فقیرانہ آئے صدا کر چلے گیارھویں جماعت غزل

فقیرانہ آئے صدا کر چلے گیارھویں جماعت غزل خیبر پختونخوا بورڈ

آج کی اس غزل ” فقیرانہ آئے صدا کر چلے” کی تشریح کریں گے ۔ یہ غزل فیڈرل بورڈ اور خیبرپختونخوا بورڈ میں شامل ہے ۔ اس غزل کے شاعر میر تقی میر ہیں ۔

شعر نمبر 1 :

فقیرانہ آئے صدا کر چلے

میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانیفقیرانہ (فقیروں کی طرح) ،  صدا کرنا ( آواز لگانا ،  آواز دینا) ،  دعا کر چلے( دعا کر کے رخصت ہوئے)

مفہوم : ہم فقیروں کی مانند دنیا میں آئے اور صدا لگا کر اہل دنیا کو خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں میر تقی میر کہتے ہیں کہ ہم فقیروں کی طرح دنیا میں آئے اور صدا لگائی ۔ اگر کسی نے جھولی میں کچھ ڈال دیا یا دھتکار دیا دونوں صورتوں میں ہم اہلِ دنیا کو خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہو گئے ۔ فقیر کا کام دعا دینا ہی ہوتا ہے ۔ چاہے اسے خیرات ملے یا نہ ملے وہ بددعا نہیں کرتا ۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ دنیا میں کسی نے ہماری حاجت پوری کی یا نہیں کی ،  کسی نے اچھا سلوک کیا یا برا سلوک کیا ہم نے فقیروں کی سی بے نیازی اختیار کی ۔ ہم نے کسی کا برا نہیں چاہا بلکہ ہر حال میں ہمارے منہ سے اہل دنیا کے لیے دعا کے الفاظ ہی نکلے ۔

بقول مرزا غالب :

ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہوگا

اور درویش کی صدا کیا ہے

فقیر ایک صوفیانہ اصطلاح ہے ۔ فقر اختیار کرنے والے کو فقیر کہا جاتا ہے ۔ صوفیا کے نزدیک فقر کے تین الفاظ ف،  ک اور ر  الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں ۔ ف سے مراد فاقہ ک  سے مراد قناعت اور ر سے مراد رضائے الٰہی ہے ۔ فاقہ سے صبر پیدا ہوتا ہے ۔ قناعت سے بے نیازی اور رضائے الٰہی سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔ گویا فقیر وہ شخص ہوتا ہے جو فاقہ و مستی میں بھی صبر سے کام لے ۔ دنیا سے بے رغبت ہو ۔ دنیاوی آرام و آسائش سے بے نیاز اور ہر حال میں راضی برضا رہتا ہو ۔ اللہ کی یاد میں گم ہو وہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس فرمان کا پیکر ہوتا ہے  ۔

” دنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی پردیسی یا راہ چلتا مسافر ہو ” ۔

(الحدیث )

چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ ہم نے دنیا میں فقیروں کی مانند زندگی گزاری ۔ محتاجی اور فاقہ مستی میں ہوتے ہوئے بھی صبر سے کام لیا ۔ دنیاوی عیش و آرام سے بے نیازی برتی ۔ دنیاوی جاہ و ثروت ، عہدہ و سلطنت اور مقام و مرتبہ کی حرص دل میں نہیں پالی ۔ ہم نے ہر حال میں لوگوں کو دعائیں دیں تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو سکے ۔

بقول اکبر الہٰ آبادی :

دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں

غزل کے روایتی انداز میں اگر دیکھا جائے تو شعر کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم فقیروں کی طرح تمہارے دروازے پر محبت کی بھیک لینے آئے ۔ فقیروں کی مانند صدا لگاتے رہے کہ شاید محبوب کی محبت حاصل ہو جائے ۔ محبوب اپنے دیدار سے نواز دے ۔ اگر محبوب ہماری صدا سن لیتا اور ہمارے دامن میں محبت کی خیرات ڈال دیتا تو ہماری خوش قسمتی ہے ۔ لیکن اگر وہ صرف نظر کرتا ہے تو بھی ہم اسے خوش رہنے کی دعا دیتے ہوئے رخصت ہو جائیں گے ۔ کیونکہ فقیر کا کام صدا لگانا اور دعا دینا ہے چاہے اسے خیرات ملے یا نہ ملے ۔

 : بقول میر تقی میر

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

شعر نمبر   2 :

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے

ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے

مفہوم مشکل الفاظ کے معانی : آہ (کلمہ افسوس ، افسوس کا اظہار ) ،  دل اٹھنا (خواہش ختم ہونا  ، دل سے کسی چیز کا اترنا )

مفہوم : ہائے وہ کیسی چیز ہے جس کی خاطر ہم نے ہر چیز کی خواہش ختم کر ڈالی ۔

تشریح : چیزوں کی اہمیت کے بارے میں انسان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں کسی وقت انسان ایک چیز کی بہت خواہش کرتا ہے اس کے نزدیک وہ اہم ہوتی ہے لیکن کسی دوسرے وقت میں وہی چیز اس کے لیے اہم نہیں رہتی اس کے مقابلے میں وہ کسی دوسری چیز کو اہمیت دیتا ہے اور اسے حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات کوئی چیز اتنی اہم بن جاتی ہے اور اسے حاصل کرنے کی خواہش اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ انسان اس کے مقابلے میں دیگر تمام چیزوں سے دستبردار ہو جاتا ہے اور اپنی تمام خواہشات ترک کر دیتا ہے گویا ایک چیز کے مقابلے میں دیگر تمام چیزوں کی اہمیت بے معنی ہو جاتی ہے ۔ بلاشبہ محبت ایک ایسی شے ہے کہ جس کے مقابلے میں ہر چیز کی خواہش ختم ہو جاتی ہے ۔ صرف محبوب کی طلب باقی رہ جاتی ہے چنانچہ تشریح طلب شعر میں شاعر نے جس کے لیے ساری دنیا سے بے نیازی اختیار کی وہ شاعر کا محبوب ہے ۔ وہ مجازی بھی ہو سکتا ہے اور حقیقی بھی۔

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ آخر وہ کیا چیز ہے ، کتنی دلفریب اور حسین ہے کہ جس کی آرزو میں ہم نے ہر چیز کی آرزو ختم کر دی ۔ شاعر نے یہاں تجاہلِ عارفانہ سے کام لیا ہے یعنی جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس چیز سے لاعلمی اور بے خبری کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے شاعر کے دل سے ہر چیز کی خواہش مٹ گئی ہے ۔ جیسا کہ ناصر کاظمی ایک شعر میں کہتے ہیں :

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

حقیقی معنی میں شعر کا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر کہتا ہے اللہ کی محبت ، اللہ سے ملاقات اور اس کے دیدار کی خواہش اتنی مسحور کن اور حسین ہے کہ اس کے سامنے دنیا کی سب رونقیں اور حسین نظارے ماند پڑ گئے ہیں ۔ میرے دل میں صرف اللہ کی محبت اور اس کے دیدار کی خواہش ہے اس کے علاوہ سب خواہشیں اور تمنائیں ختم ہو گئیں ہیں ۔ اب دنیا کی کسی چیز میں دل نہیں لگتا ہے اور کسی چیز سے خوشی نہیں ملتی ۔ ہر چیز سے دل اٹھ گیا ہے ۔

بقول خواجہ عزیز الحسن مجزوب :

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی

اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

ایک تم سے کیا محبت ہو گئی

ساری دنیا سے عداوت ہو گئی

اگرچہ دنیا کی خوبصورتی اور  رعنائی انسان کو اپنی جانب کھینچتی ہے لیکن اللہ کے عاشقوں پر دنیا کی حقیقت واضح ہو چکی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ دنیا کا سب حسن و جمال عارضی اور فانی ہے ۔ چنانچہ اس کے مقابلے میں وہ اللہ جو حسن کامل اور لافانی حسن ہے ۔ اس سے دل لگاتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ سے ملاقات اور اس کا دیدار مرنے کے بعد صرف نیک لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے وہ اپنے دل کو دنیاوی آلائشوں اور خواہشات سے پاک کر کے اس میں صرف ایک اللہ کی محبت کو جگہ دیتے ہیں ۔ باقی ہر خواہش سے ان کا دل اٹھ جاتا ہے ۔

مجازی معنوں میں شعر کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب کی بے رخی اور بے اعتنائی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے تمہاری خاطر ہر چیز سے دستبرداری اختیار کر لی ہر چیز کی طلب دل سے ختم کر دی ۔ لیکن اس کے باوجود تمہاری توجہ حاصل نہ ہو سکی ۔ لفظ آہ شاعر کی نا امیدی اور مایوسی کو ظاہر کرتا ہے ۔ شاعر حسرت سے آہ بھرتا ہے اور کہتا ہے کہ جس کے لیے ہم نے ہر چیز چھوڑ دی اور دنیا کی ہر خواہش مٹا دی افسوس وہ پھر بھی ہمارا نہ ہو سکا ۔

بقول امیر مینائی :

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا

ہم نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

شعر نمبر 3 : 

کوئی نا امیدانہ کر کے نگاہ

سو تم ہم سے منھ بھی چھپا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانی : نا امیدانہ ( نا امیدی سے ،  مایوسی سے) ،  نگاہ ( نظر) ،  مونھ چھپانا (شرمندہ ہونا)

مفہوم :  اے محبوب تم نے مایوسی کی نظر سے ہمیں دیکھا اور ہم سے منہ چھپا کر چلے گئے ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر نے محبوب کی لاپرواہی اور بے رخی اور سنگ دلی کا تذکرہ کیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ ہمیں محبوب کے دیدار کی شدید خواہش تھی اور اس کے لیے ہم نے طرح طرح کے جتن کیے ۔ ہمیں امید تھی کہ ایک دن محبوب کا دیدار ضرور ہوگا اور محبوب ہم پر نگاہِ التفات ڈالے گا اور پھر توجہ دے گا ۔ اسے اس بات کا احساس ہوگا کہ میں ایک مدت سے اس کے دیدار کا منتظر ہوں ۔ شاعر پر امید تھا کہ اب محبوب سے ملاقات ہوئی تو محبوب کی جانب نگاہِ الفت سے دیکھے گا جب اس کا محبوب سامنے ہوا تو محبوب نے کمال لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور ایک نا امیددانہ ہے سی نگاہ ڈالی اور منھ  چھپا کر چلا گیا ۔ جس پر شاعر شکوہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محبوب ہم ایک مدت سے اس انتظار میں تھے کہ تمہارا دیدار ہو اور تمہاری نگاہ التفات ہم پر پڑے لیکن آج جب وہ دن آیا کہ تم نے میری جانب ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں ۔ اگر دیکھا تو سرسری سی نگاہ ڈالی ۔ تمہاری آنکھوں میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئی اور ہمارے لیے کوئی نرم گوشہ نظر نہیں آیا ۔ تمہاری آنکھوں میں ہمارے لیے مایوسی کے سوا کچھ نہ تھا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب میں نے تمہاری جانب دیکھا تو تم منھ چھپا کر چلے گئے ۔ میرے ساتھ یہ رویہ نہیں ہونا چاہیے تھا ۔

بقول وزیر علی صبا لکھنوی :

آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں

ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

اور بقول پروین شاکر :

میرے پاس سے وہ گزرا میرا حال تک نہ پوچھا

میں یہ کیسے مان جاؤں کہ وہ دور جا کے روئے

تیری بے وفائی یوں پر تیری کج ادائیوں پر

کبھی سر جھکا کے روئے کبھی منہ چھپا کے روئے

شعر کا دوسرا پہلو یہ ہو سکتا ہے کہ اس عارضی اور فانی دنیا کی حقیقت واضح ہونے کے بعد انسان دنیا کی دلچسپیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گزر جاتا ہے اور اپنی گزشتہ غفلت کی زندگی پر افسوس کرتا ہے ۔ اسے اپنے گناہوں کا احساس ہوتا ہے تو ہر ایک سے منھ چھپانے لگتا ہے ۔ چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ تم نے ہماری جانب ایک مایوسی کی نظر ڈالی اور منھ چھپا کر چلے گئے ۔

شعر نمبر 4 : 

دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا

ہمیں اپ سے بھی جدا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانی : بے خود کرنا( مدہوش کرنا ،  خود سے بیگانہ کرنا) ،  جدا ( الگ)

مفہوم :  محبوب کو دیکھ کر ہم ایسے بے خود ہوئے کہ اپنا ہوش تک نہ رہا ۔

تشریح :  تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ ایک مدت سے ہم محبوب کے دیدار کے منتظر تھے اور محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے مارے مارے پھر رہے تھے ۔ لیکن جیسے ہی محبوب دکھائی دیا ہم اس کے جلوہ حسن کی تاب نہ لا سکے ۔ محبوب کا حسن و جمال دیکھ کر ہم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور اسے دیکھنے میں ایسے محو ہوئے کہ ارد گرد کی کچھ خبر نہ رہی ۔ یہاں تک کہ خود سے بھی بے خود ہو گئے ۔ اپنی خبر بھی نہ رہی ۔

بقول بشیر بدر:

نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی

بڑی آرزو تھی ملاقات کی

یہ بھی محبوب کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی تعریف کا ایک طریقہ ہے ۔ شاعر نے محبوب کے حسن و جمال کی تعریف کی ہے کہ محبوب اتنا خوبصورت اور دل کش ہے کہ اسے ایک نظر دیکھنے والے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں ۔

بقول مہاراج بہادر برق :

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

حقیقی معنی میں شعر کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو وہ عِشق حقیقی کی لذت سے آشنا ہوتا ہے ۔ تو وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا ہے۔  دنیاوی لذتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور ہمہ وقت یادِ الٰہی میں محو رہتا ہے ۔ گویا وہ فنا فی اللہ کی منزل تک پہنچ جاتا ہے ۔ شاعر کہتا ہے کہ جب مجھے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوئی اور اس کے عشق کی لذت حاصل ہوئی تو میں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو گیا ۔ اللہ مرکز حسن ہے۔  ہر حسن کی تخلیق اسی سے ہے ۔ اس لیے صرف اللہ ہی کا حسن کامل ، اکمل اور مکمل ہے ۔ وہ سب سے اجمل بھی ہے اور سب سے احسن بھی ہے ۔ جب اس کا جلوہ سامنے ہو تو پھر نہ کوئی جمیل جمیل ہے نہ کوئی حسین حسین ہے ۔ ہر حسن اور ہر جمال اس کے سامنے ماند اور ہر ذات اس کے مقابل باطل ہے ۔ جب اللہ کا جمال و کمال اس کا نور دل میں سما جاتا ہے تو پھر انسان کو ہر طرف اللہ ہی کا جلوہ نظر آتا ہے ۔ دل سے ہر غیر کا نقش مٹ جاتا ہے ۔ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے جب وہ دل میں جلوہ گر ہوتا ہے تو دل آئینہ خانہ بن جاتا ہے ۔ چاروں طرف اسی کے نظارے اور جلوے نظر آتے ہیں ۔ اس کے نور اور جلووں کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی یہاں تک انسان خود سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے ۔

بقول یامین غوری :

مجھے جب سے تیری خبر ہوئی نہیں اپنی کچھ بھی خبر رہی

تو ہے ایسا مجھ میں بسا ہوا کہ تجھے کو پاؤں میں جا بجا

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب طور پہاڑ پر اللہ کے نور کی تجلی دیکھی تو اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ اسی طرح شاعر کہتا ہے کہ ہم اس محبوب حقیقی کے جلوے کی تاب نہ لا سکے اور بے خود ہو گئے خود سے بھی جدا ہو گئے۔

شعر نمبر 5 :

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی

حق بندگی ہم ادا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانی : جبین (پیشانی ، ماتھا حق) ،  بندگی کا حق ( عبادت کا حق ، غلام ہونے کا حق)

مفہوم : میری پیشانی مسلسل سجدہ کرتی رہی اور اس طرح بندگی کا حق ادا ہوتا گیا ۔

تشریح :  اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ اسے عقل و شعور عطا فرمایا تاکہ انسان پورے عقل و شعور کے ساتھ اللہ کی بندگی اختیار کرے ۔ چنانچہ انسان کا مقصد تخلیق واضح کرتے ہوئے قران پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں  جس کا ترجمہ ہے :

“بے شک میں نے جنات اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے ” ۔

سورۃ ذاریات آیت نمبر 56

اللہ پر ایمان رکھنے والا ہر شخص اس رمز کو جانتا ہے کہ اللہ میرا خالق و مالک ہے اور میرا مقصد حیات اللہ کی بندگی کرنا ہے ۔ چنانچہ وہ اللہ کی اطاعت اور عبادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو بے پایاں نعمتیں عطا کی ہیں اور انسان پر جو اپنی بے شمار مہربانیاں اور عنایتیں کی ہیں ان سب کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور اس کا شکر گزار بندہ بنے ۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور عنایتوں پر انسان جتنا بھی شکر کرے کم ہے ۔ نعمتوں پر شکر کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچایا جائے اور انسانیت کی خدمت کی جائے ۔ شکر گزاری کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی اختیار کی جائے اور کثرت سے اللہ کی عبادت اور حمد و ثنا کی جائے ۔ عبادت میں سجدہ ایسا رکن ہے جس میں انسان اپنے پروردگار کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ چنانچہ اللہ کے عشاق اور شکر گزار بندے کثرت سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں ۔ اس طرح کہ بندگی بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

بقول مرزا غالب :

جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے اے اللہ تو میرا آقا و مالک ہے اور میں تیرا غلام ہوں ۔ حق تو یہ ہے کہ تیرے سامنے سجدے سے سر نہ اٹھاؤں اس پر مزید یہ کہ تو نے جو مجھے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں اور مجھ پر جو تیری بے پایا مہربانیاں ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ میں تیرے سامنے ہر وقت  سجدہ ریز رہوں اور تیری فرمانبرداری کروں ۔ چنانچہ جب بھی مجھے یہ خیال آتا ہے اور اس بات کا احساس ہوتا ہے تو میرا سر ندامت سے جھک جاتا ہے میرے سجدوں میں کثرت آ جاتی ہے اور سجدے طویل ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ میری پیشانی مسلسل تیرے سامنے سجدہ ریز رہنے لگتی ہے ۔ اس طرح تیری بندگی ہوتی رہتی ہے ۔

بقول شاعر :

شہیدانِ وفا کے حوصلے تھے داد کے قابل

وہاں پر شکر کرتے تھے جہاں پر صبر مشکل تھا

مجازی معنی میں شعر کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے محبوب میں نے تمہاری ہر بات پر سر تسلیم خم کیا ۔ تمہارا ہر حکم مانا اور کبھی اس سے روگردانی نہیں کی ۔ تم حکم صادر کرتے گئے اور میں تمہارے ہر حکم پر سر جھکاتا چلا گیا اور تمہاری اطاعت و فرمانبرداری کرتا چلا گیا کیونکہ محبت اطاعت و فرمانبرداری اور تسلیم و رضا ہی کا نام ہے جیسا کہ رابعہ بصری کا قول ہے :

” محبت کرنے والا اپنے محبوب کا مطیع و فرمانبردار ہو جاتا ہے ” ۔

لیکن اس کے باوجود بھی تمہاری وفا حاصل نہ ہو سکی اور تمہارے دل میں میرے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا نہ ہو سکا میں نے تمہارے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر کے حق محبت ادا کر دیا ۔ میں نے محبت میں توحید کی روایت قائم رکھی کہ تمہارے سوا کسی کو دل میں جگہ نہیں دی ۔

بقول احمد فراز :

ہم محبت میں بھی توحید کے قائل ہیں فراز

ایک ہی شخص کو محبوب بنا رکھا ہے

شعر نمبر 6 :

پرستش کی یہاں تک کہ اے بت تجھے

نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانی : پرستش ( عبادت ، پوجا ) ،  یاں تک (یہاں تک) ،  بت ( پتھر کا مجسمہ ، صنم ، مراد محبوب) ،  سبھوں (سبھی  ، سب لوگ یہ الفاظ متروک ہو چکا ہے)

مفہوم : محبوب ہم نے تمہاری اتنی پرستش کی کہ لوگ تمہیں خدا سمجھنے لگے ۔

تشریح: کلاسکی شاعری میں محبوب کے بے حسی ، سنگ دلی اور لاپرواہی کے اظہار کے لیے محبوب کو صنم اور بت پکارا جاتا ہے۔  اس شعر میں بھی شاعر نے محبوب کو بت کہہ کر مخاطب کیا ہے یعنی جس طرح بت پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا اسی طرح محبوب پر بھی شاعر کی کسی بات اور آہ و فریاد کا اثر نہیں ہوتا  ۔جس طرح بت اپنے پجاری کی بات نہیں سن سکتا اور نہ اس کا جواب دے سکتا ہے اسی طرح محبوب بھی اپنے عاشق کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا ہے ۔ گویا وہ سنتا ہی نہیں جس طرح بت ہر قسم کا جذبات اور احساسات سے عاری ہوتا ہے اس طرح محبوب بھی محبت و ہمدردی کے جذبات و احساسات سے بے نیاز ہوتا ہے ۔ چنانچہ شاعر نے محبوب کو بت کہہ کر محبوب کی بے حسی اور لاپرواہی کو بیان کیا ہے ۔

بقول شاعر :

ہم نے تمہیں ذرا سا خدا کیا بنا دیا

تم نے بھرے جہان میں تماشا بنا دیا

تشریح طلب شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے محبوب ہم نے تیری اتنی اطاعت و فرمانبرداری کی اور تیرے ہر حکم کو اس طرح بجا لائے کہ تمہیں دنیا کی نظروں میں معزز کر دیا ۔ ہم تو تمہارے دیوانے تھے ہی ہماری دیوانگی اور وارفتگی دیکھ کر دنیا والے بھی تمہارے گرویدہ اور دیوانے ہو گئے ۔ ہم نے محبت کو عبادت کی طرح ادا کیا لیکن تمہاری کج ادائی اور لاپرواہی میں ذرا فرق نہ آیا بلکہ تم پہلے سے بھی زیادہ مغرور اور سنگ دل ہو گئے ۔ ہم نے پرستش کی کی حد تک محبت کی جس طرح انسان اللہ کی بن دیکھے عبادت کرتا ہے اس طرح میں نے بنا سوچے سمجھے تمہاری فرمانبرداری کی اور تمہارے ہر حکم کو بجا لایا ۔

بقول حفیظ جالندھری :

رسم عشاق یہی ہے کہ وفا کرتے ہیں

یعنی ہر حال میں حق اپنا ادا کرتے ہیں

انسانی فطرت ہے کہ جب اسے حد سے زیادہ عزت و تکریم دی جائے اور اس کا ہر حکم آنکھیں بند کر کے بجا لایا جائے تو وہ انسان مغرور ہو جاتا ہے اور وہ اپنے آپ میں خدا بن جاتا ہے ۔ وہ دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو برتر سمجھنے لگتا ہے ۔ اسی طرح جب عاشق حد سے زیادہ محبوب کے ناز اٹھاتا ہے تو محبوب اور زیادہ مغرور ہو جاتا ہے اور پہلے سے زیادہ لاپرواہی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔

بقول یامین غوری :

ناز اس کے اٹھا لیے اتنے

دیکھ بندہ خدا نہ بن جائے

شعر نمبر 7 :

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ

جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

مشکل الفاظ کے معانی : جہاں (دنیا)

مفہوم :  اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم دنیا میں کس مقصد کے لیے آئے تھے اور کیا کر چلے ہو تو میں کیا جواب دوں گا ۔

تشریح : اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مقصدِ حیات اور ایک نصب العین دے کر دنیا میں بھیجا ہے اور اسے کما حقہ پورا کرنے کے لیے انسان کو بہت سی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے ۔ انسان کا فرض ہے کہ اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو پہچانے اور انہیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنا مقصدِ حیات بجا لائے اور اپنی ذمہ داریوں سے سبق دوش ہو ۔ لیکن انسان خطا کا پتلا ہے بھول چوک اور خطا انسانی خاصہ ہے ۔ انسان دنیا میں آ کر اپنا مقصدِ حیات بھول جاتا ہے اور دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے ۔ جب اسے ہوش آتا ہے تو عمر کا سورج ڈھل چکا ہوتا ہے اور وہ قبر کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے ۔ اس وقت وہ اپنی گزشتہ غفلت بھری زندگی پر کف افسوس ملتا ہے اور کہتا ہے اگر میرے رب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ میں نے تجھے کس مقصد کے لیے دنیا میں بھیجا تھا اور تو کن کاموں میں کھویا رہا تو میں اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤں گا ۔ مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پائے گا ۔

بقول نظیر اکبر آبادی :

جس کام کے کرنے کو تو آیا تھا اے نظیر

خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا

چنانچہ تشریح طلب شعر میں بھی شاعر نے یہی مضمون باندھا ہے ۔ شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے میر تم تمام عمر اپنا مقصدِ حیات بھولے رہے اور اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل رہے ۔ اب تم دنیا سے رخصت ہونے والے ہو اگر تمہارے رب نے تم سے پوچھ لیا کہ دنیا میں تم نے کیا کیا تو تم کیا جواب دو گے ۔ اللہ نے تم سے تمہاری ذمہ داریوں اور مقصد حیات کے متعلق سوال کیا تو تم سے کوئی جواب نہیں بن پڑے گا ۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ میر تقی میر کی غزل” فقیرانہ آئے صدا کر چلے” کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply