صنعت مبالغہ کی تعریف اور شعری و نثری مثالیں

آج کی اس پوسٹ میں ہم صنعت مبالغہ کی تعریف اور اس کی شعری و نثری مثالوں کے بارے میں پڑھیں گے ۔

صنعت مبالغہ :

اردو میں معنی و مفہوم: حد سے بڑھ کر تعریف یا بُرائی کرنا، بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، اعتدال سے بڑھی ہوئی بات وغیرہ ۔

شعری اصطلاح میں مبالغہ اس صفت کا نام ہے جس کے ذریعے کسی شے یا شخص کی بعید از قیاس تعریف یا مذمت کی جاتی ہے۔ اگر مبالغہ صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو شعر کا حسن نکھر جاتا ہے۔ اس کی ایک قسم ” غلو ” کہلاتی ہے ۔

غلو : (معافی و بیان) کسی کے متعلق بڑھا چڑھا ہوا یا حد سے گزرا ہوا بیان جو عقلاً اور عادتاً محال ہو اور حقیقت سے دور ہو غلو کہلاتا ہے ۔ 

کچھ مثالیں مبالغہ یا غلو کے بارے میں:

 کل رات ہجرِ یار میں رویا میں اس قدر

چوتھے فلک پہ پہنچا تھا پانی کمر کمر

اس شعر میں شاعر نے آنسوؤں کے لیے مبالغہ استعمال کیا ہے ایسی بات بیان کی ہے جو حقیقتاً ممکن نہیں ۔

ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں:

مرے اشک بھی ہیں شامل یہ شراب اُبل نہ جائے

مرا جام چھونے والے ترا ہاتھ جل نہ جائے 

اس مثال میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے ۔

مزید تفصیل کے لیے اسے بھی پڑھیے ۔ اسے پڑھنے کے بعد امید ہے کہ صنعت مبالغہ کے بارے میں کچھ ابہام یا مشکل صورت باقی نہیں بچے گی ۔

صنعتِ مبالغہ :

اِصطلاحی مَعنیٰ : کسی شَے کے لیے حقیقت سے زائد وصف کا دعویٰ کرنا۔

کشاف تنقیدی اصطلاحات میں مولانا صہبائی کے حوالے سے مذکور ہے کہ :

“مبالغہ (Exaggeration) یہ ہے کہ کسی وصف کو شدت یا ضُعف میں اس حد تک پہنچا دیں کہ اس حد تک اس کا پہنچنا بعید ہو یا محال ہو، تاکہ سُننے والے کو یہ گُمان نہ رہے کہ اس وصف کی شدت یا ضُعف کا کوئی مرتبہ باقی ہے”

(کشّاف تنقیدی اصطلاحات ،صفحہ 164)

یہ ایک شعر کا ترجمہ ہے اسے ملاحظہ فرمائیں:

ترجمہ : “اُس سے ملتے وقت گھبراہٹ سے اُس کی چادر گِر گئی اور بغل گیری کرتے ہوئے اس کے ہار کی لڑی اندھیری رات میں ٹوٹ گئی، وہ ہنس پڑی اور اس کے دندان کی چَمَک سے اتنی روشنی ہو گئی کہ اُس نے بکھرے ہوئے موتیوں کے دانے زمین سے چُن کر اکٹھے کر لیے”

(نمکدان فصاحت، صفحہ نمبر 68)

بہادر شاہ ظفر کے ایک کا مفہوم :

دندانِ محبوب دیکھ کر مہ و انجم کا غیرت کھا جانا امرِ محال ہے ۔

سید علی حیدر نظم طباطبائی لکھتے ہیں کہ :

ادیب کو نہیں بھولنا چاہیے کہ مبالغہ کلام کا حُسن  ہے لیکن مبالغے میں افراط کہ مضمونِ غیر عادی و محال پیدا ہو جائے، بہ إتفاقِ آئمۂ فن عیبِ قبیح ہے، جس کا نام انھوں نے إغراق میں و غُلُوّ رکھا ہے. مبالغہ اس وقت تک حُسن دیتا ہے جب تک واقعی و امکان اس میں پایا جاوے اور جہاں مبالغہ کرنے کے بعد کوئی نقشہ کھِنچ جاتا ہے، وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے ۔

{بحوالہ : شرح دیوانِ غالب، صفحہ 412}

مبالغہ کی دو صورتیں ہیں :

1- مبالغہ فی الاصل:

کسی حقیقت کو استعارہ میں بیان کرنا مبالغہ فی الاصل کہلاتا ہے، مثلاً :

یہ بھی ہے ادا کوئی خورشید نمط پیارے

منھ صبح دکھا جانا پھر شام چھپا جانا

میر تقی میر

یہاں شاعر نے اپنے محبوب کو خورشید سے استعارہ کیا ہے۔

2- مبالغہ فی الزوائد:

کسی چیز کو بغیر استعارہ سے مگر معنوی شدّت عطا کرنا مبالغہ فی الزوائد کہلاتا ہے۔

مبالغہ فی الزوائد کی تین اقسام ہیں :

1- تبلیغ :

وہ بات جو ازرُوئے عقل و عادت ممکن ہو، مثلاً :

1- دل درد، جگر درد، دعا درد، اثر درد

میں ہوں ہمہ تن درد، مری شام و سحر درد

جگر مراد آبادی

اس شعر میں درد کی ہمہ گیریت کا مضمون ہے اور خوب مبالغہ کیا گیا ہے، جو کہ عقل و عادت ہر دو اعتبار سے درست ہے۔

2- دل کے نالوں سے جِگَر دُکھنے لگا

یاں تلک روئے کہ سَر دُکھنے لگا

إنشاء

دونوں باتیں ازرُوئے عقل و عادت ممکن معلوم ہوتی ہیں۔

2- إغراق :

وصف کو اس حد تک پہنچانا کہ باعتبار عقل کے ممکن ہو اور باعتبار عادت کے محال، مثلاً :

جُننشِ ایمائے مِژگاں سے دَرَک جائیں جَبَل

پیشِ رُوئے چشمِ بَستہ بحر و بَر خوار و زَبوں

غلام مصطفیٰ دائم اعوان

شعرِ مذکور میں ایمائے مِژگاں سے جبال کا لرزنا اگرچہ عادت کے محال ہے مگر عقلاً ممکن ہے کہ اولیاء اللہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت بخشی ہے کہ

[نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں]

جب تقدیر بدل سکتی ہے تو پہاڑوں کی لرزش کیسے ناممکن؟

3- غُلُوّ :

وصف کی وہ آخری حد کہ وہ محالِ محض ہو، یعنی عقلاً و عادۃً ناممکن و محال ہو، مثلاً :

1- و اخفت أھل الشرک حتی انه

لتخافک النطف التی لم تخلق

یعنی اہلِ شرک کو اس قدر ڈرایا کہ غیر مخلوقہ نُطفے بھی ڈر گئے ۔

صرف و صرف مضمونِ غیر عادی و محال ہے۔

2- پیدا نہ ہو زمیں سے نیا آسماں کوئی

دل کانپتا ہے آپ کی رفتار دیکھ کر

یاس یگانہ چنگیزی

عقل و عادت سے یہ ممکن نہیں کہ محبوب کی تیز رفتاری سے جو دُھول اُٹھے وہ ایک اور آسمان بنا لے۔

نوٹ : امید ہے کہ آپ صنعت مبالغہ  کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply