قصیدہ

قصیدہ کی تعریف ، وضاحت ، قصیدہ کے اجزاء اور مثالیں

قصیدہ:

تعریف: قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے جو قصد سے نکلا ہے جس کے معنی ارادہ کرنا کے ہیں۔  اس کا دوسرا نام مغز بھی ہے یعنی قصیدہ شاعری کی دیگر اصناف کے مقابلے میں وہی مقام رکھتا ہے جو انسانی جسم میں دماغ اور مغز کا ہے ۔ اصطلاح میں قصیدہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں کسی زندہ شخص کی تعریف بیان کی گئی ہو خصوصاً بادشاہ  ،وزیر  ،رئیس ، سردار یا کسی بڑے شخص کے اوصاف بیان کیے گئے ہوں۔ 

وضاحت : قصیدہ عموماً طویل ہوتا ہے ۔ اس میں فصاحت و بلاغت اور شکوہ الفاظ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے ۔ اس میں ردیف لازمی نہیں ہوتی۔ 

مثلآ

صبح دم دروازہ خاور کھلا

مہر عالم تاب کا منظر کھلا

خسرو انجم کے آیا صرف میں

شب کو گنجینہ گوہر کھلا

وہ بھی تھی ایک سیمیا کسی نمود

صبح کو راز مہ اختر کھلا

(مرزا غالب )

قصیدہ کے اجزا: 

قصیدہ کے در ذیل اجزا ہیں: تشبیب ،  گریز  ،مدح اور دعا۔ 

ب ہم باری باری ان کی وضاحت کرتے ہیں ۔

1۔ تشبیب : قصیدے کا ابتدائی حصہ تشبیب کہلاتا ہے۔  تشبیب کے معنی ذکر شباب کے ہیں مگر تشبیب کے لیے موضوع کی پابندی نہیں ہوتی۔ تشبیب کے لیے اشعار عموماً عشقیہ اور بہاریہ ہوتے ہیں ۔

2۔گریز :  تشبیب کے بعد جب قصیدہ نگار اصل موضوع کا ذکر کرتا ہے تو اسے گریز کہتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تشبیب اور قصیدے کے اصل مضمون کو فنکاری سے ایک دوسرے کے ساتھ ملایا جائے۔

3۔مدح :  اس حصے میں قصیدہ گو ممدوح کے اوصاف بیان کرتا ہے یعنی اس کی عظمت ، شوکت  ،شرافت و نجابت  ، عدل و انصاف ، شجاعت و بہادری، دین داری ، خدا ترسی،  قناعت و راست بازی اور علم دوستی وغیرہ۔

4۔ دعا :  آخری حصے میں ممدوح کو دعا دی جاتی ہے اور دعا کے ذریعے قصیدہ گو اپنا صلہ بھی طلب کرتا ہے۔  بعد ازاں قصیدہ کے مقطع میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے ۔


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply