قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
آج کی اس پوسٹ میں ہم خواجہ میر درد کی ایک غزل ” قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا” کی تشریح کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر تیرے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : قتلِ عاشق( عاشق کا قتل) ، معشوق( محبوب جس سے عشق کیا جائے ) ، عہد (زمانہ ، دور ) ، آگے (پہلے) دستور) قانون , رواج ، رسم)
مفہوم : محبوب کے ہاتھوں عاشق کا قتل کچھ بعید نہیں لیکن اے محبوب تم سے پہلے اس رسم کا آغاز کسی نے نہیں کیا ۔
تشریح : کلاسیکی شاعری میں محبوب کو ظالم ، بے رحم اور مغرور دکھایا جاتا ہے ۔ جو عاشق پر طرح طرح کے ظلم و ستم روا رکھتا ہے ۔ عاشق کی آہ و فریاد اور گریہ و زاری کا اس پر ذرا اثر نہیں ہوتا ۔ وہ ہمیشہ اس سے بے رخی برتتا ہے جبکہ عاشق محبوب کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیتا ہے ۔ مصیبتیں برداشت کرتا ہے اور تکلیفیں جھیلتا ہے یہاں تک محبوب کی خاطر جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا بلکہ محبوب کے لیے جان قربان کرنا یا محبوب کے ہاتھوں قتل ہونا عاشق اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہے ۔ وہ تو محبوب کی ایک نگاہِ التفات کا منتظر ہوتا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ محبوب کی وفا حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔
بقول علامہ اقبال :
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں
اور بقول مرزا غالب :
عشق جب قتل گہ کو جاتا ہے
یہ بھی روز سعید ہوتا ہے
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اپنے عاشقوں اور چاہنے والوں کو قتل کر دینا کسی بھی زمانے کے محبوب کے لیے مشکل نہیں رہا ۔ وہ جب چاہتا ہے انہیں قتل کر سکتا تھا عاشق اف تک نہ کرتے لیکن کسی بھی زمانے کے محبوب نے اختیار کے باوجود کبھی اپنے چاہنے والوں کو جان سے نہیں مارا بلکہ ان کی وفاداری اور جانثاری کو تسلیم کیا اور ان کے جذبے کی قدر کی لیکن اے محبوب تو نے اپنے چاہنے والوں کو قتل کرنے اور جان سے مارنے کی روایت شروع کی ہے ۔ اس کے موجد محض آپ ہی ہیں ۔ آپ سے پہلے ایسا دستور اور ایسی روایت نہیں تھی ۔ محبوب اپنے چاہنے والوں اور عاشقوں کا امتحان ضرور لیتا تھا اور عاشق قربانیاں بھی دیتے تھے لیکن تمہاری طرح کسی محبوب نے اپنے چاہنے والے کی کبھی جان نہیں لی ۔ اسے قتل نہیں کیا ۔
بقول داغ دہلوی :
وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا کیا کہیے
شعر کا ایک پہلو یہ ہے کہ شاعر محبوب سے کہتا ہے کہ اے محبوب اگر تو مجھے قتل کرنا چاہے تو تیرے لیے یہ مشکل کام نہیں اور تجھے کوئی امر مانع بھی نہیں مگر یہ سوچ لو کہ اس رسم کے بانی تم ہی ہو گے کیونکہ تم سے پہلے کسی زمانے میں یہ رسم موجود نہیں ۔ دراصل شاعر محبوب کو اس کے ظلم و ستم والے رویے سے آگاہ کرنا چاہتا ہے کہ تمہارا ظلم و ستم اور بے رخی و بے وفائی کا رویہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ گویا تم نے میری جان ہی لے لو گے یا میرا قتل ہی کر ڈالو گے ۔
بقول احمد فراز :
تیرے چرچے ہیں جفا سے تیری
لوگ مر جائیں بلا سے تیری
شعر نمبر 2 :
رات مجلس میں تیرے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پر جو دیکھا ، تو کہیں نور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : مجلس (محفل ، بزم) ، حسن (خوبصورتی) ، شعلے( شرارے) ، حضور (سامنے ، موجودگی میں) ، نور( روشنی)
مفہوم : اے محبوب رات محفل میں تمہارے جلوہ حسن کے سامنے شمع کا نور بھی ماند پڑ گیا ۔
تشریح : شاعری کے روایتی انداز میں محبوب کے حسن و جمال کی تعریف میں بے حد مبالغہ آرائی کی جاتی ہے ۔ شاعر کو اپنا محبوب دنیا کی سب سے خوبصورت ہستی معلوم ہوتا ہے۔ حسن خوبی اور خوشنمائی میں بے مثال نظر آتا ہے ۔ جس طرح ہر عاشق کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے سب سے بڑا عاشق کہا جائے ۔ محبوب کو سب سے زیادہ چاہنے والا تصور کیا جائے اسی طرح ہر عاشق کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام دنیا پر اس کے محبوب کی برتری ثابت ہو ۔ اس کے محبوب کو دنیا کی سب سے خوبصورت ہستی مانا جائے ۔ اس لیے وہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کا موازنہ دنیا کی دیگر حسین اور خوبصورت چیزوں سے کرتا ہے تاکہ تمام دنیا پر محبوب کے حسن و جمال کی برتری قائم ہو ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے شعرا محبوب کے حسن و جمال کا موازنہ مظاہر فطرت اور دنیا کے دیگر خوبصورت اشیاء پھول ، چاند ، سورج اور شمع وغیرہ سے کرتے ہیں ۔ جیسا کہ داغ دہلوی کہتے ہیں :
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
حیدر علی آتش محبوب اور پھول کے حسن و جمال کا موازنہ یوں کرتے ہیں :
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے
اور ابن انشاء محبوب کے چہرے اور چاند کی خوبصورتی کا موازنہ یوں کرتے ہیں :
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرہ تیرا
تشریح طلب شعر میں میر درد بھی اپنے محبوب کے چہرے کی خوبصورتی اور حسن و جمال کا موازنہ شمع کے نور سے کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ کل شب محفل میں شمع روشن تھی اور ہر طرف اپنا نور اور روشنی بکھیر رہے رہی تھی ۔ شمع کے گرد پروانے طواف کر رہے تھے گویا شمع محفل کی رونق اور جان بنی ہوئی تھی کہ اچانک وہاں محبوب آ گیا محبوب کے چہرے کے نور اور حسن و جمال کے سامنے شمع کا نور ماند پڑ گیا۔ جیسے وہ محبوب کے حسن و جمال سے شکست کھا کر سبکی محسوس کر رہا ہو ۔ جس طرح چودھویں کے نیر تاباں کی موجودگی میں ستاروں کا نور مدھم پڑ جاتا ہے اور جس طرح آفتابِ عالم تاب کی موجودگی میں چاند کا حسن اور نور پھیکا پڑ جاتا ہے ۔ سورج کی روشنی سارے عالم پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ چاند آسمان پر ہوتے ہوئے نظر نہیں آتا ۔ بالکل اسی طرح محبوب کے چہرے کی آب و تاب کے سامنے شمع کا شعلہ ماند پڑ گیا اور محبوب کے چہرے کی ضیا سے تمام محفل بھر گئی ۔ حاضرینِ محفل کی توجہ شمع سے ہٹ کر محبوب کی جانب مبذول ہو گئی گویا محفل کی تمام تر رونقیں اور رعنائیاں سمٹ کر محبوب میں سما گئی ۔
بقول احمد فراز :
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ
لوگ کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
شعر نمبر 3 :
ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں جو پہنچا تو کہا ، خیر یہ مذکور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : صریحاً (صاف الفاظ میں ، واضح ، کھلم کھلا) ، مذکور (ذکر کیا گیا ، جس کا ذکر ہو رہا ہو )
مفہوم : محبوب سب کے سامنے میرا ذکر کر رہا تھا لیکن جب میں پہنچا تو مجھے دیکھ کر کہا تمہارا ذکر تو نہیں تھا۔
تشریح : کلاسیکی روایت میں شاعری میں عاشق کو ہمیشہ محبوب سے یہ شکوہ رہتا ہے کہ محبوب عاشق کی وفاؤں کی قدر نہیں کرتا ۔ عاشق کی جانب نگاہ التفات نہیں کرتا اس کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیتا بلکہ اسے تڑپاتا رہتا ہے۔ عاشق محبوب کے دل میں جگہ بنانے کے لیے ہزار جتن کرتا ہے ۔ وہ اس بات کے لیے تڑپتا رہتا ہے کہ کاش کبھی تو محبوب کے ہونٹوں پر میرا بھی نام آئے اور وہ اس امید پر جیتا ہے کہ محبوب کبھی تو میرا ذکر کرے گا ۔ بعض اوقات تو عاشق کی یہ تمنا اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ محبوب کے ہونٹوں پر میرا نام آئے چاہے برسرِ الزام ہی کیوں نہ آئے ۔
بقول ادا جعفری :
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے
عاشق کو جب معلوم ہوتا ہے کہ محبوب کے لبوں پر میرا ذکرِ خیر آیا ہے تو اس کے لیے وہ لمحات سب سے بڑھ کر حسین ہوتے ہیں کیونکہ محبوب کا عاشق کا تذکرہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ محبوب کے دل میں عاشق کے لیے کوئی نرم گوشہ موجود ہے ۔ محبوب اس کی قدر کرتا ہے عاشق کی قربانیاں رنگ لے آئیں ۔ بالاآخر محبوب کے دل میں اس کے لیے جگہ بن گئی ۔
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میری عدم موجودگی میں محبوب اپنے دوستوں کی محفل میں میرا ذکرِ خیر کر رہا تھا ۔ میری تعریف و توصیف کر رہا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ محبوب کو میری وفا اور بےلوث محبت کا نہ صرف ادراک ہے بلکہ وہ اس کا معترف بھی ہے لیکن جونہی میں اس محفل میں داخل ہوا محبوب نے مجھے دیکھ کر گفتگو کا موضوع بدل لیا اور کہا آپ کا تو ذکر نہیں ہو رہا تھا ۔ شاعر کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہے محبوب دوستوں سے محفل میں میرے متعلق بات کرتا ہے لیکن مجھے دیکھ کر اس کی فطری شرم و حیا مانع آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ میرے سامنے میرا نام لینے سے کتراتا ہے اور مجھے یہ تاثر دیتا ہے کہ تمہارا ذکر تو نہیں تھا ۔
بقول شاعر :
یوں ان کو اعتراف محبت نہیں مگر
آیا ہے پھر بھی لب پہ میرا نام دیکھیے
ایک اور شاعر وسیم بریلوی اسی مضمون کو یوں بیان کرتے ہیں :
آتے آتے میرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
شعر کا ایک پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ محبوب عاشق کے جذبوں کو ابھی مزید پرکھنا چاہتا ہے اس لیے وہ اس کے سامنے اس کا ذکر کا اعتراف نہیں کرتا ۔ دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ عاشق کے سامنے اس کا نام نہ لینا اور اس کا ذکر کا اعتراف نہ کرنا اس یہ بھی محبوب کی خاص ادا اور اس کا ناز ہے محبوب اپنے عشوہ ادا سے عاشق کو مزید تڑپانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ اس کی موجودگی میں اس کا ذکرِ خیر کر کے اسے خوش کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتا گویا محبوب کی خوشی عاشق کو تڑپانے میں ہے ۔
بقول سانول چغتائی :
خلوت میں چومتا ہے میرے نام کے حروف
محفل میں میری جانب کبھی دیکھتا نہیں
شعر نمبر 4 :
باوجود یکہ پر و بال نہ تھے آدم کے
واں پہ پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : باوجود یکہ ( اس کے باوجود کہ) ، پر و بال (بازو اور پنکھ جن سے پرندہ پرواز کرتا ہے) ، آدم ) آدمی ، انسان) ، واں (وہاں) ، مقدور (طاقت ، قدرت ، مقدر)
مفہوم : اگرچہ انسان کے بال و پر نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ وہاں تک پہنچا جہاں فرشتوں کی بھی رسائی نہیں ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر نے انسانی عظمت اور مرتبہ آدمیت کو بیان کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ انسان کے فرشتوں کی طرح بال و پر نہیں ہیں کہ جس سے وہ پرواز کر سکے لیکن پھر بھی انسان رسائی میں فرشتوں سے سبقت لے گیا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بنایا ہے ۔ یہ مقام و مرتبہ فرشتوں کو حاصل نہیں ۔ فرشتے صرف اللہ کے حکم کے پابند ہیں ان میں خواہش اور اختیار نہیں ۔ وہ ہمہ وقت اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے حکم سے روگردانی نہیں کر سکتے لیکن انسان میں ارادہ و اختیار بھی ہے اور خواہش بھی ۔ چنانچہ انسان اپنے ارادے و اختیار سے اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرتا ہے اور اللہ کے لیے اپنی خواہشات سے دستبردار ہو جاتا ہے ۔ نافرمانی کا مادہ نہ ہونے کے وجہ سے فرمانبرداری کرنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ نافرمانی کا مکمل اختیار ہونے کے باوجود فرمانبرداری اختیار کرنا بڑی بات ہے۔ اسی بنا پر انسان فرشتوں سے برتر مسجود ملائک ٹھہرا ۔
بقول شاعر :
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجود ملائک ہوں مجھے انسان رہنے دو
انسان انس سے ہے جس کا مطلب محبت و ہمدردی ہے یعنی انسان میں محبت و ہمدردی کا مادہ پایا جاتا ہے ۔ وہ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرتا ہے ۔ جب کہ فرشتوں میں یہ احساس و ہمدردی کا مادہ مفقود ہے ۔ جس کی وجہ سے انہیں دوسروں کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا ۔ جو اللہ کی مخلوق سے محبت ہمدردی کرتا ہے وہ اللہ کا زیادہ مقرب ہو جاتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے انسان کو یہ شرف حاصل ہے کہ اگرچہ وہ بال و پر نہیں رکھتا لیکن دوسروں کی مدد ، ہمدردی اور خدمت خلق کی وجہ سے اللہ کی بارگاہ میں وہاں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے جہاں تک فرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے ۔
بقول مولانا الطاف حسین حالی :
فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اس شعر میں واقعہ معراج کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے ۔ نبوت کے گیارھویں سال اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ساتوں آسمانوں کی سیر کرائی ۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی لایا گیا اور اس کے بعد آسمانوں پر مقام سدرہ سے بھی آگے عالم بالا کی سیر کرائی اور اللہ نے اپنی قدرت کی بے شمار نشانیاں دکھائیں۔ قران میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر یوں فرماتے ہیں جس کا ترجمہ ہے:
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں رات” مسجد حرام سے مسجد اقصی تک سیر کرائی جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے تاکہ اس کو اپنی نشانیاں دکھائیں ” ۔
سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 1
جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جبرائیل کی ہمراہی میں مقام سدرہ تک پہنچے تو جبرائیل نے آگے جانے سے معذرت کر لی اور کہا میری رسائی یہیں تک ہے اگر آگے ایک قدم بھی گیا تو میں جل جاؤں گا ۔ چنانچہ اس مقام سے آگے عالم بالا کی جانب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تن تنہا خود تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا ۔ شاعر نے اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان جس کے بال و پر بھی نہ تھے وہ وہاں تک پہنچا جہاں فرشتوں کی بھی رسائی نہیں ۔
بقول علامہ اقبال :
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہیں گردوں
شعر نمبر 5 :
پرورش غم کی تیرے یاں تئیں تو کی ، دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : پرورش (پالنا ، نشوونما کرنا ) ، یاں تئیں( یہاں تک) ، داغ ( زخم ) ، ناسور (وہ زخم جو ٹھیک نہ ہو ، پرانا زخم)
مفہوم : اے محبوب میں نے تمہارے غم کو سینے میں اتنا پالا کہ اب کوئی زخم ایسا نہیں جو ناسور نہ بن چکا ہو ۔
تشریح : عاشق کی زندگی دکھ اٹھانے اور رنج سہنے میں گزرتی ہے ۔ اس کے شب و روز محبوب کے لیے تکلیفیں برداشت کرنے اور قربانیاں دینے میں بسر ہو جاتے ہیں ۔ گویا یہ اس کے عشق کا امتحان ہوتا ہے ۔ عاشق اگر تکالیف پر آہ و فریاد کرے واویلا کرے اور شور مچائے تو وہ اپنے دعویٰ عشق میں جھوٹا سمجھا جاتا ہے ۔ محبوب کی خاطر ہر طرح کی تکالیف کو ہنس کر برداشت کرنا ایک سچے عاشق کی پہچان ہوتی ہے ۔ وہ ہر زخم پر خوشی محسوس کرتا ہے ۔ اس کی نگہداشت کرتا ہے اور اس کی پرورش کرتا ہے کیونکہ وہ اس کی وفاداری اور عشق کی صداقت کا گواہ ہوتا ہے ۔ اس لیے عاشق خواہش کرتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ زخم ملے تاکہ وہ میدان وفا میں سرخرو ہو سکے ۔ الغرض محبوب کے لیے تکالیف برداشت کرنا ایک سچے عاشق کا شیوہ ہے بقول شاعر :
وہ جن کا عشق صادق ہو وہ کب فریاد کرتے ہیں
لبوں پر مہر خاموشی دلوں میں یاد کرتے ہیں
تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب تمہاری جانب سے ملنے والے دکھ ، درد اور زخموں کو میں نے خوش دلی سے گلے لگایا ہے اور ان کی حفاظت کی ہے کیونکہ تمہاری جانب سے ملنے والی ہر چیز مجھے بہت عزیز ہے چاہے وہ دکھ ، درد اور غم ہی کیوں نہ ہوں ۔
بقول شاعر :
تیرا غم بھی مجھ کو عزیز ہے
کہ وہ تیری دی ہوئی چیز ہے
جب کسی چیز کی نگہداشت اور پرورش کی جاتی ہے تو نشوونما پانا شروع ہو جاتی ہے چنانچہ جب میں نے تمہارے دیے ہوئے زخموں کی نگہداشت پرورش کی تو وہ بھی بڑھ کر ناسور بن گئے ۔ ناسور ایسے زخموں کو کہا جاتا ہے جو بڑھ کر ناقابلِ علاج ہو جائیں اور کبھی ٹھیک نہ ہوں ۔ ہمیشہ تکلیف کا باعث بنے رہیں ۔ گویا یہ شاعر کے عشق کی انتہا اور میدان وفا میں صداقت کی علامت ہے کہ وہ محبوب سے گلا شکوہ کرنے کی بجائے فخر سے بتا رہا ہے کہ تمہارے دیے گئے زخموں کی میں نے خوب حفاظت کی ہے ۔
شعر میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محبوب پر شاعر کی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا ۔ وہ اس کے صبر اور تمام تر قربانیوں کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ اس نے ظلم و ستم سے ہاتھ روکا نہ اس کا دل نرم ہوا اور نہ اس نے شاعر کے زخموں کا کوئی مداوا کیا ۔ جس کی وجہ سے زخم بڑھ کر ناسور بن گئے ۔
بقول مصحفی :
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
شعر نمبر 6 :
محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی ، کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : محتسب (حساب لینے والا) ، مے خانے( شراب خانے ) ، چور ہونا (ٹکڑے ٹکڑے ہونا)
مفہوم : اے محتسب آج تو مے خانے میں تم نے لوگوں سے جو سلوک کیا اس نے دلوں کو شیشے کی طرح چکنا چور کر دیا۔
تشریح : کلاسیکی شاعری میں واعظ ، ناصح اور محتسب کو برا بھلا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ عاشق کو عشق کی راہ پر چلنے سے منع کرتا ہے ۔ بار بار اسے وعظ و نصیحت کرتا رہتا ہے لیکن عاشق پر اس کی کسی نصیحت اور کسی بات کا اثر نہیں ہوتا بلکہ عاشق اس کے واعظ و نصیحت سے دل برداشتہ ہو کر طعن و ملامت کرتا ہے اور برا بھلا کہنا شروع کر دیتا ہے ۔ چنانچہ تشریح طلب شعر میں بھی شاعر نے محتسب کو برا بھلا کہا ہے ۔
شاعر کہتا ہے کہ مے خانے میں شراب کی محفل جمی ہوئی تھی لوگ اپنا غم غلط کرنے کے لیے شراب پی رہے تھے کہ محتسب نے وہاں آ کر پہلے لوگوں کو منع کیا ۔ ڈانٹ ڈپٹ کی اور پھر شراب سے بھرے شیشہ و جام کو توڑ ڈالا ۔ شاعر کہتا ہے کہ محتسب نے اپنی دانست میں ایک نیک کام کیا کہ اس نے شراب کے جام توڑ دیے لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس نے اپنے رویے اور بد سلوکی سے کتنے لوگوں کے دلوں کو توڑ ڈالا ۔ اس کی بد سلوکی سے لوگوں کے دل شیشے کی طرح چکھنا چور ہو گئے ۔ محتسب کو معلوم نہیں کہ دلوں کا توڑنا بڑا گناہ ہے ۔
بقول بابا بلھے شاہ :
مسجد ڈھا دے ، مندر ڈھا دے ، ڈھا دے جے کجھ ڈھاندا
اک کسے دا دل نہ ڈھاوی ، رب دلاں وچ رہندا
میر درد ایک صوفی شاعر ہیں ان کی شاعری میں جا بجا تصوف کا رنگ جھلکتا ہے ۔ صوفیا کے نزدیک انسان کا دل خدا کا گھر ہوتا ہے ۔ کسی انسان کا دل دکھانا سب سے بڑا گناہ ہے ۔ صوفیا مذہب اور قوم و ملت سے بالاتر ہو کر انسانیت کا درس دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ہر انسان نیک و بد قابل احترام ہے ۔ نفرت گناہ سے کی جائے گنہگار سے نہیں۔ چنانچہ کسی گنہگار کو اس کے گناہوں کا طعنہ دینا اس کی عزت نفس کو مجروح کرنا نیکی کی بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے ۔ ایک مبلغ اور مصلح کو چاہیے کہ محبت اور شفقت سے گنہگاروں کو سیدھے راستے کی جانب بلائے ۔
بقول جوش ملیح آبادی :
اے دوست دل میں گرد کدورت نہ چاہیے
اچھے تو کیا بروں سے بھی نفرت نہ چاہیے
چنانچہ تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ مے نوشی( شراب پینا) گناہ ہے اور محتسب کے پاس اسے روکنے اور اس پر سزا دینے کا اختیار بھی ہے لیکن محتسب کو ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ جس سے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہو اور ان کے دل ٹوٹ جائیں ۔ کسی کا دل دکھانا اور دل توڑنا بھی ایک بڑا گناہ ہے ۔ یہ انسانی نفسیات ہے کہ کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ اس پر تنقید کی جائے یا کوئی اس پر حکم چلایا جائے ۔ ہاں اگر اس کے کسی اچھے کام کی توصیف کے بعد اس کی کسی خامی کی نشان دہی بھی کر دی جائے اور حکیمانہ انداز کی بجائے مشورتا اسے اصلاح پر آمادہ کیا جائے تو وہ بخوشی اسے قبول کر لیتا ہے ۔ تنقید کتنی ہی درست کیوں نہ ہو وہ اصلاح کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوتی ۔ غلط سے غلط انسان کے لیے بھی اصلاح کا واحد راستہ عزت اور محبت ہے ۔
بقول احمد ندیم قاسمی :
حکم ہے سچ بھی قرینے سے کہا جائے ندیم
زخم کو زخم نہیں ، پھول بتایا جائے
شعر نمبر 7 :
درد کے ملنے سے اسے یار ! برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
مشکل الفاظ کے معانی : یار (دوست) ، دید (دیکھنا) ، دیدار کرنا) ، منظور ( قبول)
مفہوم : اے محبوب تم نے ہمارے ملنے سے برا کیوں مانا ۔ ہم تو تمہیں صرف ایک نظر دیکھنا چاہتے تھے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ہم تو آپ سے ملنے آئے تھے ۔ اس میں برا ماننے والی کون سی بات تھی ۔ ہم تو آپ کے دیدار کے متلاشی ہیں ۔ اس ملاقات کا مقصد بھی محض آپ کو ایک نظر دیکھنے کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔ اس شعر میں بھی شاعر نے روایتی مضمون باندھا ہے ۔ محبوب عموماً اپنے ناز اور غرور کی وجہ سے عاشق سے ملنے سے کتراتا ہے ۔ عاشق جب بھی اس سے ملنے کی خواہش کرتا ہے تو محبوب ہمیشہ انکار کر دیتا ہے ۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ عاشق ہمیشہ اس کے لیے تڑپتا رہے ۔ چنانچہ عاشق محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مارا مارا پھرتا ہے اور اس کے کوچے کے چکر کاٹتا رہتا ہے ۔ اگر عاشق کبھی موقع پا کر محبوب کے سامنے آ جائے اور اس کے دیدار کا شرف حاصل کر لے تو محبوب پر خفگی اور ناراضی کا اظہار کرتا ہے ۔
تشریح طلب شعر میں بھی شاعر محبوب سے ملنے اور اس کا دیدار کرنے کا تمنائی ہے ۔ جب وہ محبوب سے ملاقات کے لیے اس کے سامنے جاتا ہے تو محبوب ناراضی کا اظہار کرتا ہے ۔ جس پر شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب اس میں ناراض ہونے اور برا ماننے والی کون سی بات تھی ۔ میں تو صرف آپ کا دیدار کرنا چاہتا تھا ۔ اس کے علاوہ میرا کوئی مقصد نہ تھا ۔(دیوان درد : مرتبہ ظل الرحمن داؤدی )
نوٹ : امید ہے کہ آپ خواجہ میر درد کی غزل ” قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.