صبا بے شک آتی ہے مدینے سے تو
آج کی اس پوسٹ میں ہم امیر مینائی کی نظم نعت ” صبا بے شک آتی ہے مدینے سے تو ” کی تشریح ، مفہوم اور مشکل الفاظ کے معانی لکھیں گے ۔
شعر نمبر 1 :
صبا بے شک آتی مدینے سے تو ہے
کہ تجھ میں مدینے کے پھولوں کی بو ہے
مشکل الفاظ کے معانی : صبا (صبح کی ہوا ) ، بو (خوشبو ) ، بے شک( جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو ، یقینا) مدینہ( شہر ، وہ شہر جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روزہ مبارک ہے)
مفہوم : صبا بے شک تو مدینے سے آتی ہے کیونکہ تجھ میں مدینے کے پھولوں کی خوشبو رچی بسی ہے ۔
تشریح : امیر مینائی کا شمار اپنے عہد کے قادر الکلام شاعروں میں ہوتا ہے ۔ انھوں نے تمام اصنافِ میں شاعری کی مگر غزل اور نعت کی طرف زیادہ رجحان رہا ۔ آپ کی شاعری زبان و بیان کی خوبیوں اور خیال و فکر و خیال کی رعنائیوں کا مجموعہ ہے ۔ ان کی نعتوں میں آورد کے مقابلے میں آمد کا رنگ غالب ہے ۔ انھوں نے محاورات اور صنائع کو اس عمدگی سے برتا کہ کلام میں کہیں بھی تصنع پیدا نہیں ہونے دیا ۔ انھوں نے الفاظ و ترکیب کا استعمال بھی محتاط ہو کر کیا ہے۔ حتی الامکان سادگی اور روانی کا پہلو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کی نعتوں میں درد و اثر اور سوز و گداز کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔
نوٹ: مندرجہ بالا اقتباس کو آپ اس نظم کے کسی بھی شعر کے شروع میں لکھ سکتے ہیں ۔
مذکورہ شعر میں وہ فرماتے ہیں اے صبا تو مدینے سے آتی ہے ۔ تو میرا دل باغ باغ ہو جاتا ہے ۔ تو میرے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے ہو کے آتی ہے۔ مجھے تو بہت پیاری لگتی ہے۔ تو محض صبح کی آواز نہیں بلکہ تجھ میں مدینے کے پھولوں کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے مراد یہ ہے کہ جب بھی کوئی آدمی مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارک کی زیارت کر کے آتا ہے اور شاعر اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سنتا ہے تو اسے ان باتوں کا لطف اتا ہے اور وہ خوشی محسوس کرتا ہے ۔ شاعر کے نزدیک باد صبا بڑی خوش نصیب ہے جو مدینہ منورہ کی گلیوں سے ہو کر آتی ہے ۔
بقول شاعر :
لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں
دل کو ہم مطلع انوار بنائے ہوئے ہیں
عاشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی ٹھنڈی میٹھی ہوا میں مدینے کے پھولوں کی مہک محسوس کر لیتے ہیں۔ مدینے کے پھولوں کی خوشبو بھی انوکھی اور مسحور کن ہوتی ہے ۔ مدینہ منورہ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے بہت اہمیت حاصل ہے ۔
بقول شاعر :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس شہر کی
رب کعبہ خود اٹھاتا ہے قسم
شعر نمبر 2 :
سنی ہم نے طوطی و بلبل کی باتیں
تیرا تذکرہ ہے تیری گفتگو ہے
مشکل الفاظ کے معانی : طوطی (ایک خوش آواز چھوٹا پرندہ) ، بلبل( ایک خوش آواز پرندہ) ، تذکرہ ذکر( چرچہ) ، گفتگو( بات چیت) ، ترا( تیرا )
مفہوم : ہم نے طوطی و بلبل کی باتیں سنی ہیں ان سب کی باتوں میں بھی تیرا ہی تذکرہ اور تیری ہی گفتگو ہے۔
تشریح : امیر مینائی کے اشعار میں الفاظ و تراکیب اور مشائع( تقلید، پیروی ) کو بہت مہارت سے استعمال کیا گیا ہے۔ مذکورہ شعر میں وہ فرماتے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت بن کر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پرندوں سے بھی بہت پیار تھا۔ شاعر کہتا ہے کہ میں نے طوطی اور بلبل کی باتیں سنی تو مجھے ان کی باتوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ملا گویا وہ خوش الحان پرندے بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف اور ذکر کر رہے تھے۔ یعنی دنیا میں ہر ذی روح تذکرہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں مشغول ہے۔
بقول شاعر :
سب سے پیارا ہے جو سب سے میٹھا ہے جو
ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ان پہ لاکھوں سلام
ایک شاعر ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس طرح شعر کہتے ہیں:
خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفی نہ کرے
میرے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
شعر نمبر 3 :
جیوں تیرے در پر ، مروں تیرے در پر
یہی مجھ کو حسرت یہی آرزو ہے
مشکل الفاظ کے معانی : جیوں( زندہ رہوں) ، مروں (مر جاؤں) در ( دروازہ ) ، یہی (خاص یہ) ، حسرت (شوق) ، آرزو (خواہش)
مفہوم : تیرے در پر جیوں اور مروں بس یہی میری حسرت اور یہی میری آرزو ہے۔
تشریح : امیر منائی کا شمار ممتاز نعت لکھنے والے شعراء میں ہوتا ہے ۔ ان کے کلام میں کہیں بھی تصنع کا گمان نہیں ہوتا ۔ ان کے اشعار میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے ۔ مذکورہ شعر میں وہ کہتے ہیں اے میرے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میری خواہش ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر عمر بھر پڑا رہوں ۔ یہاں تک کہ میری روح پرواز کر جائے۔ یہی میرا شوق اور یہی میری تمنا ہے ۔ میری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر ہی گزر جائے اور مجھے موت بھی ادھر ہی آ جائے ۔ کاش ایسا ہو سکتا ۔
بقول علامہ اقبال :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے پیار کرنے والے مدینہ منورہ سے بہت عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ وہیں سے وابستہ رہنا چاہتے ہیں ۔
بقول شاعر :
وہی جنت میں جائیں گے جو سوچیں گے جو سمجھیں گے
نبی کی رضا میں ہے خدا کی بھی رضا بے شک
شعر نمبر 4 :
جمے جس طرف آنکھ جلوہ ہے اس کا
جو یکسو ہو دل تو وہی چار سو ہے
جمنا (ٹھہرنا ، پڑنا) ، جلوہ( نور ، ظاہر ہونا) ، یکسو (ایک طرف)
مفہوم : جس طرف آنکھ جمے تو اس طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ ہے جو دل یکسو ہو تو وہی چار سو ہے۔
تشریح : اے میرے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جس طرف بھی دیکھتا ہوں ادھر تیرا ہی جلوہ ہے اور نور کی فضا ہے ۔ جب میرا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو چاروں طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اٹھتے ، بیٹھتے ، جاگتے اور سوتے تیرا ہی جلوہ میری آنکھوں کے سامنے ہے یعنی اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دل لگا لیا جائے تو ہر طرف وحی نظر آتے ہیں۔
بقول امجد شریف :
بڑا جلوہ نما دیکھا وہاں پر نور کا جلوہ
بڑی پر کیف لگتی ہے مدینے کی فضا بے شک
اس شعر میں شاعر کہہ رہا ہے کہ جو لوگ اپنا ذہن یکسو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ان کی باطنی آنکھ سے اس بات کا مشاہدہ ہو جاتا ہے کہ مدینے میں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر انوار کی بارش ہو رہی ہوتی ہے ۔
شعر نمبر 5 :
تیری راہ میں خاک ہو جاؤں مر کر
یہی میری حرمت ، یہی آبرو ہے
مشکل الفاظ کے معانی: راہ (راستہ) ، آبرو (قدر و منزلت ، عزت) ، خاک (مٹی) ، خاک ہو جاؤں( مٹی میں مل جاؤں ) ، حرمت( عزت، عظمت)
مفہوم : مر کر تیری راہ میں خاک ہو جاؤں یہی میری حرمت اور یہی میری عزت و آبرو ہے ۔
تشریح : امیر مینائی ایک قادر الکلام شاعر ہیں ۔ ان کے نعتیہ کلام میں سوز و گداز کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ مذکورہ شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری دلی آرزو ، خواہش ، تمنا اور عزت و عظمت اس میں ہے کہ میں مر کر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی خاک ہو جاؤں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس راستے سے گزریں میں اسی راستے کی دھول بن جاؤں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو چوم سکوں۔ یہ میرے لیے باعث فخر ہے۔ میرا جینا اور میرا مرنا صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہو ۔ اس سے بڑھ کر میرے لیے عزت کا مقام اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔
بقول شاعر :
آرزو ہے کہ جان نثار کروں
مر کے حال کروں دوام آقا صلی اللہ علیہ وسلم
سایہ التفات ہو سر پر
اور ہو زندگی کی شام آقا
شعر نمبر 6 :
یہاں ہے ظہور اور وہاں نور تیرا
مقام بھی تو ، لامکاں میں بھی تو ہے
مشکل الفاظ کے معانی : ظہور (ظاہر ہونا ) ، نور (روشنی ، اجالا ) ، مکان ( گھر ، رہنے کی جگہ) ، لامکان (عالم قدس ، غیر مادی جہاں جو لامحدود ہے)
مفہوم : یہاں تیرا ظہور اور وہاں تیرا نور ہے ۔ مکاں بھی تو اور لامکاں میں بھی تو ہے ۔
تشریح : امیر مینائی کے کلام میں سادگی ، روانی اور برجستگی پائی جاتی ہے۔ یہ نعت انھوں نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر لکھی ہے۔ مذکورہ شعر ان کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی لگاؤ کہ غمازی کرتا ہے ۔ زیرِ نظر شعر میں وہ کہتے ہیں میرے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتوں کا چرچہ ہر جگہ ہے۔ زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اور عرش پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نور ہے ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکاں میں بھی ہیں اور لامکاں میں بھی ہیں۔ یعنی ہر جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچہ ہے کیونکہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو معراج کا شرف حاصل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکاں سے لامکاں میں تشریف لے گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں فرمایا ہے، جس کا مفہوم ہے: کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نہ ہوتے تو یہ دنیا بھی نہ ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات بنانے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور بنایا۔
بقول رسول محشر نگری :
نور اس کا سب سے پہلے پیدا کیا خدا نے
بزمِ جہاں میں لیکن آخر میں سب سے آیا
شعر نمبر 7 :
جو بے داغ لالہ ، جو بے خار گل ہے
وہ تو ہے ، وہ تو ہے ، وہ تو ہے ، وہ تو ہے
مشکل الفاظ کے معانی : داغ (دھبہ( ، بے داغ (بغیر دھبے کے) ، خار ( کانٹا ) ، بے خار گل( بغیر کانٹے کے پھول) ، لالہ( ایک قسم کا سرخ پھول جس کے اندر سیاہ داغ ہوتا ہے )
مفہوم : جو بے داغ لالہ ، جو بے خار گل ہے ۔ وہ تو ہے ، وہ تو ہے ، وہ تو ہے ، وہ تو ہے ۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کی طرف اشارہ ہے ۔
تشریح : امیر مینائی کے نعتیہ اشعار درد و اثر اور سوز و گداز سے بھرپور ہیں ۔ زیرِ نظر شعر میں وہ فرماتے ہیں اے اللہ کے پیارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رحمت بن کر آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک ہمیشہ بے داغ رہی۔ مسلمان تو کیا کافر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صادق و امین ہونے کی گواہی دیتے تھے ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پھول ہیں جو بغیر کسی دھبے اور کانٹے کے ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔ لہٰذا جو خوبصورت بے مثل و بے نظیر ذات ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں یعنی انسان کامل اور معصوم معصوم عئن الخطا ہونے کا شرف صرف سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ۔
بقول شاعر :
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں یکجا ہوئیں
صورتِ زیبا حسین سیرت بہم
ایک اور شاعر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اس طرح بیان کرتے ہیں :
میرا ایمان ہے پختہ یقین میرا یہ کامل ہے
زمیں کے بادشاہ سارے انہی کے ہیں گدا بے شک
نوٹ : امید ہے کہ آپ امیر مینائی کی نظم ” نعت ” ” صبا بے شک آتی مدینے سے تو ہے ” کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔
شکریہ
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.