آج کی اس پوسٹ میں ہم فیڈرل بورڈ جماعت نہم کی غزل ” غم ہے یا خوشی ہے تو ” کی تشریح کریں گے ۔
ناصؔر کاظمی
شعر 1:
غم ہے یا خوشی ہے
تو میری زندگی ہے تو
تشریح : ناصر کاظمی اداس لہجے کے شاعر ہیں۔ ان کو میر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں دھیما پن اور سہل ممتنع پایا جاتا ہے۔ یہ غزل بھی سہل ممتنع کی خوب صورت مثال ہے۔
مطلع کے اس شعر میں صنعت تضاد کا استعمال کیا گیا ہے۔ خوشی اور غمی دونوں ایک دوسرے کے الٹ ہیں۔ انسانی زندگی بھی انھیں دونوں کیفیات کے اردگرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ انسان کو اگر ایک لمحہ کے لیے خوشی ملتی ہے تو دوسرے لمحے غم بھی انسان کے منتظر ہوتے ہیں۔ خوشی کی کیفیت کے حصول کے لیے ناصر کاظمی عاشق صادق ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حساس دل کے مالک بھی ہیں۔ وہ ایسے محبوب کو سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔ انھوں نے غم اور خوشی کے تمام جذبات محبوب سے وابستہ کر رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب تم ہی میری زندگی ہو۔ میں تمھاری خوشی میں خوش اور تمھارے غم میں اداس رہتا ہوں۔ ناصر جذبہ عشق سے سرشار نظر آتے ہیں۔ یہی عشق انھیں حسن اور مسرت سے آشنا کرتا ہے۔
شعر 2:
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
تشریح : زندگی آزمائشوں سے بھری ہوئی ہے۔ جسے دیکھو پریشان نظر آتا ہے۔ کسی کو زمانے کی تکالیف نے گھیر رکھا ہے تو کوئی غم جاناں میں مبتلا ہے۔ شاعر کہتا ہے۔ کہ میں بھی انھیں لوگوں میں سے ایک ہوں ۔مجھے بھی آفتوں نے گھیر رکھا ہے۔ غم کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتی اور مصیبت کے لمحات طویل سے طویل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر ان تمام مصائب اور آفتوں کے باوجود محبوب کی یاد میرے لیے راحت جاں ہے۔ محبوب کا دیدار میرے لیے سکون کا باعث ہے ۔ بقول شاعر:
محبت کے دم سے یہ دنیا حسین ہے
محبت نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
شعر 3:
میری رات کا چراغ
میری نیند بھی تو ہے
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ میری زندگی اندھیروں اور تاریکیوں سے بھری پڑی ہے اور ان تاریکیوں میں محبوب کا وجود چودھویں کے چاند کے جیسا ہے۔ میرے محبوب کی وجہ سے میری زندگی کے تمام مصائب چھٹ جاتے ہیں۔ محبوب کا ہونا ہی میرے جینے کا سہارا ہے۔ میری زندگی اور میری کل کائنات تم ہی ہو۔ جب رات کا اندھیرا بڑھ جاتا ہے۔تو میں تمھاری یادوں کی چادر اوڑھ کر رات کو روشن کر لیتا ہوں۔بقول شاعر:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
شعر 4:
میں خزاں کی شام ہوں
رت بہار کی ہے تو
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنی زندگی کے غموں اور دکھوں سے پردا اٹھاتا ہے اور بہار و خزاں کے متضاد الفاظ سے شعر کی خوب صورتی بڑھا رہے ہیں۔ شاعر کہتا ہے کہ میری زندگی خزاں کی طرح ہے۔ ہر طرف اداسیاں ہی اداسیاں ہیں مگر اس خزاں رسیدہ باغ میں محبوب کا تصور بہار کے مترادف ہے۔ محبوب کے آنے سے شاعر کی زندگی میں بہار آ گئی ہے۔ ہر طرف پھول کھل اٹھے ہیں ۔ شاعر اپنے تمام غم بھول گیا ہے۔ ہر طرف رنگ و خوشبو کی آمد آمد ہے۔ شاعر کی زندگی کا جمود ٹوٹ چکا ہے۔ اب ہر تکلیف راحت میں بدلنے لگی ہے۔ منظر سہانا ہو گیا ہے۔بقول فیضؔ:
رات یوں دل میں تیری کھوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
شعر 5:
دوستوں کے درمیاں
وجہ دوستی ہے تو
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر محبت کو دوستوں کے درمیان دوستی کی وجہ بتا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت کا ہی جذبہ ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک ڈور سے بندھے رہتے ہیں۔ محبت بھی اللہ کا انعام ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ شاعر پہلے دوستوں کے درمیان اداس اور غم زدہ رہتا تھا مگر جب سے محبوب نے شاعر کو محبت کی نظر سے دیکھا ہے اب تو شاعر کے شب و روز ہی بدل گئے ہیں۔ معمولات زندگی قابل دید ہو گئے ہیں۔اب شاعر دوستوں کے درمیان خوش رہتا ہے۔
شعر 6:
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
تشریح : شاعر کہتا ہے کہ ایک عاشق کی زندگی کا مقصد محبوب سے ملاقات ہے۔ کسی کو پا لینا اور اس کی یادوں میں رہنا ایک خوبصورت احساس ہے۔ لیکن اس شعر میں شاعر اپنی بدنصیبی کا تذکرہ کرتا ہے کہ میری زندگی محبوب کے وصال سے خالی ہے۔ چاہا جانا بھی ایک خوبصورت احساس ہے جس کی ہر کوئی خواہش کرتا ہے مگر شاعر کی زندگی اس چاہت سے محروم ہے۔بقول شاعر؛
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
شعر 7:
میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو
تشریح : تشریح طلب شعر میں شاعر اپنے ماضی سے جان چھڑانے کا تذکرہ کرتا ہے کہ میں نے ماضی کو بھلا دیا ہے اور اب میں بدل چکا ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان جتنا بھی مضبوط اعصاب کا مالک ہو ۔ غم اور دکھ اسے توڑ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر اسی غم کی کیفیت میں اس کی حالت یہ ہو جاتی ہی کہ اسے معمولی واقعات بھی یاد نہیں رہتے کیونکہ ایسے تلخ حالات و واقعات انسان کو بدل کے رکھ دیتے ہیں۔بقول شاعر:
ناصرؔ بہت سی خواہشیں ہیں دل میں بے قرار
لیکن کہاں سے لاوں وہ بے فکر زندگی
شعر 8:
ناصرؔ اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو
تشریح : مقطع کے اس شعر میں ناصر کاظمی خود سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ میں اس بے حس اور ظالم دنیا میں احساس کی جنس لے کر کیوں آ گیا ہوں۔ اس مفاد پرست، ظالم اور بے حس دنیا میں اک اجنبی کی طرح ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس بھری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو میرے جذبات کو سمجھ سکے اور میرے دل کو سکون پہنچا سکے۔ وہ خود سے مخاطب ہو کہتا ہے کہ ناصر اب مجھے سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اب تو اس شہر میں اکیلا اور اجنبی ہو گیا ہوں ۔
شکریہ بقول شاعر
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا ہے کوئی
نوٹ : امید ہے کہ آپ ناصر کاظمی کی غزل کی تشریح کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.