ تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے حق کی آواز بلند کرنے کے جرم میں سزا دی جا رہی ہے ۔ میں نے ساری زندگی حق کے لیے آواز اٹھائی اور ساری زندگی میری یہی خواہش رہی کہ وطن میں حق کا بول بالا ہو ۔ مظلوموں کو انصاف ملے کسی کا استحصال نہ ہو ظالم و جابر اور نااہل لوگوں کو اعلیٰ عہدوں سے ہٹایا جائے ۔ میں نے کبھی باطل اور جھوٹی طاقتوں کا ساتھ نہیں دیا ۔ اسی جرم میں موت کی سزا دی جا رہی ہے ۔ اب مجھ سے میری آخری خواہش کیا پوچھتے ہو ۔ میری خواہش تو یہی ہوگی کہ حق و انصاف کا بول بالا ہو ۔ اہل وطن کی بہتری اور ظلم و جبر سے نجات کے علاوہ میری اور کیا خواہش ہو سکتی ہے ۔ میں اب بھی وہی چاہتا ہوں جو پہلے چاہتا تھا لیکن مجھے یقین ہے کہ تم میری خواہش پوری نہیں کرو گے ۔

بقول یامین غوری :

جو مسند انصاف پہ بیٹھا ہے وہی شخص

منصف بھی ہے میرا قاتل بھی وہی ہے

ایک طرف مجھے نہ کردہ گناہوں کے الزام میں سزائے موت دی جا رہی ہے اور دوسری طرف مجھ سے آخری خواہش پوچھتے ہو ۔ چہ معنی دار رد ۔ میں آپ کی نظروں میں اس لیے مجرم ہوں کہ میں نے آپ کے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔ اس لیے میں کیا بولوں ویسے بھی تم نے میری خواہش پوری نہیں کرنی ۔ جب ایک ناکردہ گناہوں کے الزام میں مجھے سولی پر چڑھانا ہی ہے تو مجھ سے میری آخری خواہش کیا پوچھنی ۔

شعر کا دوسرے پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ وہی انسان کوئی خواہش کرتا ہے جسے جینے کی امید ہو ۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی آرام و سکون اور عیش و عشرت سے گزارے ادھورے کام پایا تکمیل کو پہنچائے وہ خواہش پر خواہش کر سکتا ہے ۔

بقول مرزا غالب :

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

لیکن جو شخص مر رہا ہو اسے کس چیز کی خواہش ہو سکتی ہے ۔ جب میری زندگی ہی ختم ہوئے جا رہی ہے تو میں کیا خواہش کروں ۔ ایک گنہگار اور مجرم کو جسے تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہو وہ اپنی آخری خواہش کیا بولے گا ۔

بقول بہادر شاہ ظفر :

ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں

اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں

شعر نمبر 6 :

خلقتِ شہر چپ ، شاہ کے فرمان کے بعد

اب کسی واقفِ اسرار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : خلقتِ شہر (شہر کے لوگ) ،  شاہ( بادشاہ ، حاکم وقت ) ، واقفِ اسرار (راز جاننے والا )

مفہوم :  شہر کے تمام لوگ حاکم کے فرمان کے سامنے خاموش ہیں ۔ ایسے میں راز جاننے والے کیا بول سکتے ہیں ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ حکومت وقت نے تمام شہر میں یہ حکم جاری کیا ہے کہ کوئی بھی شخص حکومت کی پالیسی اور کسی قول و فعل پر تنقید نہ کرے اور کسی قسم کے اعتراض یا سوال نہ اٹھائے جو ایسا کرے گا وہ سخت سزا کا موجب ٹھہرے گا ۔ حکومت کے اس حکم کے بعد شہر کے تمام لوگوں نے خاموشی اختیار کر لی ہے ۔ حکمرانوں کے ظلم و ستم کی وجہ سے وہ لوگ جو راز جانتے ہیں وہ بھی مصلحت کے پیشِ نظر خاموش ہیں ۔ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کہتے ۔ لوگ ظالم حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور ان کے ظلم و ستم سے واقف ہیں لیکن سزا کے ڈر سے کوئی بھی سچ بولنے کی جرات نہیں کرتا۔  دوسرا مطلب یہ ہے کہ زبان بندی کے دور میں اگر کوئی راز جاننے والا اور اس ظلم و ستم اور بربریت کے خلاف راستہ نکالنے والا بولے گا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ لوگوں میں خوف و حراس پھیلا ہوا ہے کوئی بھی اس کا ساتھ نہیں دے گا ۔ اسے اکیلے ہی قید و بند کی اذیتیں برداشت کرنی پڑیں گی ۔ چنانچہ مصلحت کے پیشِ نظر وہ بھی خاموش رہتا ہے ۔

بقول ناصر کاظمی:

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی

میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

جمہوریت میں عوام کو حکومت کی ہر پالیسی اور قول و فعل پر مکمل اعتراض کا حق ہوتا ہے کیونکہ حکمران عوام منتخب کردہ نمائندہ ہوتا ہے ۔ عوام کے ووٹ کے ذریعے وہ حکمران بنا ہوتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے ہر قول و فعل کا عوام کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے لیکن جب کوئی آمر حکمران آتا ہے تو وہ رائے کا حق چھین لیتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی جمہوریت نہیں بلکہ آمریت ہے ۔ آمر عوام کے ووٹ کے ذریعے حکمران نہیں بنے ہوتے ۔ اس لیے وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہونا ضروری نہیں سمجھتے انہیں عوام کی فلاح و بہبود سے غرض نہیں ہوتی بلکہ اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی غرض سے ان کو غرض ہوتی ہے ۔ چنانچہ ایک آمر ہر طبقے سے مخالفانہ آوازوں اور تحریکات کو دبانے کی کوشش کرتا ہے ۔

بقول فیض احمد فیض :

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

احمد فراز آزادی اظہار کے قائل تھے اسی وجہ سے انہیں فوجی حکومتوں میں شدید تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ذرائع ابلاغ آزاد ہونے چاہیے ۔ ہر ایک کو آزادی رائے کا حق ہونا چاہیے تاکہ مبصرین حکمرانوں کی پالیسیوں پر بے لاگ تبصرہ کر سکیں ۔ تقریر و تحریر پر بے جا پابندیاں نہ ہوں ۔

بقول حبیب جالب :

تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشین تھا

اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقین تھا

آج سوئے ہیں تہ خاک نا جانے کتنے

کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا

شعر نمبر 7 :

وہی جانے پس پردہ جو تماشا گر ہے

کب ، کہاں ، کون سے کردار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : پس پردہ( پردے کے پیچھے) ،  تماش گر (تماشا دکھانے والا شخص ، مداری یہاں مراد حاکم )

مفہوم :  پردے کے پیچھے تماشا دکھانے والا ہی جانتا ہے کہ کس کردار نے کب ، کہاں اور کیا بولنا ہے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر نے ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہوتی ہے ۔ جو ملک کا نظم و نسق چلاتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے جس طرح کٹھ پتلی کا تماشا دکھانے والا خود پس پردہ ہوتا ہے اس کے ہاتھ میں کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ہوتی ہیں جنہیں وہ ہلاتا رہتا ہے اور کٹھ پتلیاں ناچتی رہتی ہیں ۔ اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کس کٹھ پتلی کی ڈوری ہلانی ہے اور کس کی نہیں ہلانی ۔ لوگوں کو ناچتی ہوئی کٹھ پتلیاں تو نظر آتی ہیں لیکن پس پردہ تماشا گر نظر نہیں آتا ۔ بالکل اسی طرح یہ حکومتی باشندے بھی ہر کردار سے اپنی مرضی کے مطابق کام لیتے ہیں ۔ وہ اپنے ظلم و جبر اور ناانصافیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تماشا گروں کی طرح تماشے تخلیق کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی توجہ واقعہ سے ہٹ جائے ۔

بقول قتیل شفائی :

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ

ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں بلکہ آمریت مستحکم ہے ۔ آمر اپنے ذاتی مفاد کے لیے جمہوریت کو استعمال کرتے ہیں گویا جمہوریت کے نام پر ایک طرح سے کھیل کھیلا جاتا ہے ۔ جس طرح ایک کٹھ پتلی کھیل یا تماشے میں چند مخصوص کردار ہوتے ہیں جن کی ڈوریاں تماشا گر کے ہاتھ میں ہوتی ہیں وہ جس کٹھ پتلی کی جس سمت ڈوری ہلاتا ہے وہ اسی سمت حرکت کرتی ہے اور تماشا دکھاتی ہے ۔ اسی طرح آمروں کی ڈوریاں تماشا گر کے ہاتھ میں ہوتی ہیں وہ جس کٹھ پتلی کی جس سمت ڈوری ہلاتا ہے اسی سمت وہ تماشا دکھاتی ہے ۔ اسی طرح آمروں نے ہر مصاحب کو مخصوص کردار دیا ہوتا ہے جس کا علم صرف آمر ہی کو ہوتا ہے ۔ وہ جس مصاحب کو جو حکم دیتا ہے وہ وہی کام کرتا ہے ۔ بظاہر جمہوری حکومت ہوتی ہے لیکن درپردہ آمریت کا سکہ چل رہا ہوتا ہے ۔ جمہوری حکمران آمروں کے ہاتھ کی کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں ۔

بقول مرزا غالب :

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

شعر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالمی طاقتیں امریکہ اور مغربی ممالک ترقی پذیر ممالک کی نظم و نسق میں مداخلت کرتے ہیں ۔ حکومتوں کی تبدیلی وزراء کا انتخاب سب کچھ ڈراموں کے سکرپٹ کی طرح پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے ۔ تماشا گر کو معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے کون سی تقریر کرنی ہے ۔ صدر نے کیا خطاب کرنا ہے ۔ کیا کہنا ہے۔ حکمران عالمی طاقتوں کے اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی طرح حرکت کرتے ہیں ۔ وہ اپنی کرسی بچانے کے لیے ان کا ہر جائز و ناجائز حکم مانتے ہیں۔  حکمرانوں کے قول و فعل کی ڈوریاں عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں ۔ وہ عوام کے سامنے وہی کہتے ہیں اور کرتے ہیں جس کا انہیں حکم ملا ہوتا ہے ۔ تماشا گر عالمی طاقتیں جن کے ہاتھ میں حکمرانوں کی ڈوریاں ہیں انہیں معلوم ہوتا ہے کہ کس حکمران سے کس موقع پر کون سی بات کہلوانی ہے ۔ کسے منظر عام پر لانا ہے اور کسے منظر عام سے ہٹانا ہے ۔ کسے حکمران بننا ہے اور کس کا تختہ الٹنا ہے ۔  سب کچھ پہلے سے طے ہوتا ہے ۔ ہر کردار طے شدہ وقت اور موقع محل کے مطابق اپنا کردار نبھاتا ہے ۔ اس شعر کے ذریعے شاعر نے حکمرانوں کی نااہلیوں اور سیاسی کمزوریوں کی تصویر کشی کی ہے اور بتایا ہے کہ ہم آزاد ملک میں رہنے کے باوجود بھی آزاد نہیں  ۔

بقول راحت اندوری :

جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے

کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے

شعر نمبر 8 :

جہاں دربار ہوں شاہوں کے مصاحب ہوں فراز

وہاں غالب کے طرف دار کو کیا بولنا ہے

مشکل الفاظ کے معانی : شاہوں( شاہ کی جمع بادشاہ ) ، مصاحب( خاص دوست ، ہم نشین) ،  طرف دار (حمایتی  ، ساتھ دینے والے)

مفہوم :  جن درباروں میں بادشاہوں کے خاص شاعروں ہی کو عزت ملتی ہو وہاں غالب جیسے شاعر کی طرف دار کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ عزت کا معیار قابلیت اور ہنرمندی نہیں بلکہ قرابت داری اور چاپلوسی ہے ۔ یہاں عزت دار وہ ہے جو بادشاہ وقت کا خاص قرابت دار ہے یا خوشامدی ہے انہی کی بادشاہ کے دربار تک رسائی ہوتی ہے اور انہی کو عہدوں اور  مرتبوں سے نوازا جاتا ہے جبکہ قابل اور اہل لوگوں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ شعر میں غالب سے مراد قابل اور ہنر مند لوگ ہیں اور شاہوں کے مصاحب سے مراد موقع پرست اور خوشامدی لوگ ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ نااہل لوگ عہدہ و مرتبہ حاصل کرنے کے لیے خوشامد اور چاپلوسی کا سہارا لیتے ہیں جبکہ ہنر مند اور قابل لوگ خوددار ہوتے ہیں ۔ وہ کسی کے آگے جھکنا پسند نہیں کرتے ۔ خوشامد اور موقع پرستوں کی موجودگی میں اہل ہنر خاموش رہتے ہیں انہیں اہمت نہیں دی جاتی ۔

بقول مرزا محمود سرحدی :

ہم نے کہا اقبال کا مانا

اور فاقوں کے ہاتھوں مرتے رہے

جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں

ہم خودی کو بلند کرتے رہے

شاعر نے شعر میں غالب اور ذوق کی تاریخی کشمکش کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ۔ غالب ذوق سے اچھے شاعر تھے ۔ زمانہ ان کی قابلیت کا اعتراف کرتا تھا لیکن ذوق کو بہادر شاہ ظفر کا استاد ہونے کا شرف حاصل تھا ۔ وہ بادشاہ کے زیادہ قریب تھے اس لیے بادشاہ غالب کی کسی بات کی کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے ۔ غالب کی دیرینہ خواہش تھی کہ وہ بادشاہ کے دربار میں خاص مقام حاصل کریں اور بادشاہ ان کے فن کی قدر کرتے ہوئے کسی طرح انہیں اپنے درباری شعراء میں شامل کر لے ۔ بادشاہ نے غالب کی بجائے ابراہیم ذوق کو دربار میں خاص مقام دیا ہوا تھا ۔ ان کی موجودگی میں غالب کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اسی تناظر میں شاعر کہتا ہے کہ جہاں شاہ کے دربار میں شاہ کے خاص مصاحب ، موقع پرست اور چاپلوس موجود ہوں وہاں اہل ہنر اور قابل لوگوں کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔

بقول شاعر :

برسوں سنوارتے رہے کردار ہم مگر

کچھ لوگ بازی لے گئے سورت سنوار کر

نوٹ : امید ہے کہ آپ احمد فراز کی غزل ” لب کشا لوگ ہیں سرکار کو کیا بولنا ہے” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply