فقیرانہ آئے صدا کر چلے گیارھویں جماعت غزل

فقیرانہ آئے صدا کر چلے گیارھویں جماعت غزل خیبر پختونخوا بورڈ

آج کی اس غزل ” فقیرانہ آئے صدا کر چلے” کی تشریح کریں گے ۔ یہ غزل فیڈرل بورڈ اور خیبرپختونخوا بورڈ میں شامل ہے ۔ اس غزل کے شاعر میر تقی میر ہیں ۔

شعر نمبر 1 :

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانیفقیرانہ (فقیروں کی طرح) ،  صدا کرنا ( آواز لگانا ،  آواز دینا) ،  دعا کر چلے( دعا کر کے رخصت ہوئے)

مفہوم : ہم فقیروں کی مانند دنیا میں آئے اور صدا لگا کر اہل دنیا کو خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں میر تقی میر کہتے ہیں کہ ہم فقیروں کی طرح دنیا میں آئے اور صدا لگائی ۔ اگر کسی نے جھولی میں کچھ ڈال دیا یا دھتکار دیا دونوں صورتوں میں ہم اہلِ دنیا کو خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔ فقیر کا کام دعا دینا ہی ہوتا ہے ۔ چاہے اسے خیرات ملے یا نہ ملے وہ بددعا نہیں کرتا ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں کسی نے ہماری حاجت پوری کی یا نہیں کی ،  کسی نے اچھا سلوک کیا یا برا سلوک کیا ہم نے فقیروں کی سی بے نیازی اختیار کی ۔ ہم نے کسی کا برا نہیں چاہا بلکہ ہر حال میں ہمارے منہ سے اہل دنیا کے لیے دعا کے الفاظ ہی نکلے ۔

بقول مرزا غالب :

ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہوگا

اور درویش کی صدا کیا ہے

فقیر ایک صوفیانہ اصطلاح ہے ۔ فقر اختیار کرنے والے کو فقیر کہا جاتا ہے ۔ صوفیا کے نزدیک فقر کے تین الفاظ ف،  ک اور ر  الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں ۔ ف سے مراد فاقہ ک  سے مراد قناعت اور ر سے مراد رضائے الٰہی ہے ۔ فاقہ سے صبر پیدا ہوتا ہے ۔ قناعت سے بے نیازی اور رضائے الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ گویا فقیر وہ شخص ہوتا ہے جو فاقہ و مستی میں بھی صبر سے کام لے ۔ دنیا سے بے رغبت ہو ۔ دنیاوی آرام و آسائش سے بے نیاز اور ہر حال میں راضی برضا رہتا ہو ۔ اللہ کی یاد میں گم ہو وہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان کا پیکر ہوتا ہے  ۔

” دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی پردیسی یا راہ چلتا مسافر ہو ” ۔

(الحدیث )

چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے دنیا میں فقیروں کی مانند زندگی گزاری ۔ محتاجی اور فاقہ مستی میں ہوتے ہوئے بھی صبر سے کام لیا ۔ دنیاوی عیش و آرام سے بے نیازی برتی ۔ دنیاوی جاہ و ثروت ، عہدہ و سلطنت اور مقام و مرتبہ کی حرص دل میں نہیں پالی ۔ ہم نے ہر حال میں لوگوں کو دعائیں دیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو سکے ۔

بقول اکبر الہٰ آبادی :

دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

غزل کے روایتی انداز میں اگر دیکھا جائے تو شعر کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم فقیروں کی طرح تمہارے دروازے پر محبت کی بھیک لینے آئے ۔ فقیروں کی مانند صدا لگاتے رہے کہ شاید محبوب کی محبت حاصل ہو جائے ۔ محبوب اپنے دیدار سے نواز دے ۔ اگر محبوب ہماری صدا سن لیتا اور ہمارے دامن میں محبت کی خیرات ڈال دیتا تو ہماری خوش قسمتی ہے ۔ لیکن اگر وہ صرف نظر کرتا ہے تو بھی ہم اسے خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہو جائیں گے ۔ کیونکہ فقیر کا کام صدا لگانا اور دعا دینا ہے چاہے اسے خیرات ملے یا نہ ملے ۔

 : بقول میر تقی میر

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

شعر نمبر 2 :


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply