آج کی اس پوسٹ میں ہم جماعت نہم ، فیڈرل بورڈ کی غزل ” فقیرانہ آئے صدا کر چلے ” کی تشریح کریں گے ۔
خواجہ میر درد
شعر نمبر 1 :
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں! خوس رہو ہم دعا کر چلے
تشریح : میر تقی میر کو خدائے سخن بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا انداز بیان سادہ اور سلیس ہے ۔ ان کے عہد کو اردو شاعری کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی شاعری میں تشبیہات و استعارات کا بخوبی استعمال کرتے ہیں۔
تشریح طلب شعر مطلع کا شعر ہے جس میں میر نے درویشانہ انداز اپنا رکھا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ فقیروں کا کام دعا دینا ہے وہ ہر ایک کو دعا دیتے ہیں خواہ کوئی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے یا کوئی برا سلوک کرے۔ کوئی انھیں خیرات دے یا نہ دے۔وہ ہر ایک کو دعا دیتے ہیں۔
شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے کہ ہم نے تجھ سے محبت کی بھیک مانگی ہے۔اگر تو ہمارے کشکول میں محبت کی بھیک ڈال دے گا تو تیری مہربانی ورنہ ہم دعا ہی دے سکتے ہیں۔ اگر تو ہم پر مہربانی کرے گا تو تیری مہربانی اگر رحم نہیں کرے گا تب بھی ہم تجھے بد دعا نہیں دیں گے۔
شعر نمبر 2:
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میں نے آپ سے عہد کیا تھا کہ تیرے بغیر جی نہ سکوں گا۔ تیری جدائی میرے لیے جان لیوا ثابت ہو گی۔ وہی ہوا کہ میرا مقدر جدائی ٹھہری۔ لہٰذا اب اس عہد کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ تیرے بغیر میری زندگی ادھوری اور بے رنگ ہے۔ اس جینے سے تو مرا جانا ہی بہتر ہے۔ اب میں تیرے بغیر زیادہ عرصہ نہ جی سکوں گا اور یہی میرا تم سے وعدہ تھا۔ جس کو نبھانے کا وقت آ گیا اور ہم اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔
بقول شاعر:
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
شعر نمبر 3:
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
تشریح : اس شعر میں تقدیر کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان لاکھ کوشش کرے مگر کوئی چیز اگر اس کے مقدور ہی میں نہیں لکھی تو وہ اسے نہیں ڈھونڈ سکتا۔ انسان تقدیر کے سامنے بے بس ہے۔
اس شعر میں بھی میر تقی میر کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیماری سے شفا یاب ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ جہاں تک ہو سکا علاج معالجہ کیا مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ شفا ہی میری قسمت میں نہیں ہے۔ علاج معالجے سے کچھ افاقہ نہیں ہو رہا ہے لگتا ہے میری موت کا وقت آ گیا ہے کیونکہ موت کے وقت سب علاج معالجے ناکام رہتے ہیں۔
اگر اس شعر کی تشریح عشق مجازی کی روشنی میں کی جائے تو اس کا مطلب ہے کہ شاعر اپنے محبوب سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور اس کی محبت کو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر ناکام رہتا ہے۔ تو شاعر کو یوں لگتا ہے کہ محبوب کی محبت اس کی قسمت میں ہی نہیں ہے۔ اگر محبوب کی محبت شاعر کی قسمت مین ہوتی تو ضرور ملتی ہے مگر شاعر کی قسمت میں صرف جدائی لکھی ہے تو وصال کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
شعر نمبر 4:
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
تشریح : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں کا انسان چاہ کر بھی شکر ادا نہیں کر سکتا جیسا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ” تم اس کی کون کون سی نعمت کا شکر ادا کر سکتے ہو”۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا جہاں تک ہو سکے شکر ادا کرتا رہے۔
تشریح طلب شعر میں بھی شاعر یہی کہتا ہے کہ اے اللہ تیری نعمتوں کا شکر ادا کر نے کے لیے ہر وقت اپنی جبیں سجدے میں رکھتا ہوں تاکہ تیری عبادت اور اطاعت کا حق ادا کر سکوں مگر تیری عبادت کا حق کوئی کیسے ادا کر سکتا ہے مگر جہاں تک ہو سکتا ہے میں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔
بقول شاعر :
جان دی ، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہو
انسان کو دنیا میں بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس کا دنیا میں آنے کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے جہاں تک ہو سکا اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش ہے اور میری جبیں اس کے آگے جھکی رہتی ہے۔ میں جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہوں نہیں کر سکتا۔
شعر نمبر 5:
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
تشریح : میر تقی میر کی ساری زندگی دکھوں اور مصیبتوں سے عبارت تھی۔ یہ غزل ان کی زندگی کے آخری ایام کی یاد گار ہے۔ یہ غزل میر نے اپنی بیماری کے دنوں میں لکھی۔ تشریح طلب شعر میں وہ احباب کی آرام دہ زندگی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے دوستوں کی جدائی کا غم برداشت نہیں کرنا پڑا۔ویسے تو انھوں نے زندگی میں بہت سی تکالیف کا سامنا کیا مگر دوستوں کے غم نہیں دیکھے۔ ان کے دوست صحت مند اور خوشحال رہے ۔
بقول شاعر :
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
شعر نمبر 6:
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے
تشریح : مقطع کے اس شعر میں شاعر اپنا احتساب کر رہے ہیں۔ گویا وہ خود سے مخاطب ہو کر سوال کر رہے ہیں کہ دنیا میں تیرے آنے کا مقصد کیا تھا اور تو نے اپنی زندگی کس کام میں بسر کی؟ انسان کو دنیا میں اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ لیکن انسان دنیا میں آکر اپنی زندگی کا مقصد بھول کر دنیا کا ہی بن کر رہ گیا ہے۔ شاعر کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ وہ بھی غفلت کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اور اس پر وہ افسوس کا اظہار کر رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میری ساری زندگی غفلت اور لاپرواہی میں ہی میں گزر گئی۔ عشق مجازی کے حصول کے لیے ہر وہ کام کیا جس سے خدا نے منع کیا تھا۔اب کوئی مجھ سے پوچھے کہ دنیا میں آکر کیا کام کیا تو میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوائے خاموشی کے کیونکہ میری زندگی غفلت میں گزری۔
نوٹ : امید ہے کہ آپ میر تقی میر کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.