قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت نہم کی پہلی نظم حمد ” قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا ” جس کے شاعر الطاف حسین حالی ہیں ۔ اس کی تشریح اور مشکل الفاظ کے معانی پر گفتگو کریں گے ۔
شعر نمبر 1 :
قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا
ایک بندہ نافرماں ہے حمد سرا تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : قبضہ( قابو ،اختیار) ، نافرمان( حکم نہ ماننے والا) ، سوا( علاوہ) ، حمد سرا (حمد کہنے والا) ، بندہ (انسان، آدمی ) ، حمد (اللہ کی تعریف)
مفہوم : دلوں پر اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کے علاوہ کسی کی حکمرانی ممکن نہیں کہ ایک نافرمان بندہ بھی اس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں حقائق اور عقلیت کے شواہد ملتے ہیں ۔ اس شعر میں مولانا الطاف حسین حالی کہتے ہیں کہ اے میرے اللہ تو ہی ہم سب کا خالق و مالک ہے۔ تو ہی تعریف اور حمد و ثنا کے لائق ہے۔ تو ہمارے دلوں میں بستا ہے۔ ہمارا سب کچھ تیرے ہی اختیار میں ہے ہمارے دلوں پر اس سے بڑھ کر اور کیا تیرا قبضہ ہوگا کہ ایک باغی و سرکش انسان بھی تیری حمد و ثنا کیے بغیر نہیں رہ سکتا بے۔ شک تو ہر چیز پر قدرت اور اختیار رکھتا ہے۔
بقول شاعر :
افق کے پار بھی تو اور اس طرف بھی تو
نظام گردشِ لیل و نہار تیرے مطیع
اس شعر میں شاعر نے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ میں ایک گنہگار انسان ہوں پھر بھی خدا نے مجھے حمد و ثنا کرنے کی توفیق عطا کی ہے۔
بقول حسن رضا :
افلاک و ارض سب تیرے فرمان پذیر ہیں
حاکم ہے تو جہاں کے نشیب و فراز کا
شعر نمبر 2 :
گو سب سے مقدم ہے حق تیرا ادا کرنا
بندے سے مگر ہوگا حق کیسے ادا تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : گو (اگرچہ ) ، مقدم ہونا (پہلے ہونا) ، کیسے( کس طرح )
مفہوم : اگرچہ سب سے مقدم تیرا حق ادا کرنا ہے مگر اے اللہ ایک بندے سے تیرا حق کیسے ادا ہوگا؟
تشریح : الطاف حسین حالی کے اشعار دلکش ، سادہ اور مدلل ہیں ۔ ان کی اخلاقی و اصلاحی شاعری نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگرچہ تیرا حق ادا کرنا اولین فریضہ ہے لیکن انسان تیرا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ اے اللہ ! اے رب العالمین بے شک ہمارا اولین فرض ہے کہ ہم عبادت اور شکر کر کے تیرا حق ادا کریں لیکن یہ ہمارے لیے ناممکن ہے ۔ کیونکہ تیری نوازشیں ، عنایات اور مہربانیاں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم تیرا حق ادا نہیں کر سکتے ۔ ہم بندے عاجز و مجبور ہیں ۔ رات دن بھی عبادت اور شکر گزاری میں لگے رہیں ۔ تب بھی تیرا حق ادا نہیں کر سکتے۔
غالب نے اس بات کو کچھ یوں بیان کیا ہے :
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
ایک اور شاعر اللہ تعالیٰ کے حق کی بات اس طرح کرتے ہیں :
جو ملی حیات خضر تو صرف ثنا کروں
پھر بھی نہ حق ادا ہو تو حق کیسے ادا کروں
شعر نمبر 3 :
محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نامحرم
کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : محرم (واقف ، راز دار ، جاننے والا) ، نامحرم( نا واقف، انجان) ، بھید (راز)
مفہوم : محرم بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ نامحرم ہے یہاں جس پر تیرا بھید کھلا وہ بھی کچھ نہ جان سکا ۔
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی کا شمار اردو ادب کے اہم شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے اشعار حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مذکورہ شعر میں وہ اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر ذات کے ادراک کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری ذات کے بارے میں جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں کیونکہ تیری ذات کے راز آج تک کوئی نہ بتا سکا۔ اے اللہ یہاں محرم و نامحرم اور واقف و ناواقف میں کوئی فرق نہیں رہا کیونکہ جس پر تیری حقیقت کا راز کھلا ہے وہ بھی تیری حکمتوں سے نا آشنا ہے۔ اس کا اتنا علم نہیں جتنا کہ تو جانتا ہے۔ اس لیے محرم و نامحرم دونوں برابر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہمارا علم بہت محدود اور ناقص ہے ۔
بقول امیر مینائی :
محرم راز تو بہت ہیں امیر
جس کو کہتے ہیں رازداں تو ہے
ایک اور شاعر اللہ تعالیٰ کی معرفت کو اس طرح سمجھاتے ہیں :
کس طرح سمائے قطرے میں ایک دریا
محدود عقل سمجھے کیسے مقام تیرا
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان حاصل کر لیتے ہیں ۔ وہ بھی کچھ کہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ لوگ عقل سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ عقل محدود ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات لامحدود لہٰذا محدود میں لا محدود کیسے سما سکتا ہے ۔ اس لیے عرفان الہٰی سے واقف لوگ بھی خاموش رہنا پسند کرتے ہیں۔
شعر نمبر 4 :
جچتا نہیں نظروں میں یاں خلعتِ سلطانی
کملی میں مگن اپنی رہتا ہے گدا تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : جچنا (سجنا ) ، گدا (فقیر) ، خلعتِ سلطانی( شاہانہ پوشاک) ، کملی میں مگن ہونا( چادر ، کسی کی پرواہ نہ ہونا ) ، مگن (مصروف) ، نظر( نگاہ ، دید)
مفہوم : یہاں خلعتِ سلطانی نظروں میں نہیں جچتا۔ تیرا گدا اپنی کملی میں مگن رہتا ہے۔
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی کی اخلاقی ، اصلاحی اور ملی شاعری نے اردو ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ مذکورہ شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ تیری خوشنودی کے طلبگار بندے کی نظروں میں شاہانہ پوشاک کی کوئی وقت نہیں۔ کیونکہ جو انسان تجھ سے لو لگا لیتا ہے اسے دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں رہتی۔ وہ گدا تو کملی میں مست رہ کر ہی خوشی محسوس کرتا ہے ۔وہ بھوکا تو رہ سکتا ہے لیکن کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پھٹے پرانے کپڑوں میں رہنا پسند کرتا ہے لیکن امیروں سے بھیک مانگ کر اعلیٰ قسم کے کپڑے نہیں پہنتا۔ وہ اپنے آپ ہی میں مگن رہتا ہے اور نمود و نمائش کی پرواہ نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کا فقیر ہونے میں فخر محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ دنیاوی لذتوں پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دیتا ہے۔
بقول شاعر :
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالمِ ناپائیدار میں
ایک اور شاعر اللہ تعالیٰ کی یاد کا تذکرہ اس طرح فرماتے ہیں :
دولت سے نہ دنیا سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے
شعر نمبر 5 :
تو ہی نظر آتا ہے ہر شے پہ محیط ان کو
جو رنج و مصیبت میں کرتے ہیں گلہ تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : نظر آنا (دکھائی دینا) ، رنج و مصیبت( دکھ اور تکلیف ) ، شے (چیز) ، گلہ( شکایت ) ، پہ( پر) ، محیط( احاطہ کرنے والا)
مفہوم : تو ہی ان کو ہر شے پہ محیط نظر آتا ہے جو رنج و مصیبت میں تیرا گلہ کرتے ہیں۔
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ ان کی اخلاقی ، اصلاحی اور ملی شاعری نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ مذکورہ شعر حمد کا شعر ہے کہ الطاف حسین حالی کہتے ہیں تمام کائنات کا نظام اللہ تعالیٰ کا مرہون منت ہے۔ اس کی قدرت کے آثار ہر طرف دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ شاعر کہتا ہے کہ اے خالق و مالک جہاں تو ہی ۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ لوگ جو تکلیف اور مصیبتوں میں تیرا گلہ کرتے ہیں اور ہر وقت زبان پر شکوہ و شکایت لائے رکھتے ہیں تو انھیں بھی ہر چیز میں دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بھی تیری تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ قران پاک میں ارشاد ہے :
ان اللہ علی کل شی قدیر
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
بقول شاعر :
تو بے حساب بخش کے ہیں بے حساب جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہ حجاز کا
ایک شاعر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کو یوں بیان کرتے ہیں :
ہم ہیں خطا کے پیکر بخشش ہے تیرا کام
لغزش کہ ہم ہیں خوگر تو ہے عطا کا مصدر
اللہ تعالیٰ کی ذات واحد ذات ہے ہر دکھ کا جو مداوا کر سکتی ہے۔ اس لیے مصیبت میں صرف اسی کی طرف انسان کو رجوع کرنا چاہیے
شعر نمبر 6 :
آفاق میں پھیلے گی کب تک نہ مہک تیری
گھر گھر لیے پھرتی ہے پیغام صبا تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : آفاق (افق کی جمع آسمان کے کنارے ، دنیا ) ، مہک (خوشبو) ، صبا( صبح کی ہوا) ، پھرتی ہے( گھومتی ہے) ، گھر گھر( ہر جگہ) ، پیغام (پیام) ، نہ (نہیں)
مفہوم : تیری مہک کب تک نہ آفاق میں پھیلے گی کیونکہ صبا تو تیرا پیغام گھر گھر لیے پھرتی ہے ۔
تشریح : تشریح طلب شعر میں مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کہ اے میرے پروردگار یہ کیسے ممکن ہے کہ تیری وحدانیت اور موجودگی کا دنیا میں اظہار نہ ہو کیونکہ یہ فریضہ تو صبح کی ہوا گھر گھر جا کر سر انجام دے رہی ہے یعنی دنیا بھر میں تیرے چاہنے والے ہوا کی طرح تیرا پیغام لوگوں تک پہنچا رہے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامت جاری رہے گا ۔ تیرا ذکر گھر گھر ، گلی گلی اور گاؤں گاؤں ہر جگہ اور ہر وقت ہو رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب ہر انسان اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے گا ۔
بقول امیر مینائی :
رنگ تیرا چمن میں ، بو تیری
خوب دیکھا تو باغبان تو ہے
اللہ تعالیٰ اگرچہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے مگر دنیا کے مظاہر میں اس کی ذات نمایاں ہو جاتی ہے۔ بقول شاعر :
بہاروں میں تو ریگزاروں میں تو
صبح کے ہے رنگین نظاروں میں تو
شعر نمبر 7 :
ہر بول تیرا دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے
کچھ رنگ بیاں حالی ہے سب سے جدا تیرا
مشکل الفاظ کے معانی : بول (بات ، کال) ، دل سے ٹکرانا( دل پہ اثر کرنا) ، ترا( تیرا) ، رنگ بیاں (اظہار کا انداز ) ، جدا ( الگ ، انوکھا) ، کچھ( تھوڑا ، کسی قدر )
مفہوم : تیرا ہر بول دل سے ٹکرا کے گزرتا ہے۔ حالی تیرا رنگ بیاں سب سے الگ ہے ۔
تشریح : حالی کے شعروں کی تاثیر لوگوں کے دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس شعر میں شاعر انداز تعلی سے کام لے کر اپنی ادبی خوبیاں بیان کر رہے ہیں۔ شاعر مولانا الطاف حسین حالی نے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ اے حالی تیرا اظہار کا انداز بڑا شاندار اور دل نشین ہے ۔ چونکہ ہر بات اور دعا تیرے دل سے نکلتی ہے اس لیے اثر رکھتی ہے۔ تیرا انداز بیان سب سے الگ اور انوکھا ہے۔ اسی خوبی کی وجہ سے تیری ہر بات دلوں پر اثر کرتی ہے ۔ تیرے اس انداز نے تجھے دوسروں سے انفرادیت بخشی ہے ۔ تیرے الفاظ اپنے اندر بہت تاثیر رکھتے ہیں۔
بقول شاعر :
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
نوٹ : امید ہے کہ آپ جماعت نہم کی پہلی حمد ” قبضہ ہو دلوں پر کیا اور اس سے سوا تیرا ” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.