آج کی اس پوسٹ میں ہم شاعر مشرق جناب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا مختصر تعارف اور ان کے چند مشہور اشعار اور نظمیں شامل کریں گے ۔
علامہ اقبال کا مختصر تعارف: آپ کا پورا نام شیخ محمد اقبال تھا اور اقبال ان کا تخلص تھا۔ اقبال کو حکیم الامت اور شاعرِ مشرق کے القاب بھی عطا کیے گئے۔ علامہ اقبال کا تعلق ایک کشمیری برہمن سے تھا۔ ان کے اجداد میں بابا صالح نے سترہویں صدی عیسوی میں اسلام قبول کیا۔اقبال کی پیدائش سیالکوٹ میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو ہوئی۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمدتھا۔ اقبال نے ابتدائی تعلیم مکتب ’عمر شاہ‘ میں حاصل کی۔ اس کے بعد ۱۸۸۳ میں انہوں نے اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں داخلہ لیا۔۱۸۹۳ میں انہوں نے میٹرک اور ۱۸۹۵ میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۷ میں علامہ اقبال نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۹ میں اسی کالج سے انہوں نے فلسفے میں ایم۔اے کیا۔ایم۔اے میں ان کے استاد پروفیسر آرنلڈ تھے جس سے اقبال کافی مستفید ہوئے۔ نظم ’نالۂ فراق‘‘ انہی کی یاد میں انہوں نے لکھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسی کالج میں علامہ اقبال اسسٹینٹ پروفیسر مقرر کیے گئے۔ اس کے بعد اعلی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے علامہ اقبال ۱۹۰۵ میں یورپ گئے۔وہاں کیمبرج یونیورسٹی میں انہوں نے داخلہ لیا۔ ۱۹۰۷ یا ۱۹۰۸ میں انہوں نے جرمنی کے میونخ یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری کے لیے اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا جس کا عنوان ’’ایران میں علم ما بعد الطبیعات کا ارتقا‘‘ ہے۔ ۱۹۰۸ میں اقبالؔ واپس ہندوستان آئے۔ ۱۹۲۳ میں حکومت کی طرف سے انہیں ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا گیا۔ ۱۹۳۱ میں انہوں نے دوسری گول میز کانفرنس لندن میں شرکت کی ۔ اسی طرح ۱۹۳۲ کی تیسری گول میز کانفرنس میں بھی اقبالؔ شریک ہوئے۔
علامہ اقبال کو مختلف یونیورسٹیوں کی جانب سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں بھی عطا کی گئیں۔ ۱۹۲۹ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے،۱۹۳۳ میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے، ۱۹۳۶ میں ڈھاکہ یونیورسٹی کی جانب سے، ۱۹۳۷ میں الٰہ آباد یونیورسٹی کی جانب سے اور ۱۹۳۸ میں عثمانیہ یونیورسٹی کی طرف سے انہیں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں عطا کی گئیں۔علامہ اقبالؔ کا انتقال ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ کو لاہور میں ہوا۔
: علامہ اقبال کی شعر گوئی
علامہ اقبال اردو زبان کے ایک عظیم شاعر تھے۔ انہوں نے نظمیں اور غزلیں بھی کہیں۔ لیکن نظم نگاری میں انہیں کافی شہرت ملی۔ انہوں نے اپنی شاعری کو بامقصد بنایا۔ خاص کر اپنی شاعری کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی موجود ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں فلسفے کو بھی پیش کیا ہے۔ خصوصاً عرفان ذات اور خودی کا فلسفہ ان کے یہاں غالب نظر آتا ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے اشعار مختلف ادوار پر محیط ہیں۔ ان میں تین ادوار قابل ذکر ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری کا پہلا دور:
علامہ اقبال کی شاعری کے پہلے دور کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شاعری کا آغاز پنجابی میں کیا۔ جب ان کے استاد مولوی میر حسن نے ان کو اردو میں شعر گوئی کا مشورہ دیا تو انہوں نے اردو میں شعر کہنا شروع کیا۔ پھر جلد ہی انہوں نے جلسوں اور مشاعروں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ ’نالہ یتیم‘ ان کی مشہور نظم ہے جو ان کی ابتدائی نظم ہے۔ اس نظم کے ذریعے اقبال کو کافی شہرت حاصل ہوئی۔ اسی نظم کے ذریعے انہوں نے باقاعدہ نظم نگاری کا آغاز کیا۔
اقبالؔ کے پہلے دور کی شاعری کا مطالعہ بتاتا ہے کہ شروع میں ان کا رجحان غزل گوئی کی طرف بھی رہا۔ ان ابتدائی غزلوں میں ان کے استاد داغ دہلوی کے اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن اقبالؔ کا اصل میدان نظم نگاری ہے۔ ان کی پہلی مطبوعہ نظم ’ہمالہ‘ ہے۔ اقبال کی ابتدائی نظموں میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت، ترانہ ہندی اور جگنو وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اقبال کی ابتدائی نظموں میں مناظر قدرت، وطنیت،قومیت کے موضوعات کثرت سے نظر آتے ہیں۔
اقبال کی شاعری کا دوسرا دور:
۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک کی اقبال کی شاعری کو دوسرے دور میں رکھا گیا ہے۔ اس دور کی شاعری میں مختلف تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔اس دور کی شاعری میں معاشرتی اور سیاسی مسائل بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح ملک، ملت اور قوم کے نام ان کا پیغام بھی غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں پیامی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔
اقبال کی شاعری کا تیسرا دور:
اقبال کی شاعری کا تیسرا دور اقبال کے سفر یورپ کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کی شاعری میں ملت اور قوم کو بیدار کرنے کا جذبہ بہت واضح نظر آتا ہے۔ انہوں نے انگریزوں اور ان کی پالیسیوں کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے۔ خاص کر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشوں کا پردہ فاش کیا ہے۔اسی طرح انہوں نے مسلمانوں کے دلی جذبات کی ترجمانی بھی کی ہے۔ مسلمان احساس کمتری کا شکار ہونے لگے تھے، اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے انہیں ماضی کی یاد دلائی اور ان کی خودی کو ابھارا۔ اس دور کی شاعری میں اقبال کے فلسفیانہ خیالات و افکار میں وسعت دیکھی جاسکتی ہے ۔
علامہ محمد اقبال کے منتخب اشعار اور مختصر نظمیں :
يہ سحر جو کبھي فردا ہے کبھي ہے امروز
نہيں معلوم کہ ہوتي ہے کہاں سے پيدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتي ہے بندہ مومن کي اذاں سے پيدا
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرخاکی میں جاں پیدا کرے
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگي
دل مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرض کہن کا چارہ
خیرہ کر نہ سکا مُجھے جلوہء دانش فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبيري
کہ فقر خانقاہي ہے فقط اندوہ و دلگيري
ترے دين و ادب سے آ رہي ہے بوئے رہباني
يہي ہے مرنے والي امتوں کا عالم پيري
میں کھاں رکتا ھوں عرش و فرش کی آواز سے
مجھ کو جانا ھے بھت اونچا حد پرواز سے
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلا کی اذان اور مجاھد کی اذان اور
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ھے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ھے مجھ کو
ازل سے ھے فطرت میری راہبانہ
نہ باد بہاری، نہ گل چیں ، نہ بلبل
نہ بیماریء نغمہ ء عاشقانہ
خیابانیوں سے ھے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
ہواءے بیاباں سے ہوتی ھے کاری
جوانمرد کی ضربت غازیانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باز کی زاھدانہ
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب، یہ پچھم، چکوروں کی دنیا
مرا نیلگوں آسماں بیکرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ھوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ رسم ِ شاہبازی
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
کر بلبل و طاوس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاوس فقط رنگ
نوا پیرا ہو ایک بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا
______________
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں
______________
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے
______________
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تیری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
______________
اقبال! یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال ومقامات
______________
مجھے ڈرا نہيں سکتي فضا کي تاريکي
مري سرشت ميں ہے پاکي و درخشاني
تو اے مسافر شب! خود چراغ بن اپنا
کر اپني رات کو داغ جگر سے نوراني
______________
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں ترا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
______________
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ’ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
______________
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
______________
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو، تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرور کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردہ ساز میں
تو بچا بچا کہ نہ رکھ سے، ترا آئنہ ہے وہ آئنہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن
نہ تری حکایت سوز میں، مہ میری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
______________
گیسوائے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظرشکار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
______________
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂِ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ یہ صحرا ، یہ سمندر یہ ہوائیں
تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینۂِ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
سمجھے گا زمانہ تری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید ترے بحرِ تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک تری آہوں کے شرارے
تو!میر خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ
خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ
نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنسِ محبت کا خریدار ازل سے
تو پیرِ صنم خانۂ اسرار ازل سے
محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل سے
ہے راکبِ تقدیر جہاں تیری رضا ، دیکھ
______________
زبان سے کہہ بھی دیا لا الھ الا اللھ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
______________
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
______________
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے؛ حقیقت میں ہے قرآن
______________
کھو نہ جا اس سحروشام میں اے صاحب ہوش
اک جہاں اور بھی ہے جس میں نہ فردا ہے نہ دوش
______________
عروجِ آدمِ خاكى سے انجم سهمے جاتے هيں
كه يه ٹوٹا هوا تارا مهِ كامل نه بن جاۓ
______________
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
______________
نگاہِ شوق میسر نہیں اگر تُجھ کو
ترا وجود ہے قلب و نظر کی رُسوائی
______________
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
______________
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی منزل کا سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
______________
پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئی
اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
______________
خدا تجھے کسي طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تيرے بحر کي موجوں ميں اضطراب نہيں
تجھے کتاب سے ممکن نہيں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہيں
______________
نہ تو زمیں کے لیے ہے ،نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے ، تو نہیں جہاں کے لیے
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
ترا سفینہ کہ ہے بحر بے کراں کے لیے
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
نگہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
______________
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا۔
______________
فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات
اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو
______________
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
______________
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
تہی، زندگی سے نہیں یہ فضائیں
یہاں سینکڑوں کارواں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی ہیں ، آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے ، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکان اور بھی ہیں
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازدان اور بھی ہیں
______________
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ’ نئے صبح و شام پیدا کر
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
اٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کا احساں
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر
میں شاخِ تاک ہوں میری غزل ہے میرا ثمر
مِرے ثمر سے مئے لالہ فام پیدا کر
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
______________
وه سحر جو كبهى فردا هے ، كبهى هے امروز
نهيںمعلوم كه هوتى هے كهاں سے پيدا
وه سحر جس سے لرزتا هے شبستانِ وجود
هوتى هے بنده مومن كی اذاں سے پيدا
______________
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نہاں وہ صدف کیا وہ گہر کیا؟
______________
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
______________
ہوس نے کر ديا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بياں ہو جا، محبت کي زباں ہو جا
______________
مجھے سزا کے لئے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شعلہ نہ ہو تند و سرکش و بے باک
______________
گرتے ہیں شاہ سوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے جو گھٹنوں کے بل چلے
______________
دیکھتا ہے تُو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ میں کہ تُو؟
______________
بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا
______________
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
______________
دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے ھم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ھم نے
______________
الفاظ کے پیچوں میں اُلجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے
______________
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
کوئی دم کا مہمان ہواے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
______________
ترانه ملی……
چین و عرب همارا ، ہندوستاں همارا
مسلم هیں هم ، وطن هے سارا جهاں همارا
توحید كی امانت سینوں میں هے همارے
آساں نهیں مٹانا نام و نشاں همارا
دنیا كے بُت كدوں میں پهلا وه گھر خدا كا
هم اس كے پاسباں هیں ، وه پاسباں همارا
تیغوں كے سائے میں هم پل كر جواں هوئے هیں
خنجر هلال كا هے قومی نشاں همارا
مغرب كی وادیوں میں گونجی اذاں هماری
تھمتا نه تھا كسی سے سیل رواں همارا
باطل سے دبنے والے اے آسماں نهیں هم
سو بار كر چكا هے تو امتحاں همارا
اے گلستان اندلس وه دن هیں یاد تجھ كو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں همارا
اے موجِ دجله تو بھی پهچانتی هے هم كو
اب تك هے تیرا دریا افسانه خواں همارا
اے ارض پاك تیری حرمت په كٹ مرے هم
هے خوں تری رگوں میں اب تك رواں همارا
سالارِ كارواں هے میرِ حجاز اپنا
اس نام سے هے باقی آرامِ جاں همارا
اقبال كا ترانه بانگِ درا هے گویا
هوتا هے جاده پیما پھر كارواں همارا
______________
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصور کو ہوا لب گویا پیام موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں ، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرین جرم محبت ہے حسن دوست
محشر میں عذر تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھپتی نہیں ہے یہ نگہ شوق ہم نشیں
پھر اور کس طرح انھیں دیکھا کر ے کوئی
اڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظارے کو یہ جنبش مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھل جائیں ، کیا مزے ہیں تمنائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
______________
نہ آتے ، ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تمھارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
بھری بزم میں اپنے عاشق کو تاڑا
تری آنکھ مستی میں ہشیار کیا تھی
تامل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا طرز انکار کیا تھی
کھنچے خود بخود جانب طور موسی
کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی ، تیری گفتار کیا تھی
______________
شکوہ
کيوں زياں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں، اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا ! ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں؟
جرءات آموز مري تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ‘خاکم بدہن’ ہے مجھ کو
ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہء درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
سازِ خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ، تو معذور ہيں ہم
اے خدا! شکوہء اربابِ وفا بھي سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھي سن لے
تھي تو موجود ازل سے ہي تِري ذاتِ قديم
پھول تھا زيبِ چمن، پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عميم
بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم؟
ہم کو جمعيتِ خاطر يہ پريشاني تھي
ورنہ اُمّت ترے محبوب کي ديواني تھي؟
ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگرِ پيکرِ محسوس تھي انساں کي نظر
مانتا پھر کوئي اَن ديکھے خدا کو کيونکر؟
تجھ کو معلوم ہے ليتا تھا کوئي نام ترا؟
قوتِ بازوئے مسلم نے کيا کام ترا!
بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہلِ چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي
پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے؟
بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے؟
تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں
شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہانداروں کي
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي
ہم جو جيتے تھے، تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے؟
قوم اپني جو زر و مالِ جہاں پر مرتي
بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي؟
ٹل نہ سکتے تھے، اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئي، تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زيرِ خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے
تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خيبر کس نے؟
شہر قيصر کا جو تھا اس کو کيا سَر کِس نے؟
توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے؟
کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے؟
کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہء ايراں کو؟
کس نے پھر زندہ کيا تذکرہء يزداں کو؟
کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي؟
اور تيرے ليے زحمت کشِ پيکار ہوئي؟
کس کی شمشير جہانگير ، جہاندار ہوئي؟
کس کی تکبير سے دنيا تری بيدار ہوئي؟
کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے ‘ھُوَ اللہُ اَحَد’ کہتے تھے
آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قومِ حجاز
ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے
محفلِ کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مئے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
اور معلوم ہے تجھ کو کبھي ناکام پھرے؟
دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات ميں دوڑا ديئے گھوڑے ہم نے
صفحہء دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے
پھر بھي ہم سے يہ گِلا ہے کہ وفادار نہيں
ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں
امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہگار بھي ہيں
عجز والے بھي ہيں ، مستِ مئے پندار بھي ہيں
ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں
رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر
بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں مسلمان گئے،
ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے
خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں؟
اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں؟
يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
اور بےچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور
اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں؟
کيوں مسلمانوں ميں ہے دولتِ دنيا ناياب
تيري قدرت تو ہے وہ جسکي نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سيلي زدہء موجِ سراب
طعنِ اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے؟
بنی اغيار کي اب چاہنے والی دنيا
رہ گئی اپنے ليے ايک خيالی دنيا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالی دنيا
پھر نہ کہنا ہوئی توحيد سے خالی دنيا
ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے؟
تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
شب کی آہيں بھي گئیں، صبح کے نالے بھي گئے
دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلہ لے بھي گئے
آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے
آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخِ زيبا لے کر
دردِ ليلٰي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد کے دشت و جبل ميں رمِ آہو بھي وہي
عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امتِ احمدِ مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي
پھر يہ آزردگيء غيرِ سبب کيا معني؟
اپنے شيداؤں پہ يہ چشمِ غضب کيا معني؟
تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربي کو چھوڑا
بت گري پيشیہ کيا ؟ بت شکني کو چھوڑا؟
عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا؟
رسم سلمان و اويسِ قرني کو چھوڑا؟
آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي مثلِ بلالِ حبشي رکھتے ہيں
عشق کي خير ،وہ پہلي سي ادا بھی نہ سہی
جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھي نہ سہي
اور پابنديء آئينِ وفا بھي نہ سہي
کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
بات کہنے کي نہيں تو بھي تو ہرجائی ہے
سرِ فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليۓ دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دي گرميء رخسار سے محفل تو نے
آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں؟
ہم وہی سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں؟
واديء نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہء نظّارہِ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا
اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئي
بے حجابانہ سوئے محفلِ ما باز آئي
بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لبِ جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہء کو کو بيٹھے
دور ہنگامہء گلزار سے يک سو بيٹھے
تيرے ديوانے بھي ہيں منتظرِ ‘ھُو’ بيٹھے
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزي دے
برقِ ديرينہ کو فرمانِ جگر سوزي دے
قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اُڑا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
نغمے بیتاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے
مشکليں امتِ مرحوم کي آساں کر دے
مورِ بے مايہ کو ہمدوشِ سليماں کر دے
جنسِ نايابِ محبّت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے
جوئے خوں مي چکد از حسرتِ ديرينہء ما
مي تپد نالہ بہ نشتر کدہء سينہء ما
بوئے گل لے گئي بيرونِ چمن، رازِ چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غمّازِ چمن
عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گيا سازِ چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پروازِ چمن
ايک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
قمرياں شاخِ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
پتیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں
وہ پراني رَوِشيں باغ کی ويراں بھي ہوئيں
ڈالياں پيرہنِ برگ سے عرياں بھي ہوئيں
قيدِ موسم سے طبيعت رہی آزاد اس کي
کاش گلشن ميں سمجھتا کوئی فرياد اس کي
لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
کچھ مزا ہے تو يہي خونِ جگر پينے ميں
کتنے بیتاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں
اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں وہ لالے ہي نہيں
چاک اس بلبلِ تنہا کي نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسي بانگِ درا سے دل ہوں
يعني پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں
عجمي خُم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري
نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مريہ
______________
جوابِ شکوہ
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گروسرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالہء بیباک مرا
پیرِ گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی
بولے سیّارے، سرِعرشِ بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا، نہیں، اہلِ زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضوا ں سمجھا
مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تاسرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا؟
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟
غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
شوخ و کستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے؟
عالمِ کیف ہے، دانائے رموز کم ہے
ہاں،مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا
شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تو نے
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پِسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے
وہ بھی تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا
نازشِ موسمِ گل لالہء صحرائی تھا
جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا یہی ھرجائی تھا
کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کرلو
ملتِ احمدِ مرسل کو مقامی کرلو
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہدو یہی آئینِ وفاداری ہے
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.