آج کی اس پوسٹ میں ہم غزل کی تعریف ، تاریخ اور مقام و مرتبہ کے ساتھ ساتھ اس کا اردو زبان و ادب کے ساتھ تعلق بیان کریں گے ۔ اس کے علاوہ چند مشہور غزل گو شعراء کا مختصر تعارف بھی کروایا جائے گا ۔
غزل کی تعریف :
ماخذ : غزل کا لفظ عربی زبان کے لفظ “غزال ” سے نکلا ہے جس کا مطلب ” ہرن ” ہے ۔
لغوی معنی : غزل کا لفظ عربی زبان کا ایک مصدر ہے۔ جس کے معنی “کاتنا ” ( چرخے پر روئی سے سود دھاگہ بنانا ) ہے ۔ اردو ادب کی رو سے غزل کے معنی عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے بارے میں باتیں کرنا کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار کرتے ہوئے ہرن کے منہ سے بے بسی کے وقت نکلتی ہے۔
اصطلاحی معنی : اصطلاحی لحاظ سے غزل سے مراد وہ صنفِ سخن ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہوتا ہے اور اس میں عشق و عاشقی کی باتیں بیان ہوتی ہیں ۔ خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ ہر قسم کے موضوعات پر اظہارِ خیال کیا جا سکتا ہے ۔
غزل اردو ادب کا ایک مخصوص فن شاعری ہے جس میں عموماً محبت، حسرت، یا طبیعت کے حسین مناظر کو بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ عموماً چھوٹے شعر (شعروں) کی شکل میں لکھی جاتی ہے ۔ جن میں بعض اوقات خیالات اور احساسات کو بڑی گہرائی سے بیان کیا جاتا ہے ۔
غزل کی تاریخ : غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو فارسی ادب سے اردو ادب میں داخل ہوئی اور یہاں اپنی انفرادیت اور حسنِ بیان کے باعث بہت مقبول ہو گئی۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شاعری کا نام غزل پڑ گیا۔
غزل کا آغاز فارسی میں ہوا اور اس کے ابتدائی دور میں اس کا موضوع صرف عشق و محبت ہی ہوا کرتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ غزل کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج تقریباً غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے۔
غزل کی چند نمایاں خصوصیات : غزل کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک آزاد اور غیر مقید صنفِ سخن ہے۔ غزل میں کسی خاص بحر یا وزن کی پابندی نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں اشعار کی تعداد کا کوئی تعین ہوتا ہے۔ غزل میں عام طور پر پانچ سے پندرہ اشعار ہوتے ہیں، لیکن اس سے کم یا زیادہ اشعار والی غزلیں بھی ہو سکتی ہیں۔
غزل کا ایک اور اہم عنصر ”قافیہ” اور ”ردیف” ہے۔ غزل میں ردیف کی پابندی ضروری نہیں کیونکہ غیر مردف ( ردیف کے بغیر) بھی غزلیں ہوتی ہیں مگر قافیہ کا ہونا ضروری ہے ۔ قافیہ کے بغیر غزل نہیں لکھی جا سکتی ۔
شاعر یا غزل گو اپنے جذبات و احساسات کو غزل کے اشعار میں بیان کرتے ہیں اور ان اشعار کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ وہ ایک مربوط اور ہم آہنگ مجموعہ بن جاتی ہے ۔
غزل کو پڑھنے اور سننے کے لیے بھی ایک خاص فن ہوتا ہے۔ غزل کو اس طرح پڑھا اور سنا جانا چاہیے کہ اس کے اشعار کے حسن و جمال اور ان میں بیان کیے گئے جذبات و احساسات کا حق ادا ہو سکے۔ غزل کو پڑھنے اور سننے کے لیے ایک خاص لب و لہجہ اور اندازِ بیان ہونا چاہیے۔
غزل ایک بہت ہی خوبصورت اور دلچسپ صنفِ سخن ہے۔ یہ اپنے حسنِ بیان، اپنے جذباتی پن اور اپنی ہم آہنگی کے لیے مشہور ہے۔ غزل دنیا کی بہت سی زبانوں میں لکھی اور پڑھی جاتی ہے اور اس کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
Table of Contents
1 ۔ مرزا اسداللہ خان غالب
2۔ سید میر تقی میر
3 ۔ خواجہ میر درد
4 نواب مرزا داغ دہلوی
5 ۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفی
6 ۔ فیض احمد فیض
7 ۔سید ناصر رضا کاظمی
8 ۔ احمد فراز
9 ۔ احمد ندیم قاسمی
10 ۔ شکیب جلالی
11 ۔ ظفر اقبال
12 ۔ شہزاد احمد
13 ۔ خواجہ حیدر علی آتش
14 ۔ شیخ ابراہیم ذوق
15 ۔ مومن خان مومن
16 حسرت موہانی
17 ۔ فراق گورکھپوری
18 ۔ تابش دہلوی
19 ۔ ادا جعفری
20 ۔ پروین شاکر
اب ہم مندرجہ بالا اردو زبان کے مشہور غزل گو شعراء کا مختصر تعارف بیان کرتے ہیں ۔ وقت کی قلت کے پیشِ نظر آپ ان تمام شعراء کا مختصر تعارف پڑھ کر اپنے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ ان شعراء کو تفصیل سے پڑھنے کے خواہش مند ہیں تو اگلی پوسٹ پڑھ لیں ۔
شکریہ
1 ۔ مرزا اسد اللہ خان غالب
مرزا اسد اللہ خان غالب آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء کو مرزا عبداللہ بیگ کے ہاں پیدا ہوئے ۔ ابتدا میں اسد اور بعد میں غالب تخلص اختیار کیا ۔ شاہی دربار سے نجم الدولہ اور دبیر الملک جیسے خطابات پائے ۔ غالب کے اباؤ اجداد ترک سلجوق تھے ۔ جو مغلیہ عہد میں ماوراء النہر ( جگہ کا نام ) سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور اچھے سرکاری عہدوں پر فائز رہے ۔ ان کے چچا نصراللہ بیگ شاہی فوج میں رسالدار تھے ۔ نوابان لوہاروں سے مرزا غالب کا سسرالی رشتہ تھا اپنے خاندانی وجاہت پر انہیں ہمیشہ ناز رہا ۔ اس بارے میں کہا کرتے تھے :
سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
اپنی شعر گوئی کے پہلے دور میں غالب نے مشکل پسندی اختیار کی جب اسد تخلص استعمال کرتے تھے مگر جلد ہی سادہ طرز اپنایا ۔
خیال کی لطافت ، بلندی ، روزمرہ اور محاورات کا لطف ، طرز ادا کی شوخی اور موضوعات کی رنگا رنگی نے ان کے کلام کو منفرد اور دلکش بنا دیا ۔ زندگی کے غموں اور دکھوں کے باوجود وہ خوش طبعی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ۔ ان کی شاعری کی ایک اہم خوبی محاکات نگاری ( منظر نگاری ) ہے ۔ وہ لفظوں سے ایسی تصویر کھینچ کر رکھ دیتے ہیں کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتا ہے ۔ انہوں نے اپنی شاعری کا انتخاب ” دیوان غالب ” کی شکل میں کیا ۔ ان کی شاعرانہ عظمت میں اس انتخاب کو بڑا دخل ہے ۔ اردو کا یہ عظیم شہر دلی میں 15 فروری 1869ء کو انتقال کر گیا ۔
تصانیف : دیوان غالب ، اردو معلی ، عود ہندی ، لطائف غیبی ، کلیات غالب( فارسی ) قاطع برہان اور دستنبو وغیرہ شامل ہیں ۔
2 ۔ سید میر تقی میر
میر تقی میر28 مئی 1721ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ میر تقی میر کی شاعری زندگی کے انقلابات کی ترجمان رہی ہے ۔ اگرچہ بعض ناقدین نے میر کو قنوطیت کا حامل شہر بھی کہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میر تقی میر کا تخلیقی شعور زندگی کی مایوسیوں کی نشاندہی کر کے بھی گم کر دینے والی یاسیت کی منزل سے نہ صرف فاصلے پر رہتا ہے بلکہ زیر سطح ایک نشاطیہ احساس کو جگانے کا باعث بھی بنتا رہتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ میر کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف نہ صرف ان کے معاصرین( ان کے دور کے شعرا ) نے کیا ہے بلکہ اب تک کے تمام مستند ناقدین اور غزل کے معتبر شعراء نے میر کے کلام کی ہمہ گیریت ، نشتریت اور افادیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے ۔ غالب جیسے یگانہ روزگار شاعر نے برملا یہ کہا ہے :
ریختہ کہ تمہیں استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
میر کو خدائے سخن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے میر کا اسلوب بیان سادہ اور سلیس ہونے کے باوجود ندرت اور انفرادیت کا حامل ہے ۔ ان کے کلام میں روزمرہ اور محاورے کا التزام بخوبی موجود ہے ۔ ان کے عہد کو اردو شاعری کے زیریں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اردو ادب کو چھ ضخیم مجموعہ ہائے کلام دیے ۔ جن کی قدر و قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے ۔ گویا میر تقی میر کا یہ دعویٰ بالکل درست ثابت ہوا ہے ۔
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اسی طرح ایک یہ دعویٰ بھی میر کا سو فی صد درست ثابت ہوتا نظر آتا ہے ۔
تصانیف : چھ دیوان (اردو ) ، دیوان میر )فارسی ) ، ذکر میر (خود نوشت) اور نکات الشعراء (تذکرہ )۔
3 ۔ خواجہ میر درد
خواجہ میر درد 1720ء کو دلی میں پیدا ہوئے ۔ اگرچہ تصوف کے مضامین اردو کے بیشتر شعرا نے باندھے ہیں لیکن ان میں جو تکمیلی شان درد نے پیدا کی ہے وہ انھیں کا خاصہ ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ صوفی شاعر تھے ۔ درد قلبی واردات کے اظہار کے لیے جن الفاظ کا چناؤ کرتے تھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ الفاظ بنے ہیں اسی مقصد کے لیے ہوں ۔ خواجہ میر درد کی صوفیانہ شاعری وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے فلسفوں کا خوبصورت امتزاج پیش کرتی ہے ۔ خواجہ میر درد تصوف کے فلسفیانہ مضامین کو جس بے ساختگی اور سادگی سے بیان کرتے ہیں وہ انھیں کے ساتھ مخصوص ہے ۔ ان کی غزل میں تغزل صرف تصوف کی بدولت پیدا ہوتی ہے ۔ درد کے ہاں عشق اور تصوف ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ باہم جڑے ہوئے ہیں ۔ انھوں نے محاورہ اور روزمرہ کو کثرت سے استعمال کیا ہے اور نہ صرف غزل کی تہذیبی روایت پیدا کی بلکہ اسے ارتقا کے اگلے زینے پر چڑھنے کا راستہ بھی دکھایا ہے ۔ اردو شاعری کو خواجہ میر درد نے ایک ہی مجموعہ کلام دیوان درد دیا ہے لیکن معیار کے اعتبار سے وہ اتنا بلند پایا ہے کہ اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور جس نے درد کو غزل گو شعراء کے صف اول میں کھڑا کر دیا ہے ۔ خواجہ میر درد نے ساری زندگی دلی میں ہی درویشی میں گزار دی ۔ خواجہ میر درد 1785ء کو دلی میں ہی وفات پا گئے۔
تصانیف : شمع محفل ، آہ سرد ، نالہء درد ، واردات ، درد دل اور علم الکتاب وغیرہ ۔
4 ۔ نواب داغ دہلوی
نواب مرزا خان داغ دہلوی دلی میں 25 مئی 1831ء کو پیدا ہوئے ۔ قلعہ معلیٰ میں پرورش پائی ۔ قلعہ میں مشاعروں کی رونق کو داغ نے قریب سے دیکھا اور یہیں سے ان کا ذوق شاعری ابھرا اور نکھرا ۔ شاعری میں استاد ذوق کے شاگرد تھے ۔
داغ کے یہاں جو سب سے زیادہ نمایاں چیز ہے وہ لطف محاورہ اور زبان کا چٹخارہ ہے ۔ ان کا انداز بیاں بڑا خوب صورت ہے ۔ داغ کی غزلوں میں عشق کی معاملہ بندی ، شوخی اور مسرت کے جذبات کی فراوانی ہے ۔ ان کی شاعری میں میر کا غم یا غالب کا غور و فکر نہیں ہے مگر ان کا انداز بیان سہل ممتنع کی بہترین مثال پیش کرتا ہے ۔ جس کی بدولت ان کی شاعری کو ایک خاص مقام حاصل ہوا ۔ ان کی زبان کو سند کا درجہ حاصل ہے ۔ ان کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال بھی انہیں اپنا کلام اصلاح کے لیے ارسال کیا کرتے تھے اگرچہ کچھ وقت کے بعد داغ نے یہ کہ کر کلام لینے سے انکار کر دیا کہ اس میں اصلاح کی گنجائش نہیں ہے ۔ داغ کی موت پر اقبال نے ایک پر تاثیر مرثیہ لکھا جس میں داغ کی شاعری کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں ۔
اردو غزل کی تاریخ میں داغ کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ اردو زبان کے فروغ میں بھی ان کی شاعری کا بڑا حصہ ہے دا کا کلیات اردو شاعری کا قابل قدر سرمایہ ہے۔
مجموعہ ہائے کلام : مہتاب داغ ، گلزار داغ ، آفتابِ داغ اور یادگار داغ ، داغ دہلوی کے نمائندہ شعری مجموعے ہیں ۔
داغؔ آخری عمر تک حیدرآباد میں ہی رہے۔ یہیں 1905ء میں ان کا انتقال ہوا۔ داغؔ نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں 1028 غزلیں ہیں۔ داغؔ ہی ایسے خوش قسمت شاعر تھے جن کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے ۔
5 ۔ شیخ غلام ہمدانی مصحفی
شیخ غلام حمدانی مصحفی 1751ء کو اکبر پور میں پیدا ہوئے ۔ مصحفی کی غزل دبستان دلی اور دبستان لکھنو کے دل آویز امتزاج کے ساتھ سامنے آتی ہے ۔ ان کی غزل میں ایک طرف دبستان دلی کا سوز و گداز ہے تو دوسری جانب دبستان لکھنو کی پیکر تراشی کا رجحان بھی نظر آتا ہے ۔
مصحفی کا اسلوب نہایت سلیس ، بے حد سادہ اور تخلیقی نفاست کا حامل ہے ۔ ان کے لہجے میں ایک دھیما پن اور ٹھہراؤ ہے جو ان کی غزل میں ایک طلمساتی فضا پیدا کرتا ہے ۔ مصحفی کو غزل پر ایک استادانہ کمال حاصل ہے ۔ وہ پائمال موضوعات کو بھی نئے انداز سے استعمال کرتے ہوئے ان میں کوئی نہ کوئی جدت کا پہلو پیدا کر لیتے ہیں ۔ ان کے کئی ایک اشعار کو ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہے ۔
مولانا محمد حسین آزاد نے ” آب حیات ” میں لکھا ہے کہ ” یہ اصول فن سے بال برابر بھی سرکتے نہ تھے ۔ کلام پر قدرت کامل پائی تھی ۔ الفاظ کو پس و پیش اور مضمون کو کم و بیش کر کے اس دروبست سے شعر میں کھپاتے تھے کہ جو حق استادی کا ہے ادا ہو جاتا تھا ۔
مصحفی کی غزلیات میں روانی اور جوانی پائی جاتی ہے ۔ وہ صحت زبان کا بھی بہت خیال رکھتے تھے ۔ ان کے اشعار میں ترنم پایا جاتا ہے اور یہ کیفیت موضوع اصوات کی تکرار سے پیدا ہوتی ہے ۔
شیخ غلام ہمدانی مصحفی نے 76 سال کی عمر میں1240ھ مطابق 1824ء میں لکھنؤ میں وفات پائی ۔
تصانیف:
مصحفیؔ نے اپنے پیچھے آٹھ دیوان اردو کے اور ایک دیوان فارسی کا اور ایک تذکرہ فارسی شاعروں کا اور دو تذکرے اردو شاعروں کے چھوڑے ہیں ۔
6 ۔ فیض احمد فیض
سر زمین سیالکوٹ نے دو بڑے شہر پیدا کیے ۔ ایک علامہ اقبال اور دوسرا فیض احمد فیض۔ فیض احمد فیض جدید اردو شاعری میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ یہ ترقی پسند اور انقلابی فکر کے حامل تھے ان کی شاعری میں رومانیت اور وطن سے بے پناہ محبت کا اظہار ملتا ہے ۔
فیض احمد فیض 13 فروری 1911ء کو پاکستان کے تاریخی شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ فیض احمد فیض نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی۔ بی ۔ اے کرنے کے بعد عربی میں بی اے آنرز کیا اور پھر انگریزی اور عربی میں ایم ۔ اے کیا ۔ فیض کی عملی زندگی بڑی متنوع اور ہنگامہ خیز تھی ۔ کچھ عرصہ فوج میں بھی ملازمت کی ۔ راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے اور سب کو یقین تھا کہ انہیں پھانسی کی سزا ہو جائے گی لیکن انہیں ڈھائی سال کی قید کی سزا ملی فیض احمد فیض کا پہلا مجموعہ کلام ” نقش فریادی” کے نام سے 1911ء میں شائع ہوا ۔ اپنی شاعری اور انسان دوست خیالات کی وجہ سے انہیں لینن امن ایوارڈ بھی ملا ۔
ترقی پسند تحریک سے وابستہ شعرا میں فیض احمد فیض کا مقام بہت بلند اور منفرد ہے ۔ فیض کو پیکر تراشی میں ایک خاص ملکہ تھا ۔ لفظی تصویر کشی میں مہارت رکھتے تھے ۔ وہ سراسر جمالیات کے شاعر ہیں ۔ انہوں نے نغمگی ، امیجری ، استعارہ اور تشبیہ جیسے فنی لوازمات کو بڑی ہنرمندی سے استعمال کیا ۔ فیض اردو شاعری کی روایت سے بخوبی آگاہ تھے اور فارسی انگریزی شاعری سے بھی واقف تھے ۔ ان کی شاعری کا آغاز رومان اور وجدان سے ہوتا ہے لیکن زندگی کے سخت اور کڑے حقائق جلد ہی ان کی شاعری کی مستقل راہ ہموار کر دیتے ہیں ۔
ذاتی دکھ کے علاوہ عالم انسانیت کے رنج و الم اپنے اندر محسوس کرتے ہیں اور یوں ان کی شاعری محبت اور حقیقت کا حسین امتزاج بن جاتی ہے ۔ غالب اور اقبال کے بعد بڑے شہر فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 ء کو انتقال کر جاتے ہیں اور لاہور میں انہیں دفن کر دیا جاتا ہے ۔
مجموعہ ہائے کلام : نقش فریادی، دست صبا ، زندان نامہ ، دست تہ سنگ ، سر وادی سینا ، شام شہر یاراں ، میرے دل میرے مسافر اور غبارِ ایام وغیرہ ۔
7 ۔ سید ناصر رضا کاظمی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ہجرت کا روشن ستارہ ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء کو انڈیا کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد محمد سلطان کاظمی انڈین آرمی میں ملازم تھے اور ان کی تعیناتی مختلف مقامات پر رہی اس لیے ناصر کاظمی نے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کی ۔ تعلیم کی تکمیل پر وہ واپس انبالہ چلے گئے اور زمینوں کی دیکھ بھال شروع کر دی ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور مختلف صحافتی اداروں سے منسلک رہے ۔ وہ ماہنامہ ” ہمایوں ” کے چیف ایڈیٹر بھی رہے ۔ کچھ عرصہ ریڈیو پاکستان لاہور میں بھی ملازمت کی ۔
ناصر کی غزلوں میں قدیم رنگ اور جدید رومانی رویوں کا امتزاج ملتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک کے عروج میں جب نظم زوروں پر تھی تو ناصر نے غزل کی ساکھ کو قائم رکھا ۔ ان کی غزل میں میر کے طرزِ ادا کے ساتھ ساتھ ان کا طرزِ احساس بھی ملتا ہے ۔ پاکستان کا قیام ایک طرف تو مسلمانوں کے لیے ایک عظیم واقعہ ہے لیکن دوسری طرف بدترین فسادات ، قتل و غارت گری ، دہشت گردی اور اپنی مٹی سے ہجرت اس کے الم ناک پہلو بھی ہیں ۔ ان حالات نے اوروں کی طرح ناصر کاظمی کے دل و دماغ پر بھی برے اثرات مرتب کیے ۔ ان کی غزلوں میں اعلیٰ اقدار کی شکست کا ماتم ہے ۔ حزن و یاس محرومی اور ناکامی کے احساس کے ساتھ معاشرے کی منفی قدروں پر طنز اور تلخی کا اظہار ان کی غزل میں نمایاں نظر آتا ہے ۔ ناصر کی شاعری میں سادگی اور دلکشی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی بحروں اور سادہ الفاظ میں وہ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں ۔ ہجرت کا یہ ستارہ سید ناصر رضا کاظمی 2 مارچ 1972ء کو ہم سے جُدا ہو گیا اور لاہور میں انہیں دفن کر دیا گیا ۔
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے کہ اب یاد نہیں
تصانیف : برگ نے ، خشک چشمے کے کنارے ، دیوان ، پہلی بارش ، نشاطِ خواب اور سر کی چھایا وغیرہ ۔
8 ۔سید احمد شاہ احمد فراز
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
ابتدائی تعارف: سید احمد شاہ احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام سید محمد شاہ برق تھا جو خود بھی اردو اور فارسی کے اچھے شاعر تھے ۔ اس لحاظ سے فراز نے ایک ادبی ماحول میں انک کھو لی احمد فراز نے ایڈورڈ ز کالج پشاور سے بی ۔ اے کا امتحان پاس کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے اردو اور فارسی میں ایم ۔ اے کیا ۔ کچھ عرصہ اسی یونیورسٹی میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے ۔ اس کے علاوہ اکادمی ادویات کے ڈائریکٹر اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سربراہ بھی رہے ۔
عملی زندگی : احمد فراز آزادی اظہار کے قائل تھے اسی وجہ سے انہیں فوجی حکومتوں میں شدید تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا یہاں تک کہ 2004 میں ملنے والا اعزاز ” ہلال امتیاز ” انہوں نے اس بنا پر واپس کر دیا کہ حکومت انسانی حقوق کی کھلم کھلی خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ اسی طرح کوہاٹ میں موجود پبلک لائبریری کو پلازے میں تبدیل کرنے پر وہ اس قدر دل برداشتہ تھے کہ انہوں نے وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد کوہاٹ میں دفن نہ کیا جائے ۔
شاعری: احمد فراز کی شاعری کو جتنا قبول عام حاصل ہوا شاید یہ کسی اور کو حاصل ہوا ہوگا سہل ممتنع میں شعر کہنا اور پھر اسے عوام و خاص کے ذہن میں مرتسم کرنا احمد فراز کے لیے بے حد آسان کام تھا ۔ ان کے کلام میں شگفتگی کے ساتھ ساتھ قدرے تفکر بھی پایا جاتا ہے ۔ سماجی ناانصافیوں پر احتجاج تقریباً ہر شاعر کا موضوع رہا ہے لیکن احمد فراز کے ہاں یہ رنگ سب سے جدا ہے ان کی شاعری کے 13 مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔
25 اگست 2008ء کو احمد فراز ہمیں داغ مفارقت دے گئے اور انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔
تصانیف : تنہا تنہا ، درد آشوب ، نایافت ، شب خون ، میرے خوا ب ریزہ ریزہ ، جاناں جاناں ، بے آواز گلی کوچوں میں ، نابینہ شہر میں آئینہ ،سب آوازیں میری ہیں ، پس انداز موسم ، خواب گل پریشاں ہے ، غزل بہانہ کروں اور عشق جنوں پیشہ وغیرہ ۔
سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے
9 ۔ احمد ندیم قاسمی
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
ابتدائی تعارف : احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا ۔ وہ پاکستان کے شہر خوشاب کے قصبہ انگہ میں 20 نومبر 1916ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام پیر غلام نبی تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی اور صادق ایجرٹن کالج بہاولپور سے بی ۔ اے کا امتحان پاس کیا ۔
عملی زندگی : شادی کے بعد انہوں نے محکمہ آب کاری میں بطور سب انسپیکٹر ملازمت کا آغاز کیا ۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں ۔ وہ ایک بلند پایا شاعر ، منفرد افسانہ نگار ،ممتاز صحافی اور عمدہ نقاد تھے ۔ احمد ندیم قاسمی کی شخصیت پر ان کے چچا بہادر حیدر شاہ کا گہرا اثر تھا ۔ ان کے چچا علامہ اقبال کے ہم سبق تھے ۔ اس طرح احمد ندیم کو شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی ۔
صحافتی خدمات : احمد ندیم نے صحافت میں بھی دلچسپی لی انھوں نے کئی ادبی رسائل شائع کیے جن میں پھول ، تعلیم نسواں ، نقوش ، سحر ، فنون اور روز نامہ امروز شامل ہیں بلکہ ” فنون ” تو ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا ۔ وہ ” حرف و حکایت ” کے نام سے اخبارات میں فکاہیہ کالم بھی لکھتے رہے ۔
بطور افسانہ نگار : احمد ندیم کا پہلا افسانہ ” بد نصیب بت تراش ” ہے ۔ احمد ندیم کی تحریر سادہ اور رواں ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع دیہات کے رہنے والے عام لوگوں کے مسائل اور جذبات ہیں ۔ محبت کا جذبہ ایک فطری حقیقت ہے ۔ دیہات کے لوگ محنتی ، جفاکش اور زندگی کی بہت سی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں لیکن محبت کا جذبہ ان کے ہاں بھی کار فرما ہوتا ہے ، اور یہی حقیقت احمد ندیم قاسمی کا موضوع ہے ۔ ان کے افسانوں میں حقیقی زندگی کا عکس ملتا ہے اگرچہ احمد ندیم قاسمی کی زیادہ تر توجہ افسانہ نگاری پر رہی اور انہوں نے افسانے مسلسل لکھے لیکن ان سے ان کے شاعرانہ عظمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ۔
بطور شاعر : وہ نہ صرف اچھا افسانہ لکھتے تھے بلکہ ایک اچھے شاعر بھی تھے ۔ ان کی شاعری میں ایک طرف کلاسیکی سج دھج ہے تو دوسری طرف جدید انداز و آہنگ بھی موجود ہے ۔ ان کی شاعری میں عصری آگاہی کا شعور ملتا ہے ۔ ان کی بعض نظمیں موسیقیت کے حوالے سے بڑی پر اثر ہیں ۔ انھوں نے نظم اور غزل دونوں میں کام کیا اور دونوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ، تاہم ان کی پہچان غزل کے حوالے سے ہے ۔ ان کے مجموعہ کلام ” دشت وفا ” پر انہیں آدم جی ایوارڈ بھی ملا ہے ۔
نثری تصانیف : چوپال ، بگولے ، طلوع و غروب ، گرداب ، آنچل ، سیلاب ، آبلے ، در و دیوار ، سناٹا ، بازار حیات ، برگ حنا ، گھر سے گھر تک ،کپاس کا پھول اور نیلا پتھر وغیرہ ۔
وفات : احمد ندیم قاسمی 20 جولائی 2006ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ ان کا مزار لاہور میں ہے ۔
مجموعہ کلام شاعری : دھڑکنیں ، رم جھم ،شعلہ گل ، دشت وفا ، محیط ، دوام اور لوحِ خاک اور بسیط وغیرہ ۔
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کر جاؤں گا
10 ۔ سید حسن رضوی شکیب جلالی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دل کشی نہ رہی
ابتدائی تعارف : سید حسن رضوی شکیب جلالی
یکم اکتوبر 1934ء کو اتر پردیش علی گڑھ کے ایک قصبے سیدانہ جلال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے شعور کی آنکھیں بدایوں میں کھولیں جہاں ان کے والد ملازمت کے سلسلے میں تعینات تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بدایوں میں حاصل کی ۔ شکیب جلالی کی معاشی حالت شروع سے ہی بہت خراب تھی ۔ والد کی بیماری کے باعث سارے گھر کی ذمہ داری ان پر آن پڑی ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور لاہور سے بی ۔ اے کیا ۔
عملی زندگی: ابتدا میں رسائل کے دفاتر میں ملازمت کی ، پھر محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے ۔ ان کی تمام زندگی کرب و ملال اور تلخیوں میں گزری ۔ وہ ابھی 9 سال کے تھے کہ ان کے والد نے شکیب جلالی کی والدہ کو ٹرین کے سامنے دھکا دیا جس سے ان کی موت واقع ہوئی ۔ یہ صدمہ تا دم مرگ شکیب جلالی کے قلب و اذہان پر چھایا رہا ۔ وہ اکثر بیمار رہا کرتے تھے اور آخر میں کئی ذہنی و نفسیاتی امراض کا شکار ہو گئے ۔ وہ صرف 32 برس کی عمر میں اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے ۔
ادبی خدمات : شکیب جلالی کا مجموعہ کلام ” روشنی اے روشنی ” بہت جلد مقبول ہوا اور اس کے اکثر اشعار زبان زد خاص و عام ہو گئے ۔ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز اس وقت کیا ۔ جب اردو غزل نئے امکانات اور تجربات سے گزر رہی تھی ذہنی اور فکری رویوں میں تبدیلی آ رہی تھی ۔ اس دور میں ایسے شعراء قابل قدر جانے جاتے تھے جن کے ہاں عصری شعور کے ساتھ ساتھ تجربات اور مشاہدات میں بھی جدت نظر آئے ۔ جدید رحجانات کے باعث شکیب جلالی بہت جلد ممتاز ہو گئے ۔
صحافتی خدمات :
شکیب جلالی پہلے راولپنڈی اور پھر لاہور آ گئے یہاں سے انھوں نے ایک رسالہ ” جاوید ” نکالا لیکن چند شماروں کے بعد ہی یہ رسالہ بند ہو گیا۔ پھر “مغربی پاکستان” نام کے سرکاری رسالے سے وابستہ ہوئے اور جلد ہی مغربی پاکستان کو بھی چھوڑ کر کسی اور اخبار سے وابستہ ہو گئے ۔
وجہ شہرت : وہ آسان زبان کے شاعر سمجھے جاتے تھے لیکن ان آسان الفاظ میں بھی معنوی تہ داری موجود ہے ۔ شکیب جلالی نے چند ایک نظمیں بھی کہیں لیکن ان کی اصل مہارت غزل کے میدان میں ہے ۔
مجموعہ ہائے کلام : روشنی اے روشنی
وفات :
شکیب جلالی 12 نومبر 1966 ء کو ایک خوب صورت شام ساڑھے تین بجے وہ گھر سے نکل گئے، ساڑھے پانچ بجے اطلاع گئی کہ انھوں نے خود کو ٹرین کے آگے گرا کر خودکشی کر لی ہے۔ وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے جہاں ان کی وفات ہو گئی۔
فصیل جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
11 ۔ ظفر اقبال
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
ابتدائی زندگی :ظفر اقبال پاکستان کے مشہور شاعر اور کالم نگار ہیں۔ وہ معاصر جدید اردو غزل کے اہم ترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بیٹے آفتاب اقبال معروف ٹی وی اینکر ہیں ۔ ظفر اقبال 27 ستمبر 1933ء میں اوکاڑا میں پیدا ہوئے ۔ ظفر اقبال کی شاعری کا سفر نصف صدی سے زیادہ ہے ۔ ابتدا میں وہ غزل کی روایات سے کبھی قریب اور کبھی دور ہوئے آخر کار غزل کی روایات کے سحر سے آزاد ہو گئے لیکن اس سفر میں انہیں کڑے مراحل سے گزرنا پڑا ۔ اردو ادب کا عام قاری اور تخلیق نگار اردو غزل کی روایات کا ایسا اسیر ہے کہ وہ اس طلمساتی فضا سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ گزشتہ صدیوں میں حالی اور انشاء نے غزل کی روایت کو توڑنے کی کوشش ضرور کی لیکن ان کوششوں کی بنا پر غزل میں تو کیا تبدیلی آتی اردو غزل میں حالی اور انشاء اپنے مقام سے محروم ہو گئے ۔
وجہ شہرت : ظفر اقبال کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل کی صدیوں پرانی روایتی فضا اور غزل کی موروثی جمالیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے ۔ اس لیے ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا ادبی مرتد اور روایتی غزل کی غلامی سے آزاد ہونے والا پہلا شاعر کہا ہے ۔
ظفر اقبال تاحال بقیدِ حیات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
مجموعہ ہائے کلام : تمجید ، تقویم ، تشکیل ، تجاوز ، توارد ، تساہل ، آب روا ، ہٹے ہنومان ، رطب و یاس ، اطراف اور عیب و ہنر وغیرہ ۔
روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے
12 ۔ شہزاد احمد
اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں
لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے
پیدائش :
شہزاد احمد نے 16 اپریل 1932ء کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان کے فرد ڈاکٹر حافظ بشیر کے گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ شہزاد احمد کے والد نے طب کے موضوع پر اردو میں کئی کتابیں تحریر کیں ۔ شہزاد احمد نے میٹرک کا امتحان امرتسر سے پاس کیا ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہوا ۔ انھوں نے ایم ۔ اے ۔ او کالج لاہور سے بی ۔ اے کیا اور اس کے بعد فلسفہ اور نفسیات میں ایم ۔ اے کیا ۔
عملی زندگی : حصول رزق کے لیے انھوں نے مختلف ملازمتیں کیں وہ مختلف رسائل میں لکھتے رہے ۔ ان کے علاوہ محمود شام کے ساتھ مل کر ایک رسالے ” معیار ” کا بھی اجراء کیا ۔ انھیں 1997ء میں صدارتی ایوارڈ برائے ” حسن کارکردگی ” عطا کیا گیا ۔ اردو کے جدید شعراء میں ایک اہم نام شہزاد احمد ہے ۔ جنھوں نے زندگی کے بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ وہ جذباتی سطح پر متوازن ، تخلیقی سطح پر متحرک اور مکرمی سطح پر فعال ہیں ۔
اسلوب بیاں : اسلوب کی تازہ کاری سے انھوں نے غزل کو نئی جہت سے آشنا کیا ۔ ان کا تخلیقی عمل صرف اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتا بلکہ انہوں نے انسانی مسائل اور عالم گیر حقائق کی روشنی میں اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے ہاں انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کے ساتھ حالات و واقعات کا خارجی و داخلی آہنگ بھی موجود ہے ۔ انہوں نے علم مطالعہ اور احساس و تخیل سے انسانی فطرت کو جاننے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی غزل ان کے ہاں لوگوں کا نوحہ ہے جن میں منافقت رچی بسی ہے اور احساس زیاں سے عاری ہیں ۔ کبھی کبھی سائنسی ، نفسیاتی اور فلسفیانہ افکار کی کثرت سے غزل کی روایات مجروح ہوتی نظر آتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی انھوں نے غزل کی روایات کی پاسداری کی ہے ۔ ڈاکٹر انور سدید نے انہیں نئی غزل کا مزاج دان کہا ہے ۔
شاعری: ہماری شاعری کا بنیادی موضوع محبت اور اس سے وابستہ احساسات و جذبات کا فنکارانہ اظہار ہے ۔ شہزاد احمد اردو کا پہلا غزل گو ہے جس نے غزل کے اس بنیادی موضوع کو تجربے کے علاوہ علم کی سطح پر بھی برتا ہے اور یوں وہ محبت کی نفسیات کا ماہر غزل گو تسلیم کیا گیا ہے۔
تصانیف : صدف ، جلتی بجتی آنکھیں ، آدھ کھلا دریچہ ، خالی آسمان ، بچھڑ جانے کی رت ، دیوار پہ دستک ، ٹوٹا ہوا پل ، کون اسے جاتا دیکھے ، پیشانی میں سورج اترے ، میری خاک پہ ستارہ اور اسلامی فکر کی نئی تشکیل وغیرہ ۔
وفات : شہزاد احمد کا انتقال یکم اگست 2012ء بمطابق 12 رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 80 برس تھی۔ شہزاد احمد نے سوگواران میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں ۔
چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک
لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے
13 ۔ خواجہ حیدر علی آتش
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
ابتدائی زندگی: خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے ۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہ جہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کرکے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت 1764ء کو یہیں ہوئی ۔خواجہ حیدر آتش کو نقادوں نے بالا اتفاق لکھنو کا صحیح نمائندہ شاعر قرار دیا ہے ۔
اسلوب بیاں: آتش کو عبوری دور کا شاعر بھی کہا جاتا ہے ۔ اس واسطے کہ ان کے کلام میں دونوں دبستانوں( دلی اور لکھنؤ) کی شعری روایات اور خصوصیات بالعموم ملتی ہیں ۔ آتش کے ہاں لکھنویت عام لکھنؤی شاعروں سے بہت مختلف ہے ۔ اس میں وہ عریانی اور فحاشی نہیں ہے جو لکھنؤ شعراء کا وصف ہے بلکہ اس کے مقابلے میں ایک سنبھلا سنبھلا سا انداز ہے ۔ آتش مصحفی کے شاگرد تھے ۔ اس لیے ان کی طرح عام لکھنؤی طرز سے دامن بچا لیتے ہیں ۔ آتش کی زبان صاف اور شستہ ہے ۔ حسن تغزل ، صنائع بدائع کا ماہرانہ استعمال ، صوفیانہ رنگ ، آتش بیانی اور تشبیہات و استعارات آتش کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ سب سے اہم بات ان کا پر امید لہجہ ہے جس میں عیش کوشی کی جگہ عمل اور جدو جہد کا پیغام ہے ۔ وہ خوشی اور غم دونوں میں تحمل مزاجی سے کام لے کر عمل اور حرکت کے پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ ان کی شاعری میں انسان کی عظمت اور زندگی کا والہانہ پیار کا اظہار ہے ۔
وفات : آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا اور ان کو ان اپنے گھر ہی دفن کیا گیا ۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔
تصانیف: آتش نے دو دیوان اردو زبان کو دیے ۔ ایک دیوان ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا اور دوسرا ان کی موت کے بعد ان کے ایک دوست ” میر دوست خلیل علی ” نے شائع کروا کر دوسرے دیوان کے ساتھ ملا دیا ۔
گر کبھی رونا ہی پڑ جائے تو اتنا رونا
آ کے برسات ترے سامنے توبہ کر لے
14 ۔ شیخ ابراہیم ذوق
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
ابتدائی تعارف: ابراہیم ذوق 22 اگست 1790ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ محمد رمضان مغل فوج میں ایک معمولی سپاہی تھے۔ ابراہیم ذوق کا بچپن غربت میں گزرا اور وہ بچپن میں چیچک کا شکار بھی ہوئے لیکن وہ اس بیماری سے صحت یاب ہو گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایک مقامی مدرسے میں ہوئی۔ حافظ غلام رسول ان کے استاد تھے حافظ غلام رسول خود بھی شاعر تھے اور “شوق” تخلص کرتے تھے۔ انہی کی وجہ ذوق کو شاعری کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے ہی ذوق کو “ذوق” تخلص دیا۔
اسلوب بیاں : استاد ذوق بلند پایا قصیدہ نگار اور غزل گو تھے ۔ غزل میں داخلی جذبات کیفیات کی بجائے بیان اظہار اور زبان پر زور دیتے ہیں ۔ ان کی زبان صاف ستھری کوثر و تسلیم میں دھلی ہوئی دلی کی ٹکسالی زبان ہے ۔ انتخاب الفاظ اور محاورات اور ان کے بر محل استعمال پر خاص قدرت رکھتے ہیں ۔ روانی ، موسیقی ، مضامین کی بلندی اور زور تخیل ان کی شاعری کی بنیادی وصف ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں لکھے گئے ان کے قصائد ، مضامین کے تنوع زور بیاں اور نادر الوجود تشبیہات اور خوش الفاظ و ترکیب کی وجہ سے انتہائی قابل قدر خیال کیے جاتے ہیں ۔
وفات : 16 نومبر 1854ء کو دہلی میں ذوق نے وفات پائی۔ ان کی قبر دہلی کے بوسیدہ پہاڑی علاقے گنج میں واقع ہے۔ ان کا مزار بحال کیا گیا ہے لیکن بد قسمتی سے ان کی رہائش گاہ کی شناخت نہیں ہو سکی ۔
تصانیف: کلیات ذوق اور دیوان ذوق کے نام سے ان کے دو دیوان اُردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
15 ۔ مومن خان مومن
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
ابتدائی تعارف :
مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اور حکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن دہلی 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے ۔ مومن غزل گو شاعر ہیں ۔ جن کی تمام تر عظمت و بڑھائی کا انحصار ان کی غزل پر ہے ۔
اسلوب بیاں: اگرچہ مومن نے عربی و فارسی ، طب، نجوم، اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی، واسوخت ، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے مگر ان کا اصل میدان غزل ہی رہی ۔ چونکہ شاعری کا میدان صرف غزل ہے اس لیے ان کے ہاں موضوعات کا تنوع نہیں صرف عشق و عاشقی کی معاملہ بندی ، حسن و جمال ، رشک و حسرت اور انھیں سے متعلق دیگر مضامین مومن کی غزل کا موضوع ہیں ۔ اس اعتبار سے مومن کے ہاں ایک محدودیت کا سا احساس ہوتا ہے اور تکرار مضامین بھی لیکن اس کے باوجود غالب اور ذوق جیسے بڑے شاعروں کی موجودگی میں اپنی انفرادیت کو نہ صرف قائم رکھنا بلکہ اپنے فن کو منوا لینا بہت بڑی بات ہے چنانچہ مومن نے خود کو منوایا ۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
اس شعر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ غالب کو اتنا پسند آیا کہ اس شعر کے بدلے وہ پورا دیوان دینے پر رضا مند ہو گئے کہ مومن میرا پورا دیوان لے لے اور بدلے میں مجھے صرف یہ ایک شعر دے دے ۔
وہ خود قلندرانہ اور درویشانہ مزاج کے انسان تھے ۔ اس لیے ان کی شاعری کا رنگ بھی درویشانہ ہے ۔ روایتی غزل کے تقاضوں کی حدود میں رہتے ہوئے مومن نے غزل کو روانی اور توانائی دی ۔ ان کی غزل کا مخصوص لب و لہجہ انھیں کی انفرادیت ہے ۔ تذکرہ نگاروں اور نقادوں کا بھرپور اعتراف اور خراجِ تحسین مومن کی بڑائی کی دلیل ہے ۔
وفات : مومن نے 1852ء میں اپنے کوٹھے کی چھت سے گر کر دہلی میں ہی وفات پائی ۔
تصانیف : مومن خان مومن نے ایک دیوان اور چھ مثنویاں اردو ادب میں اپنی یادگار چھوڑیں ہیں جو آج بھی اردو کا سرمایہ گردانا جاتا ہے ۔
وہ جو ہم میں تم قرار تھا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
16 ۔ سید حسرت موہانی
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
ابتدائی تعارف:
یکم جون 1875ء کو
حسرت موہانی لکھنو کے قریب ایک قصبہ موہان میں پیدا ہوئے۔ والد اظہر حسین ایک جاگیر دار تھے اور فتح پور میں رہتے تھے۔ حسرت کا زیادہ تر بچپن ننہال میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرنے کے بعد مڈل اسکول ، ہائی اسکول اور انٹر کے امتحان میں وظیفہ کے حقدار بنے ۔ وہ ایک بلند پایہ شاعر ایک عظیم سیاستداں، ایک صوفی بزرگ ، درویش ، مجاہد، ایک صحافی، نقاد و محقق ، کانگریسی، مسلم لیگی، کمیونسٹ اور جمیعت علما کی بہت سی شخصیات میں نمایاں رہے ۔
اسلوبِ بیان: سید حسرت موہانی جدید اردو غزل میں ایک اہم مقام اور امتیازی شان رکھتے ہیں حسرت نے سیاست کو واضح طور پر غزل کے مضمون میں شامل کر کے اس میں ایک مستقل اضافہ کیا ہے ۔ ان کی غزل شگفتگی ، بیان جولانی ، فکر عشق کی رنگینی و رعنائی اور حسن اور سوز و گداز کا ایک خوبصورت مرقع ہے ۔ حسرت نے اردو غزل کو ایک نیا لہجہ اور نئی توانائی عطا کی ہے ۔ قدیم اساتذہ فن کے مطالعے نے ان کی غزل میں ایک درد ، گداز اور برجستگی کی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔
حسرت کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ حسرت نے اردو غزل کی آبرو اس وقت برقرار رکھی جب اردو شعراء نظم گوئی کی طرف اس حد تک مائل تھے کہ غزل کے وجود کو خطرات لاحق نظر آنے لگے تھے ۔ ایسے وقت میں حسرت نے غزل کو شگفتہ بیانی رنگینی اور رعنائی کے ساتھ ساتھ آزادی و حریت کی تڑپ کا ترجمان بنایا ۔ یہی خوبی انھیں معاصرین میں نمایاں مقام دلاتی ہے اور اسی وجہ سے انھیں رئیس المتغزلین کے لقب سے نوازا گیا ۔
وفات : سید حسرت موہانی نے 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ انڈیا میں وفات پائی اور وہیں دفن ہیں۔
تصانیف: حسرت موہانی ایک پُر گو شاعر تھے۔ انہوں نے 13 دیوان مرتب کئے اور ہر دیوان پر خود دیباچہ بھی لکھا۔ ان کے اشعار کی تعداد تقریباً سات ہزار ہے جن میں سے زیادہ تر اشعار قید و بند کی صعوبتوں کے دوران لکھے گئے ۔ انگریز کی مخالفت اور قید و بند کی صعوبتیں انھیں ان کے مشن سے باز نہ رکھ سکیں ۔
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
17۔فراق گورکھپوری
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
ابتدائی تعارف: اصل نام رگھوپتی سہائے اور فراق تخلص تھا ۔ فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء بروز جمعہ گورکھپور یو ۔ پی کے ایک کائستھ گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق گھر سے ہی حاصل کی ۔ فارسی اور اردو کا ذوق انہیں ورثہ میں ملا ۔ گھر کا ماحول مشرقی تھا ۔ وہیں سے تعلیم کا آغاز ہوا سات سال کی عمر میں گھر کے قریبی ماڈل سکول میں داخل ہوئے اس کے بعد مشن ہائی سکول چلے گئے ۔ 1913ء میں جبلی ہائی سکول سے میٹرک اور 1915ء میں میور سینٹرل کالج الہ آباد سے ایف ۔اے کیا اور صوبہ بھر میں ساتویں پوزیشن حاصل کی۔ 1918ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ اے کیا اور صوبے میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ 1919ء میں پی۔ سی۔ ایس کا امتحان پاس کر کے ڈپٹی کلیکٹر ہو گئے۔
عملی زندگی: ان کی شاعری کا سفر کالج کے زمانے سے شروع ہو گیا ۔ پہلی غزل انہوں نے 1916ء میں کہی ۔ابتدا میں مجنوں گورکھپوری اور پریم چند سے متاثر ہو کر افسانہ نگاری بھی کی۔ 1930ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم۔ اے انگریزی کے امتحان ریکارڈ نمبروں کے ساتھ پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی میں انگریزی کے لیکچرر ہو گئے۔ 1936ء میں شروع ہونے والی ترقی پسند تحریک سے بھی وابستگی اختیار کی۔ 6 مارچ 1952ء کو پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا۔ زندگی کا بیشتر حصہ الہ آباد یونیورسٹی میں درس و تدریس میں گزرا ۔ 31 دسمبر 1958ء کو یونیورسٹی کی ملازمت سے سبق دوش ہوئے۔ 1959ء سے 1966ء تک یو۔ جی ۔ سی کی طرف سے نیشنل پروفیسر کے عہدے پر کام کیا۔
اسلوب بیاں : بلا شبہ فراق گورکھپوری بیسویں صدی کے ادب کا اہم نمائندہ شاعر ہے ۔ ان کی شہرت بطور ایک شاعر اور نقاد کے پورے بر عظیم میں رہی۔
تصانیف : شعلہ ساز ، مشعل ، رموزِ کنایات ، من آنم ، اردو غزل گوئی ، اندازے ، گل نغمہ ، شبستان ، غزلستان ، شعرستان ، گل بانگ اور پچھلی رات وغیرہ ۔
وفات: تین مارچ 1982ء بروز بدھ دہلی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
سنتے ہیں عشق نام کے گزرے ہیں اک بزرگ
ہم لوگ بھی فقیر اسی سلسلے کے ہیں
18 ۔ سید مسعود الحسن تابش دہلوی
آئینہ جب بھی رو بہ رو آیا
اپنا چہرہ چھپا لیا ہم نے
ابتدائی تعارف: سید مسعود الحسن تابش دہلوی دبستان دہلی کے آخری چراغ اور اردو کے مایہ ناز غزل گو شاعر، دانشور اور براڈکاسٹر تھے۔ تابش دہلوی اپنے مخصوص لب و لہجے کے باعث مشہور تھے ۔
تابش دہلوی نو نومبر 1913ء کو پیدا ہوئے ۔ مسعود الحسن نام اور تابش تخلص ہے دلی میں پیدا ہوئے پہلے محکمہ ڈاک میں ملازمت اختیار کی پھر 1939ء میں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے ۔ پاکستان آنے کے بعد ریڈیو پاکستان لاہور اور بعد میں کراچی سے منسلک رہے ۔ شاعری میں فانی بدایونی سے اصلاح لی ۔ تابش نے ایک غزل گو کی حیثیت سے ایک ایسے دور میں نام پیدا کیا ۔ جب فانی ، فراق ، یگانہ ، اصغر اور جگر جیسی قد اور شخصیات کی غزل گوئی کا طوطی بول رہا تھا ۔ حکومت پاکستان سے انہیں ” نشان پاکستان ” عطا کیا گیا ۔
تصانیف :
ان کے متعدد شعری مجموعے نیم روز ، چراغِ سحر ، غبار انجم ، تقدیس ، ماہ شکستہ اور دھوپ چھاؤں وغیرہ شائع ہو چکے ہیں ۔ اسی طرح مضامین اور یاد داشتوں پر مشتمل تصانیف دیدہ باز دیدہ منظر عام پر آ چکی ہے ۔
وفات : تابش دہلوی نے 23 ستمبر 2004 کو وفات پائی اور کراچی کے سخی حسن قبرستان میں انھیں دفن کیا گیا ۔
شاہوں کی بندگی میں سر بھی نہیں جھکایا
تیرے لیے سراپا آداب ہو گئے ہم
19 ۔ ادا جعفری
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
ابتدائی تعارف : ادا جعفری اردو زبان کی معروف شاعرہ تھیں۔ آپ کی پیدائش 22 اگست 1924ء کو بدایوں میں ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ آپ کا خاندانی نام عزیز جہاں ہے۔ آپ تین سال کی تھیں کہ والد مولوی بدر الحسن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد پرورش ننھیال میں ہوئی۔ ادا جعفری کبھی سکول یا کالج نہیں گئی بلکہ انھیں گھر پر ہی تعلیم دی گئی ۔ والد کا سایہ سر سے اٹھ جانا اور کوئی باقاعدہ سکول و کالج میں تعلیم حاصل نہ کر سکنا ادا جعفری کا بہت بڑا خسارا تھا ۔ جس کی انھیں بڑی حسرت رہی ۔ ادا جعفری نے تیرہ برس کی عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ وہ ادا بدایونی کے نام سے شعر کہتی تھیں۔ اس وقت حسرت موہانی کے ادبی رسالے” رومان ” میں ان کا کلام تواتر سے شائع ہوتا تھا ۔ رومان کے علاوہ اور ادبی رسالوں میں بھی ان کا کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔ آپ کی شادی 1947ء میں اعلیٰ آفیسر نور الحسن جعفری سے انجام پائی۔ شادی کے بعد ادا جعفری کے نام سے لکھنے لگی ۔
ادبی خدمات: ادا جعفری موجودہ دور کی وہ شاعرہ ہیں جن کا شمار بہ اعتبار طویل مشق سخن اور ریاضت فن کے صف اول کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے۔ پروین شاکر اور ادا جعفری دو ایسی شاعرات ہیں جن کی غزلیں اور نظمیں نصاب کا حصہ بن چکی ہیں ۔ شاعری کے علاوہ ادا جعفری ایک اچھی نثر نگار اور افسانہ نگار بھی ہیں ۔ اس کے علاوہ ادا جعفری نے جاپانی صنف ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی ہے ۔ ” ساز سخن بہانہ ہے ” مجموعہ ہائیکو پر ہی مشتمل ہے ۔مگر ان کا اصل میدان شاعری ہے وہ کم و بیش پچاس سال سے شعر کہہ رہی ہیں۔ گاہے گاہے یا بطرز تفریح طبع نہیں بلکہ تواتر و کمال احتیاط کے ساتھ کہہ رہی ہیں اور جو کچھ کہہ رہی ہیں شعور حیات اور دل آویزی فن کے سائے میں کہہ رہی ہیں جس سے شعر و ادب کے میدان میں ان کے کلام کو سراہا جا رہا ہے ۔ وہ جو کچھ کہ رہی ہیں حرف و صوت کی شگفتگی اور فکر و خیال کی تازگی کے ساتھ کہہ رہی ہیں۔ فکر و جذبے کے اس ارتعاش کے ساتھ کہہ رہی ہیں جس کی بدولت آج وہ ہمارے نصاب کا بھی حصہ ہیں ۔
خاتون اول : مشہور شاعر اور نقاد فرمان فتح پوری نے ادا جعفری کو ” اردو شاعری کی خاتون اول ” کا نام دیا ۔ اگرچہ اس وجہ سے ادبی حلقوں میں بڑی تنقید بھی ہوئی جس کا فرمان فتح پوری نے دفاع بھی کیا ۔ اسی طرح میری بھی ناقص رائے کے مطابق وہ اس تعریف کی حقدار بھی تھیں ۔
تصانیف: میں ساز ڈھونڈتی رہی ، شہر درد ، غزالاں تم تو واقف ہو ، حرف شناسائی ، ساز سخن بہانہ ہے ، موسم موسم اور جو رہی سو بے خبر رہی ۔
وفات : ادا جعفری مختصر علالت کے بعد 12 مارچ،2015ء کو کراچی میں انتقال فرما گئیں ۔
اک راہ رک گئی تو ٹھٹک کیوں گئیں اداؔ
آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی
20 پروین شاکر
کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
ابتدائی حالاتِ زندگی :
پروین شاکر کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ اور خوشبوؤں کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے ۔ پروین شاکر 24 نومبر 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل وطن بہار کے ضلع دربھنگہ میں لہریا سراے تھا۔ ان کے والد شاکر حسین ثاقب جو خود بھی شاعر تھے قیام پاکستان کے بعد کراچی میں آباد ہو گئے تھے۔ اسی طرح پروین شاکر کے نانا بھی ادبی ذوق کے حامل انسان تھے ۔ پروین شاکر دور طالب علمی میں اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی زبان و ادب میں گریجویشن کیا اور بعد میں انھیں مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ پروین کم عمری سے ہی شاعری کرنے لگی تھیں اور پروین شاکر کی خوش قسمتی یہ تھی کہ شاعری میں ان کو اپنے والد کی مکمل حوصلہ افزائی حاصل تھی ۔
ادبی زندگی: پروین شاکر نے جب ادبی اور عملی زندگی میں قدم رکھا تو ان کا زیادہ تر وقت تنہائی میں گزرنے لگا ۔ ادبی لوگوں سے خط و کتابت ہوتی ۔ احمد ندیم قاسمی ، جن کو وہ چچا ( عمو ) کہا کرتی تھیں ان کے رسالے ” فنون” میں ” بینا ” کے نام سے کالم لکھا کرتی تھیں ۔ اپنے ایک خط میں صدیقی صاحب کو لکھتی ہیں ” مجھے تو روشنی کی بس ایک ہی کرن نظر آتی ہے اور وہ ہے فن۔ مثلاً میں نے یہ جان لیا ہے کہ اللہ نے میری تخلیق اس لیے کی ہے کہ میں شعر کہوں۔ بعض لوگ ساری عمر اپنے کو نہیں شناخت کرسکتے۔ اب یہ ہوا کہ مجھے ایک مقصد مل گیا ایک positive کام ۔ سو اب میں یہ چاہوں گی کہ شعر مجھ سے زیادہ عمر پائیں۔ میری مجبوری تو طبعی ہے ۔ عناصر میں اعتدال کب تک رہ سکتا ہے مگر یہ اشعار ایسی کسی مجبوری سے دو چار نہیں ہونے چاہیے ” ۔
یہ حقیقت ہے کہ پروین شاکر آج ہم میں موجود نہیں ہے لیکن اس کے اشعار آج بھی اس کے ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔
تصانیف: خوشبو ،صد برگ ،خود کلامی ،انکار ، کف آئینہ اور ماہ تمام وغیرہ ۔
وفات : پروین شاکر نے 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پائی ۔تفصیل کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہو گئیں اور جلد ہی انھیں قریبی اسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔ پروین شاکر کو اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان H – 8 میں دفن
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
اس کے بعد ہم باری باری ہر ایک شاعر کو تفصیل سے بیان کریں گے ۔ ان شاءاللہ
نوٹ : اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.