فراق گورکھپوری کی غزل گوئی

آج کی اس پوسٹ میں ہم غزل کے شاعر فراق گورکھپوری کا تعارف ، شاعری ، فکر و فن اور تصانیف پر سیر حاصل گفتگو کریں گے ۔

اک مدت سے تیری یاد نہ ہم کو

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ابتدائی زندگی کا تعارف : ٹوپی سے باہر جھانکتے بکھرے ہوئے بال، شیروانی کے کچھ کھلے ہوئے بٹن، ڈھیلا ڈھالا پائجامہ، ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں سگریٹ ، بڑی بڑی گول آنکھیں ۔ اردو ادب کے معروف شاعر اور نقاد رگھوپتی سہائے کی ظاہری شخصیت کچھ ایسی ہی تھی۔ کوئی انجان شخص انہیں دیکھ کر قطعی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اردو ادب میں انھوں نے اپنا ایک منفرد مقام بنا رکھا ہے۔ وہ اپنی ظاہری شخصیت کو لے کر جتنے لاپروا تھے، ان کی شاعری میں اتنی ہی زیادہ سنجیدگی کی جھلک دیکھنے کو ملتی تھی۔ خاص طور سے ان کی عشقیہ غزلوں نے لوگوں کو کافی متاثر کیا۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ عشقیہ کیفیات کو پیش کرنے کے نئے انداز نے انہیں منفرد شاعر کی حیثیت عطا کی۔ ان کا اصل نام رگھوپتی سہائے اور فراق تخلص تھا ۔ فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء بروز جمعہ گورکھپور یو ۔ پی کے ایک کائستھ گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق گھر سے ہی حاصل کی ۔ فارسی اور اردو کا ذوق انہیں ورثہ میں ملا ۔ گھر کا ماحول مشرقی تھا ۔ وہیں سے تعلیم کا آغاز ہوا سات سال کی عمر میں گھر کے قریبی ماڈل سکول میں داخل ہوئے اس کے بعد مشن ہائی سکول چلے گئے ۔ 1913ء میں جبلی ہائی سکول سے میٹرک اور 1915ء میں میور سینٹرل کالج الہ آباد سے ایف ۔اے کیا اور صوبہ بھر میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ 1918ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور صوبے میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1919ء میں پی۔ سی۔ ایس کا امتحان پاس کر کے ڈپٹی کلیکٹر ہو گئے۔

فراق شاعر ، نظم نگار ، نثر نگار ، مترجم اور نقاد : ایسا بہت کم ہوتا کہ لوگ نظم و نثر میں یکساں مقبول ہوں مگر فراق گورکھپوری نے دونوں اصناف پر طبع آزمائی کی اور دونوں میں شہرت حاصل کی ۔ بطور ممتاز شاعر انھوں نے اردو شاعری کی اہم اصناف مثلاً غزل، نظم، رباعی اور قطعہ میں کے وہ ایک منفرد شاعر ہیں جنھوں اردو نظم کی ایک درجن سے زائد اور اردو نثر کی نصف درجن سے زائد جلدیں ترتیب دیں اور ہندی ادبی اصناف پر متعدد جلدیں تحریر کیں، ساتھ ہی ساتھ انگریزی ادبی و ثقافتی موضوعات پر چار کتابیں بھی لکھیں۔

پاکستانی اسکالر اور معروف ناقد ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنی کتاب “جوش ملیح آبادی اور فراق  گورکھپوری ” میں قلمبند کیا ہے کہ ” یوں تو ہمارے ہاں بیشتر بڑے ناقدین مثلاً مولانا الطاف حسین حالی ، مولانا شبلی نعمانی ، مولانا محمد حسین آزاد ، علامہ نیاز فتح پوری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، فراق گورکھپوری، پروفیسر کلیم الدین، پروفیسر احتشام حسین اور آل احمد سرور سب ہی نے نثر کے ساتھ ساتھ شاعری کا دامن بھی کسی نہ کسی طور پر آخری دم تک پکڑے رکھا، لیکن سچ یہ ہے کہ ان میں حالی و فراق کے سوا کوئی بھی بیک وقت اپنے عہد کا ممتاز شاعر اور ممتاز ناقد نہ بن سکا ” ۔

عملی زندگی: ان کی شاعری کا سفر کالج کے زمانے سے شروع ہو گیا ۔ پہلی غزل انھوں نے 1916ء میں کہی ۔ابتدا میں مجنوں گورکھپوری اور پریم چند سے متاثر ہو کر افسانہ نگاری بھی کی۔ 1930ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کے امتحان ریکارڈ نمبروں کے ساتھ پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے لیکچرر ہو گئے۔ 1936ء میں شروع ہونے والی ترقی پسند تحریک سے بھی وابستگی اختیار کی۔ 6 مارچ 1952ء کو پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا۔ زندگی کا بیشتر حصہ الہ آباد یونیورسٹی میں درس و تدریس میں گزرا ۔ 31 دسمبر 1958ء کو یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 1959ء سے 1966ء تک یو۔ جی ۔ سی کی طرف سے نیشنل پروفیسر کے عہدے پر کام کیا۔

اسلوبِ بیاں/ شاعری کی نمایاں خصوصیات : بلا شبہ فراق گورکھپوری بیسویں صدی کے ادب کا اہم نمائندہ شاعر ہے ۔ ان کی شہرت بطور ایک شاعر اور نقاد کے پورے بر عظیم میں رہی ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اردو شاعری کی آبرو اگر غزل ہے تو غزل کی آبرو  فراق گورکھپوری ہیں ۔ انہوں نے اردو غزل کو نیا انداز ، نیا لب و لہجہ اور نئی قدروں سے روشناس کرایا ۔خاص طور پر رومانی اور عشقیہ شاعری میں مطالعہ و مشاہدہ کی گہرائی و گیرائی اور خیالوں کا نیا پن ، لب و لہجہ میں بے ساختگی ، حسن و عشق، وصل و ہجر ۔ وفا اور جفا کی بیشتر داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ان میں فراق گورکھپوری نے ایک نئی روح پھونک دی ہے اور تکلف و تصنع کو ختم کرکے ایسی سادگی ، شادابی اور شگفتگی بخشی کہ وہ پوری اردو غزل پر چھا گئے ہیں۔

جدید شاعری میں فراق کا مقام بہت بلند ہے ۔ آج کی شاعری پر فراق کے اثر کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بہترین شخصیت کے مالک تھے۔ حاضر جوابی میں ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ بین الاقوامی ادب سے بھی شغف رہا۔ تنقید میں رومانی تنقید کی ابتدا فراق سے ہوئی۔

فراق گورکھپوری نے اپنی غزلوں کے ذریعہ عشقیہ شاعری کو عروج بخشتے ہوئے ایک ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جس میں عاشق و معشوق کی اندرونی کیفیات نکھر کر سامنے آتی ہے۔ ان کے اشعار نہ صرف دل کی گہرائیوں تک پہنچتے ہیں بلکہ درد اور تڑپ سے بھی آشنا کر جاتے ہیں۔ انگریزی، ہندی، سنسکرت، بنگالی وغیرہ کی شاعری پر فراق کی گہری نظر تھی اور اس کا فائدہ بھی انہیں ملا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف مغربی شعراء و مفکرین ورڈس ورتھ، کیٹس، شیلی، بائرن اور دوسری طرف میر و غالب کے اشعار کی جادوئی دنیا میں انہوں نے اپنے لئے ایک الگ مقام متعین کیا۔ ہندو کلچر اور عالمی فلسفہ سے شغف بھی فراق کے لئے مفید ثابت ہوا۔

فراق گورکھپوری کے معاصرین میں شاعر مشرق علامہ اقبال، فیض احمد فیض، کیفی اعظمی، یگانہ یاس چنگیزی، جوش ملیح آبادی ، جگر مرادآبادی اور ساحر لدھیانوی جیسے شاعر ہیں۔ اتنی عظیم ہستیوں کی موجودگی کے باوجود انھوں نے ابتدائے عمر میں ہی اپنی شاعری کا لوہا منوالیا ۔

فراق گورکھپوری اور طنز و مزاح: ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا بڑا شاعر ہو اور اس کی فطرت اور مزاج میں مزاح شامل نہ ہو ۔ فراق بھی کبھی کبھی موڈ میں ہوتے تو خوب چٹکلہ بازی فرماتے تھے جیسا کہ ملاحظہ فرمائیں: ایک بار ایک مشاعرے میں فراق کے پڑھنے کے بعد کسی نوجوان شاعر کا نام پکارا گیا۔ اس نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا کہ فراق صاحب کے بعد میں کیسے اپنا کلام سنا سکتا ہوں، یہ بات ادب کے خلاف ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے فراق نے آواز لگائی کہ ” میاں صاحب زادے! اگر میرے بعد پیدا ہو سکتے ہو تو شعر بھی پڑھ سکتے ہو ” ۔

ایک بار لکھنؤ میں “ادب میں فحاشی ” کے موضوع پر سمینار منعقد کیا گیا۔ فراق صاحب سب کی باتوں کو خاموشی سے سن رہے تھے۔ یکایک انھوں نے سوال کیا آخر یہ فحاشی ہے کیا ؟

کسی شخص نے جواب دیا کہ  ” فحاشی وہ کام ہے جو چھپ کر کیا جائے ” ۔

اس پر فراق صاحب نے انتہائی معصومیت سے پوچھا ” جیسے میں پیشاب کرتا ہوں”۔

فراق صاحب کے اس معصومانہ انداز پر سبھی ہنسنے لگے۔

گویا کہ فراق گورکھپوری کے اندر ناقدانہ اور شاعرانہ صلاحیت تو پنہاں تھی ہی، مزاح بھی ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اپنی اس صلاحیت کے ذریعہ وہ بوجھل ماحول کو ہلکا پھلکا بنا دیتے تھے۔

تصانیف : شعلہ ساز ، مشعل ، رموئزِ کنایات ، من آنم ، اردو غزل گوئی ، اندازے ، گل نغمہ ، شبستان ، غزلستان ، شعر ستان ، گل بانگ اور پچھلی رات وغیرہ ۔

وفات: بوجھل اور غمناک ماحول کواپنی شاعری سے خوش گوار بنانے والا اردو و ادب کا یہ  ستارہ 3 مارچ   1982ء کو بروز بدھ  ابدی نیند سو گیا ۔ دنیائے ادب کے لئے یہ ایک بڑا سانحہ تھا لیکن فراق اپنی لاتعداد نایاب اشعار کی صورت میں ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ

ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply