قافیہ سے کیا مراد ہے ؟ مثالوں کے ساتھ وضاحت کریں ۔
(شامی وائس پر آپ کو خوش آمدید)
قافیہ: قافیےکا لفظ قفو سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے پیروی کرنے والا یا پیچھے آنے والا ۔ اصطلاحی لحاظ سے کسی غزل یا قصیدے کا وہ لفظ یا الفاظ جو کسی غزل یا قصیدے کے پہلے شعر یعنی مطلع کے دونوں مصرعوں میں اور بقیہ تمام غزل یا قصیدہ کے تمام اشعار کے دوسرے مصرعے میں ہم آواز ہوں اسے قافیہ کہتے ہیں۔
: وضاحت
ترنم اور تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے قافیے کا استعمال ضروری ہے ۔
قافیہ ردیف سے پہلے آتا ہے۔
قافیہ کی جمع قوافی ہے ۔
غزل کے لیے قافیے کا ہونا ضروری ہے ۔
مثلاً
مرزا غالب کی ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر ترا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
غالب کی اس غزل میں ہوا ، دوا ،ماجرا ،مدعا ،خدا ،وفا ،صدا اور دعا ہم آواز الفاظ ہیں لہذا یہ غزل کےقوافی( قافیہ کی جمع) ہیں ۔
نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹ میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹ کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔ شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.