ظفر اقبال کی غزل

ظفر اقبال کی غزل پر نوٹ لکھیں ۔ آج کی اس پوسٹ میں ہم مشہور غزل گو شاعر ظفر اقبال کا فکر و فن ، شاعری ، سوانح حیات اور تصانیف پر سیر حاصل بحث کریں گے ۔

مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ

صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں

ابتدائی زندگی :احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، احمد فراز اور جون ایلیا جیسے اہم شاعروں کی وفات کے بعد بے شک ظفر اقبال اس عہد کے سب سے بڑے اردو شاعر ہیں ۔ یوں تو ظفر اقبال پنجابی زبان میں بھی شعر کہتے ہیں لیکن یہاں ان کی دال تیز آنچ اور اچھا خاصا ” میٹھا سوڈا ” ڈالنے کے باوجود اس میں موجود ” روڑکوں ” کی کثرت کے باعث اب تک ٹھیک سے گھلتی دکھائی نہیں دیتی ۔ وہ پاکستان کے مشہور شاعر ، نظم نگار اور کالم نگار مانے جاتے ہیں۔ وہ معاصر جدید اردو غزل کے اہم ترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بیٹے آفتاب اقبال معروف ٹی وی اینکر ہیں ۔ ظفر اقبال 27 ستمبر 1933ء کو بہاولنگر ، پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ضلع اوکاڑہ کے ایک معزز زمیندار تھے۔ ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم بہاولنگر سے حاصل کی اور میٹرک ایم سی ہائی اسکول اوکاڑہ سے 1950ء میں کیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایف سی کالج لاہور اور گریجویشن بھی گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ظفر اقبال نے ایل ایل بی کا امتحان لا کالج جامعہ پنجاب سے پاس کیا ۔

وکالت : ظفر اقبال نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا ۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ ایک بار اوکاڑہ ایسوسی ایشن اور دو مرتبہ پریس کلب اوکاڑہ کے صدر بھی رہے۔ اس دوران انھوں نے قومی سیاست میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ 1977ء کے انتخابات میں ظفر اقبال نے نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے راؤ خورشید علی خاں کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ ظفر اقبال کی شاعری کا سفر نصف صدی سے زیادہ ہے ۔ ابتدا میں وہ غزل کی روایات سے کبھی قریب اور کبھی دور ہوئے آخر کار غزل کی روایات کے سحر سے آزاد ہو گئے لیکن اس سفر میں انہیں کڑے مراحل سے گزرنا پڑا ۔ اردو ادب کا عام قاری اور تخلیق نگار اردو غزل کی روایات کا ایسا اسیر ہے کہ وہ اس طلمساتی فضا سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ گزشتہ صدیوں میں حالی اور انشاء نے غزل کی روایت کو توڑنے کی کوشش ضرور کی لیکن ان کوششوں کی بنا پر غزل میں تو کیا تبدیلی آتی اردو غزل میں حالی اور انشاء اپنے مقام سے محروم ہو گئے ۔

وجہ شہرت : ظفر اقبال کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل کی صدیوں پرانی روایتی فضا اور غزل کی موروثی جمالیات کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے ۔ اس لیے ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا ادبی مرتد اور روایتی غزل کی غلامی سے آزاد ہونے والا پہلا شاعر کہا ہے ۔

ظفر اقبال تاحال بقیدِ حیات ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔

ظفر اقبال کی شاعری خوبیوں، خامیوں کا اک مرقع : ظفر اقبال نے نظم نگاری اور کالم نگاری بھی کی ۔میری رائے میں یہ بہترین سر سری تنقید ہے جو ظفر نے خود اپنی شاعری کے متعلق کی ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ ظفر کے جستہ جستہ اشعار اگر کسی کے ناز کو خجل نہیں کر سکتے تو کم ازکم سننے سنانے کے قابل ضرور ہیں اور اگر ” کوئی شعر اس میں کا” اور ’”کوئی اس میں کا” لے کر گلدستہ مرتب کیا جائے تو یقیناً اہل ذوق کی میز کی زینت بن سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ظفر کے چار ضخیم دیوانوں کا غائر مطالعہ کر کے اس خدمت کو کون انجام دے؟ ان کی پنجابی شاعری من جملہ خامیوں کے بہت مشہور ہوئی لیکن ظفر کا اصل میدان اردو غزل گوئی ہے ۔ جس نے ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیئے اور موجودہ صدی کے بلاشبہ سب سے بڑے غزل گو شاعر کہلائے ۔ ظفر اقبال جدید اردو شاعری کا ایک بہت اہم نام ہے. جدید اردو پر جب بھی بات کی جائے گی ظفر اقبال کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ظفر اقبال کی ابتدائی شاعری میں کلاسیکی رنگ کا اظہار جا بجا ہوتا ہے ۔ اس کی مثال ملاحظہ ہو ۔

وہ کسی اور طرف دیکھ رہا تھا اس وقت

اسی دوران میں میں نے اسے دیکھا کیا کیا

جھوٹ سچ اس سے محبت ہو تو سکتی تھی

مگر کام یہ بھی ابتدائی مرحلے میں رہ گیا

ظفر اقبال کی جدیدیت جب موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے تو قاری کو ایک مخصوص خارجی فضا اور تہزیبی عوامل کا احساس دلاتی ہے۔ ظفر اقبال کی نئی لسانی تشکیل کی کوشش نے ان کی شاعری کے موضوعات کو متاثر کیا اور ان کی شاعری محض الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ گئی ۔

ظفر اقبال کی شاعری کے محاسن کا اگر جائزہ لیا جائے تو قاری یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ ڈھیلے ڈھالے الفاظ پر مشتمل نظر آتا ہے ۔ ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ ” اچھا مصرع بالعموم وہی ہو سکتا ہے جو مکمل طور پر یا زیادہ سے زیادہ نثری ترتیب میں ہو، الفاظ کا استعمال اور بندش چست، برمحل اور بلا تکرار ہو، فالتو لفظ سے مبرا اور بے تکلف ہو” مگر افسوس ظفر اقبال صاحب اپنی بیشتر شاعری میں اس طرح کا کوئی تکلف روا نہیں رکھتے ۔

مثلاً

میں خاک و خون میں لتھڑا تجھے پکارتا ہوں

مجھے اٹھا نہ سہی آ کے دیکھ جا تو سہی

( منجملہ دیگر خامیوں کے دوسرے مصرعے میں تو بھی اضافی ہے)

خوش ہے وہ اپنے گھر میں، چلو ٹھیک ہے مگر

اتنی سی بات نے مجھے تڑپا دیا بھی ہے

( یہاں الفاظ کی دروبست درست نہیں ۔ تڑپا دیا بھی ہے کہ بجائے تڑپا بھی دیا ہے ہونا چاہیے تھا)

عرصہ عمر سے چپ چاپ گذر جانا کیا

موت کی تو نہ سہی، زیست کی پروا تو کرو

( دوسرے مصرعے میں پہلا تو اضافی ہے)

چاند گہنایا ہوا لگتا ہے یہ اک عمر سے

کچھ اندھیرا سا جو اپنے دل کی تابانی میں ہے

( پہلے مصرعے میں یہ اضافی ہے)

ہمارا جو کردار ہی کچھ نہ تھا

نکل آئے خود ہی کہانی سے ہم

( پہلے مصرعے میں جو اضافی ہے)

یہ نماز عشق ہر صورت ادا کی جائے گی

جیسی بھی نیت ہے اپنی اور وضو جیسا بھی ہے

( پہلے مصرعے میں یہ اضافی ہے)

اب الگ ہو سکوں گا مشکل سے

ساتھ اس کے کہیں سلا ہوا ہوں

( دوسرے مصرعے میں کہیں اضافی ہے)

غرض جوں جوں ظفر اقبال کی شاعری پڑھتے جائیں توں توں یہ احساس ہوتا جاتا ہے کہ ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اس کے علاوہ ان کی شاعری کا کم از کم ایک تہائی حصہ ایسا ہے جسے بآسانی پوچ، لچر یا پھکڑ پن پر محمول کیا جاسکتا ہے ۔

ادبی خدمات :پرائمری کے دوران ان کی طبیعت شاعری کے لیے موزوں ہو چکی تھی کیونکہ ان کے استاد نور احمد انجم قریشی جو خود بھی شاعر تھے بچوں کو بطور املا اشعار لکھ کر دیتے۔ ظفر اقبال آٹھویں جماعت تک کلیات میر اور دیوانِ غالب کا بھرپور مطالعہ کر چکے تھے۔ شفیق الرحمن کی تحاریر پڑھ کر ان کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا ہو چکی تھی ۔ انھوں نے غزل کے پیرائے میں فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت شکنی کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور بھرپور پہچان بنائی۔ اُن کے پہلے شعری مجموعے آب رواں کو عوام و خواص، ہر دو حلقوں میں بے حد پزیرائی حاصل ہوئی ۔ اس کے بعد انھوں شعری تجربات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ 1973ء میں انھوں نے پہلا کالم سرور سکھیرا کے پرچے دھنک کے لیے لکھا۔ ان کے مختلف اخبارات میں “دال دلیا” کے نام شائع ہونے والے ان کے کالم بھی اپنے قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ظفر اقبال 16 فروری،1995ء سے یکم مارچ 1995ء

تک اردو سائنس بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ۔

مجموعہ ہائے کلام : خشت زعفران ، گل آفتاب، تمجید ، تقویم ، تشکیل ، تجاوز ، توارد ، تساہل ، آب روا ، وہم وگمان ، ہٹے ہنومان ، رطب و یاس ، غبار آلود سمتوں کا سراغ ، اطراف اور عیب و ہنر وغیرہ ۔

روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس

بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply