فیض احمد فیض کی انقلابی شاعری پر نوٹ لکھیں ۔ آج ہم اس پوسٹ میں اردو زبان و ادب کے مشہور شاعر فیض احمد فیض کی اردو زبان و ادب کے میدان میں خدمات اور ان کا علمی و ادبی اور فکری رحجان پر تفصیل سے بحث کریں گے ۔ امید ہے آپ کو اس پوسٹ سے سیکھنے کا موقع ملے گا ۔ ان شاءاللہ
فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے
اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے
ابتدائی تعارف: پنجاب کی سر زمین علم و ادب کے حوالے سے اپنا ایک الگ مقام و مرتبہ رکھتی ہے ۔ سیکڑوں علمی و ادبی شخصیات اس کی گود میں پل کر اس عارضی دنیا میں آئیں اور اپنا کردار ادا کر کے پھر اسی کی گود میں سو رہیں ۔ انھیں عظیم شخصیات میں سے فیض احمد فیض ایک اعلیٰ و ارفع نام ہے ۔ پنجاب کے تاریخی شہر سیالکوٹ نے دو بڑے نام پیدا کیے ۔ ایک علامہ اقبال اور دوسرا فیض احمد فیض۔ فیض احمد فیض جدید اردو شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ یہ ترقی پسند اور انقلابی فکر کے حامل شاعر تھے ان کی شاعری میں رومانیت اور وطن سے محبت کا اظہار ملتا ہے ۔
فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء کو پاکستان کے تاریخی شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ فیض احمد فیض نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی ۔ مسلمان گھرانوں میں رائج دستور کے مطابق قرآن کریم کے حفظ کرنے سے زندگی کی ابتدا ہوئی۔ چار سال کی عمر میں ابتدا فیض نے دعاؤں کے الفاظ ماں سے سن کر دہرانا سیکھا اور پھر ایک سال بعد والد اُن کو ابتدائی اسکول لے گئے۔ اس مکتب کے سربراہ سیالکوٹ کے معروف و مذہبی کارکن مولوی ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔ کئی دوسرے قرآنی مکتب کے بر خلاف مولوی ابراہیم سیالکوٹی کے مکتب میں بچے نہ صرف آیاتِ قرآنی پڑھتے تھے بلکہ فارسی زبان اور عربی زبان بھی پڑھتے تھے۔ فیض اس مدرسے میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبان بھی سیکھ رہے تھے ۔ بچپن میں فیض بہت شرمیلے تھے ۔ باہر بچوں کے کھیلنا کم کم ہی میسر آتا تھا اگرچہ گھر میں خواتین کا ہجوم رہتا تھا ۔ بچپن کی زندگی کے بارے میں خود فیض نے کہا ہے:
” بچپن کا میں سوچتا ہوں تو ایک بات خاص طور سے یاد آتی ہے کہ ہمارے گھر میں خواتین کا ہجوم تھا۔ ہم جو تین بھائی تھے، اُن میں ہمارے چھوٹے بھائی (عنایت) اور بڑے بھائی (طفیل) خواتین سے باغی ہوکر کھیل کُود میں مصروف رہتے تھے۔ ہم اکیلے اِن خواتین کے ہاتھ آ گئے۔ اُس کا کچھ نقصان بھی ہوا اور کچھ فائدہ بھی۔ فائدہ تو یہ ہوا کہ اِن خواتین نے ہم کو اِنتہائی شریفانہ زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا جس کی وجہ سے کوئی غیر مہذب یا اُجڈ قسم کی بات اُس زمانے میں ہمارے منہ سے نہیں نکلتی تھی اور اب بھی نہیں نکلتی۔ نقصان یہ ہوا جس کا مجھے اکثر افسوس ہوتا ہے کہ بچپن میں کھلنڈرے پن یا ایک طرح کی لہو و لعب کی زندگی گذارنے سے ہم محروم ہو گئے ۔ ” ثانوی اور اعلٰی ثانوی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی اور پھر لاہور آ گئے اور ان کے والد سلطان محمد خان نے اقبال کو کہا کہ میرے بیٹے کو گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ دلوا دیں کیونکہ اس کالج کے پرنسپل علامہ اقبال کے دوست تھے ۔ یہاں فیض احمد فیض کو پطرس بخاری اور صوفی تبسم جیسی شخصیات سے حصول علم کا موقع ملا ۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ۔ اے کیا اور بی ۔ اے کرنے کے بعد عربی میں بی ۔ اے آنرز کیا اور پھر انگریزی اور عربی میں ایم ۔ اے کیا ۔
عملی زندگی : فیض احمد فیض ابھی گورنمنٹ کالج لاہور میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ اُن کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ والد کی وفات کی وجہ سے تمام گھر کو مالی مشکلات نے گھیر لیا۔ گھر میں جو کچھ باقی بچا تھا، وہ قرض داروں کی نذر ہو گیا۔ مگر فیض نے اپنے تعلیمی سلسلے کو کسی بھی طرح منقطع نہیں ہونے دیا۔ اُن کے لیے یہ مالی اعتبار سے بڑے مشکل دن تھے ۔
فیض احمد فیض 1935ء میں امرتسر کے ایم ۔ اے ۔ او کالج میں بطور لیکچرار بھرتی ہو گئے اور 1940ء تک تقریباً پانچ سال تک یہاں رہے۔امرتسر میں قیام کے ہی دورا ن ہی فیض نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دی ۔ امرتسر میں پانچ سال ملازمت کے بعد 1940ء میں فیض لاہور آگئے۔ ہیلی کالج آف کامرس، لاہور میں انگریزی کے لیکچرار مقرر ہوئے اور کم و بیش دو سال تک اِس کالج میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
فوجی ملازمت :1942ء میں فیض نے فوج میں ملازمت اختیار کی اور فوج میں بطور کیپٹن بھرتی ہوئے ۔ دوسری جنگ عظیم سے دور رہنے کے لیے آپ نے اپنے لیے تعلقات عامہ کا محکمہ چنا ۔ آپ فوج میں جنرل اکبر خان کے زیر سایہ کام کرتے تھے ۔ 1943ء میں فیض میجر اور پھر 1944ء میں لیفٹیننٹ کرنل مقرر ہوئے اور 1947ء میں پہلی کشمیر جنگ کے بعد آپ فوج سے مستعفی ہو کر لاہور آ گئے ۔
فیض کی عملی زندگی بڑی متنوع اور ہنگامہ خیز تھی ۔ کچھ عرصہ فوج میں بھی ملازمت کی ۔ راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے اور سب کو یقین تھا کہ انہیں پھانسی کی سزا ہو جائے گی لیکن انہیں ڈھائی سال کی قید کی سزا ملی ۔
علمی و ادبی خدمات :
فیض احمد فیض کا پہلا مجموعہ کلام ” نقش فریادی” کے نام سے 1911ء میں شائع ہوا ۔ اپنی شاعری اور انسان دوست خیالات کی وجہ سے انہیں لینن امن ایوارڈ بھی ملا ۔
امرتسر میں فیض کی ملاقات ترقی پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر سے ہوئی وہ ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے ہیں۔ ۔ سجاد ظہیر انجمن ترقی پسند مصنفین کے ابتدائی کاموں میں مصروف تھے۔ اِس سلسلے میں ہم خیال ادیبوں اور شاعروں سے رابطے کے لیے ہندوستان بھر کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور امرتسر کا سفر بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ امرتسر میں فیض کا رابطہ صاحب زادہ محمود الظفر اور اُن کی بیگم ڈاکٹر رشید جہاں سے ہوا اور اِن دونوں کی مدد سے فیض احمد فیض کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی تھی ۔ ملاقاتوں سے فیض نے مارکسزم کے نظریات میں دلچسپی لینا شروع کی اور مارکسزم کی جانب فیض کا دھیان صاحب زادہ محمود الظفر نے کروایا تھا جس کا تذکرہ خود فیض نے اپنی کتاب ” مہ و سال آشنائی ” میں بھی کیا ۔ سجاد ظہیر سے ملاقات کے بعد فیض نے لاہور میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی شاخ قائم کروانے کا بیڑا اپنے سَر لیا۔ امرتسر سے جنوری 1936ء کی ایک صبح چار اَفراد یعنی سجاد ظہیر، رشید جہاں، محمود الظفر اور فیض پر مشتمل ایک قافلہ لاہور کی طرف روانہ ہوا اور شام ڈھلنے سے قبل لاہور پہنچ گیا۔ سجاد ظہیر نے اپنی آپ بیتی میں اِس کا ذکر بھی کیا ہے ۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا میں فیض احمد فیض کا مقام بہت بلند اور منفرد ہے ۔ فیض کو پیکر تراشی میں ایک خاص ملکہ تھا ۔ لفظی تصویر کشی میں مہارت رکھتے تھے ۔ وہ سراسر جمالیات کے شاعر ہیں ۔ انہوں نے نغمگی ، امیجری ، استعارہ اور تشبیہ جیسے فنی لوازمات کو بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا ۔ فیض اردو شاعری کی روایت سے بخوبی آگاہ تھے اور فارسی انگریزی شاعری سے بھی واقف تھے ۔ ان کی شاعری کا آغاز رومان اور وجدان سے ہوتا ہے لیکن زندگی کے سخت اور کڑے حقائق جلد ہی ان کی شاعری کی مستقل راہ ہموار کر دیتے ہیں ۔
ذاتی دکھ کے علاوہ عالم انسانیت کے رنج و الم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور یوں ان کی شاعری محبت اور حقیقت کا حسین امتزاج بن جاتی ہے ۔
وفات : سگرٹ نوشی کی وجہ سے فیض دمہ کے مرض میں مبتلاء تھے جسکی وجہ سے وہ دن بہ دن بہت لاغر ہوتے جا رہے تھے ۔1984 ء کے موسم گرما میں یورپ سے واپسی پر کچھ دِنوں بعد فیض کی طبیعت خراب ہوئی مگر وہ لاہور میں مسلسل اپنا علاج کرواتے رہے ۔ آخری دِنوں میں سگریٹ نوشی بھی چھوڑ دی تھی لیکن سانس کے اِس عارضہ نے انھیں اِس بار اس طرح ہسپتال پہنچایا کہ وہ شفایاب نہ ہو سکے ۔18 نومبر کی شب فیض کو میو ہسپتال لاہور میں داخل کروایا گیا اور اُن کو بچانے کی پوری کوشش کی گئی۔ لیکن تمام کوششیں ناکام ہوگئیں اور 20 نومبر 1984ء کی دوپہر 01:15 پر لاہور کے میو ہسپتال کے ایسٹ میڈیکل وارڈ میں غالب اور اقبال کے بعد بڑا شاعر اس دارفانی سے کوچ کر گیا ۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
مجموعہ ہائے کلام :
شاعری کی کتابیں : نقش فریادی، دست صبا ، زندان نامہ ، دست تہ سنگ ، سر وادی سینا ، شام شہر یاراں ، میرے دل میرے مسافر اور غبارِ
نثری تصانیف :
میزان ، صلیبیں میرے دریچے میں ، متاعِ لوح و قلم ، مہ و سال آشنائی اور قرض دوستاں وغیرہ ۔
نوٹ : عزیز طلباء ہم نے کوشش کی ہے کہ فیض احمد فیض کی زندگی کے نہاں پہلوؤں سے آپ لوگوں کو متعارف کرایا جائے اور امید کرتا ہوں کہ آپ فیض احمد فیض کی زندگی کے اہم واقعات سے واقف ہو چکے ہوں گے ۔اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.