شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی شاعری

شیخ غلام ہمدانی مصحفی کے شاعری پر نوٹ لکھیں ۔

آج کی اس پوسٹ میں ہم شیخ غلام ہمدانی مصحفی کی سوانح حیات ، شعری و فکری رحجانات ، شاعری اور تصانیف کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا

ابتدائی تعارف :

مصحفیؔ اردو میں ٹکسالی شاعری کے جتنے امام گزرے ہیں ۔ میرؔ دردؔ وغیرہ کے سلسلے میں یہ آخری بزرگ تھے جنہوں نے قدیم محاورات برقرار کھے ۔ انشاءؔ اور جرأت وغیرہ کے مقابلے میں قدامت کا علم بند رکھا ۔ کثرت مشق سے کلام پر قدرت کامل حاصل تھی ۔ غرض کہ قدما میں سے ہر ایک کے انداز پر ان کے یہاں کلام موجود ہے اور یہ یہی ان کی قادر الکلامی کی دلیل ہے ۔

اصل نام شیخ غلام ہمدانی تھا اور مصحفی تخلص تھا۔1748ء کو امروہہ میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام شیخ ولی محمد تھا ۔ ابتدائی تعلیم امروہہ میں ہی حاصل کی اور آغاز جوانی میں ہی وطن چھوڑ کر دہلی چلے گئے جہاں عربی، فارسی اور اسلامی علوم کی تحصیل بڑے بڑے اساتذہ فن سے کی اور شعر و سخن کی طرف مائل ہوگئے۔

عملی زندگی : ہمدانی مصحفی ماہر اساتذہ سے تحصیل علم کے بعد معاش کی غرض سے نکلے اور نواب محمد یار خان، نواب ٹانڈا ضلع بریلی کے پاس ملازم ہوگئے لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد نواب کا انتقال ہو گیا ۔ جس کی وجہ سے ملازمت چھوٹ گئی اور واپس دہلی آگئے۔ بارہ برس تک دہلی میں رہنے کے بعد باقی شعراء کی طرح لکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ میں مصحفی نے مستقل طور پر قیام کیا اور شہزادہ مرزا سلیمان شکوہ کے دربار میں ملازم ہو گئے۔کچھ عرصہ تک قیام کرنے کے بعد پھر دلی لوٹ آئے مگر تھوڑے دنوں بعد لکھنؤ دو بارہ چلے گئے ۔

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روز گار ہوتا

غالب کی طرح مصحفی میں بھی خودداری کا عنصر قدرے زیادہ تھا اسی وجہ سے ساری زندگی غربت کی چکی میں پستے گزر گئی ۔ مصحفیؔ دربار داری کے سخت مخالف تھے اس لیے ساری زندگی کسمپرسی اور تکلیف میں گزاری۔ انھیں ساری زندگی اپنی نا قدری کا احساس رہا۔ شاید اس لیے نثار احمد فاروقی نے انھیں ’مسکین اور مظلوم شاعر‘ قرار دیا ہے۔ مصحفیؔ کو امرا سے ہمیشہ شکایت رہی کیوں کہ اکثر ان کے وظیفے میں تاخیر کی جاتی تھی۔ گویا ان کو غمِ روزگار نے کبھی چین سے رہنے نہیں دیا۔ اس اضطراب میں وہ اپنی سخن وری سے بھی متنفر ہو جاتے تھے۔ ان کی اس نفسیاتی الجھن کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے” ریاض الفصحا” ‘ کے دیباچے میں کیا ہے کہ” میں شعر و شاعری اور امیروں سے ملاقات پر تبرّا کرتا ہوں اور ان سے بھاگتا ہوں ” ۔ یہ بیان مصحفیؔ کی خودداری اور انانیت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے

کلام کی نمایاں خصوصیات :

غلام ہمدانی مصحفی بھی ان شعراء میں سے ہیں جنہوں نے دہلی سے سکونت ترک کرکے لکھنو کو آباد کیا۔ مصحفی صرف شاعر نہیں، اعلیٰ پائے کے ناقد بھی تھے انہوں نے اپنے اردو اور فارسی کے تذکروں میں شعر و شاعری پر تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔انہوں نے ایہام گوئی کو ناپسند کیا اور فصاحت اور بلاغت کی ستائش کی۔

مصحفی کی شاعری صرف شاعری نہیں بلکہ انھوں نے قصائد اور غزلوں وغیرہ میں اپنے دور کے انتشار و اختلال اور مصائب و آلام کی تصویر کشی بھی بڑی ہنرمندی سے کی ہے۔ مصحفی کے دہلی سے لکھنؤ آنے کا ایک بڑا مقصد یہاں کی فیاضی، دریا دلی اور شاعروں کی سرپرستی سے استفادہ کرنا تھا لیکن لکھنؤ میں بھی ان کی مالی حالت خراب رہی یہی پس منظر تھا جس کی وجہ سے ان کے مزاج میں تلخی اور ترشی نے جگہ بنا کے کی ۔ ان کے کلام میں یہ سارا پس منظر روشن ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ناداری کا یوں حوالہ دیتے ہیں۔

ہر چند کے ہم فاقوں سے جان دیتے ہیں

تنخواہ تو کب نعیم خان دیتے ہیں

ہے لب پہ خوشامد اور غزل کے مارے

بیٹھے ہوئے جی میں گالیاں دیتے ہیں

مصحفی فارسی اور اردو کے ایک بلند پایہ شاعر تھے۔وہ قواعد و ضوابط کے بڑے پابند تھے۔ ان کے یہاں کہیں تو میر کا سوز و گداز بھی نظر آتا ہےتو کہیں غالب کی سی خودداری اور کہیں سودا کی بلند پروازی کی جھلک ملتی ہے مگر مضامین میں اتنی گہرائی اور پھیلاؤ نہیں ہے جتنا میر تقی میر کے یہاں یا غالب کے ہاں پیدا ہوا ۔ لیکن مصحفی کو زندگی اور خاص کر عشق کے تنوع و تجربات کو بیان کرنے پر قدرت حاصل تھی۔ مصحفی کی امتیازی خصوصیت نشاط ، شباب اور رنگ و روپ کا پر کیف طریقے سے بیان ہے ۔ انھوں نے جملہ اصناف سخن پر طبع آزمائی کی اور قابل قدر کارنامے انجام دیے ۔ ان کے بہت سے شاگرد تھے جن میں مستحسن ، آتش ، خلیق اور ضمیر کے نام قابل ذکر ہیں ۔

انشاء و مصحفی کی نوک جھونک : مصحفی اور انشا کے معرکے بہت بہت مشہور ہیں لکھنو میں انشاء مصحفیؔ کے مد مقابل اور حریف تھے۔ ان کی نوک جھونک مشاعروں سے نکل کر سڑکوں تک آ گئی تھی مصحفیؔ نے لکھنؤ میں شاگردوں کی بڑی تعداد جمع کر لی تھی۔ دوسری طرف انشاءؔ بھی کسی سے کم نہ تھے ان کی طبیعت بھی برجستگی، حاضر جوابی، شوخی اور ظرافت کا مجسمہ تھی۔ مصحفیؔ ان کی چٹکیوں کا جو مخالف کو رلا دیں کا بآسانی مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔ سالہا سال دونوں میں نوک جھونک جاری رہی اور جب بات زیادہ بڑھی تو سلیمان شکوہ کھل کر انشاءؔ کے طرف دار بن گئے۔ جب مصحفیؔ کے شاگردوں کو اس سوانگ کا علم ہوا تو انھوں نے انشاءؔ کے خلاف جلوس نکالنے کا منصوبہ بنایا تو سلیمان شکوہ نے کوتوال سے کہہ کر انھیں رکوا دیا اور ناراض ہو کر مصحفیؔ کا وظیفہ بھی گھٹا کر پانچ روپے ماہانہ کر دیا۔ یہ بات مصحفیؔ کے لئے بڑی ذلت کی بات تھی جس کا شکوہ انہوں نے اپنے اشعار میں یوں کیا ہے :

اے وائے کہ پچیس سے اب پانچ ہوئے ہیں

ہم بھی تھے کنھوں وقتوں میں پچیس کے لائق

استاد کا کرتے ہیں امیر اب کے مقرر

ہوتا ہے جو در ماہہ کہ سائیس کے لائق

یہاں تک کہ تنگ آ کر کر مصحفیؔ نے لکھنؤ چھوڑ دینے کا ارادہ کیا اور کہا :

جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں

کچھ اس کے سوا اب کوئی تدبیر نہیں یاں

۔ اے مصحفی بے لطف ہے اس شہر میں رہنا

سچ ہے کہ کچھ انسان کی توقیر نہیں یاں

زمانے کی ستم ظریفی: ہر دور اور ہر شاعر کی ناقدری ان کی قسمت ٹھہری ۔ اکثر شعراء کو نظر انداز کرکے زمانے کے لوگ ان کی عظمت سے بے خبر ہی نظر آتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ مصحفی کے ساتھ بھی ان کے عہد میں ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ زمانے کی ستم ظریفی کہ وہ ان کے کمال فن کو پہچاننے سے قاصر رہے ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

اس کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں

مر گئے ہم تو زمانے نے ہمیں یاد کیا

مصحفیؔ کا بہت سا کلام ہم تک نہیں پہنچا کیونکہ ایک وقت ان پر ایسا بھی آیا کہ وہ مالی تنگی سے پریشان ہو کر اپنا کلام فروخت کرنے لگے ۔ ہر مشاعرے کے لیے بہت سی غزلیں کہتے اور لوگ آٹھ آنے ایک روپیہ یا اس سے زیادہ دے کر اچھے اچھے شعر چھانٹ لے جاتے ، جو بچتا خود اپنے لیے رکھ لیتے ۔ محمد حسین آزاد کے مطابق جب ایک مشاعرہ میں بالکل داد نہ ملی تو انہوں نے تنگ آ کر غزل زمین پر دے ماری اور کہا

” واے فلاکت سیاہ جسکی بدولت کلام کی یہ نوبت پہنچی کہ اب کوئی سنتا نہیں”

شہر میں اس بات کا چرچا ہوا تو کھلا کہ ان کی غزلیں بکتی ہیں۔ شاگردوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کو استادوں کا استاد کہا جائے تو غلط نہیں۔ آتشؔ، اسیرؔ، میرؔ خلیقؔ وغیرہ سب ان ہی کے شاگرد تھے اور سب اپنے اپنے وقت قادر الکلام شاعر تھے ۔

مصحفی کو مختلف شعراء سے خراجِ تحسین: ابھی ہم نے مصحفی کی ناقدری کی بات کہ کہ زمانے میں کیسے ان کو ناقدری کی نگاہ سے دیکھا گیا مگر اس ظالم سماج میں سب ایک طرح کے لوگ نہیں ہوتے ۔ کچھ جوہری بھی ہوتے جو ہیرے کی شناخت رکھتے ۔ ایسے ہی کچھ جوہری مصحفی کے زمانے میں بھی تھے جو مصحفی کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ ان میں سے چند کی آرا ملاحظہ کریں ۔

حسرت موہانی : ” میر تقی کے رنگ میں مصحفی میر حسن کے ہم پلّہ ہیں، سودا ؔکے انداز میں انشاء کے ہم پلّہ اور جعفر علی حسرت کی طرز میں جرأت کے ہمنوا ہیں لیکن بہ حیثیت مجموعی ان سب ہمعصروں سے بہ اعتبار کمال سخندانی و مشّاقی برتر ہیں۔ میرؔ و میرزاؔ کے بعد کوئی استاد ان کے مقابلہ میں نہیں جچتا۔”

حکیم عبد الحئی لکھنوی : گل رعنا کے مصنف حکیم عبد الحئی لکھنوی کے مطابق ” ان کی ہمہ گیر شخصیت نے کسی خاص رنگ پر قناعت نہیں کی۔ ان کے کلام میں کہیں میرؔ کا درد ہے تو کہیں سوداؔ کا انداز، کہیں سوز ؔکی سادگی اور جہاں کہیں ان کی کہنہ مشقی اور استادی اپنے پیشرووں کی خوبیوں کو یکجا کر دیتی ہے وہاں وہ اردو شاعری کا بہترین نمونہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔”

نثار احمد فاروقی : فاروقی صاحب کی رائے میں ” بہرحال مصحفیؔ کے بارے میں اس عام خیال سے کہ ان کا اپنا کوئی رنگ، کوئی انفرادی اسلوب نہیں، اختلاف کرتے ہوئے کہتے ہیں، “اگر ہم اس مرکزی اور مستقل خصوصیت کو بیان کرنا چاہیں جو میرؔ و سوداؔ کے مختلف اندازوں کو اڑاتے ہوئے بھی، مصحفیؔ کے وجدان و کلام میں جاری وساری ہے، تو اسے ہم اک رچا ہوا اعتدال کہہ سکتے ہیں، اک تحت غنائی کیفیت! اگر میر کے یہاں آفتاب نصف النہار کی پگھلا دینے والی آنچ ہے تو سوداؔ کے یہاں اس کی عالمگیر روشنی ہے۔ لیکن آفتاب ڈھل جانے کے بعد سہ پہر کو گرمی اور روشنی کے اک نئے امتزاج سے جو معتدل کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ مصحفیؔ کے کلام کی خصوصیت ہے۔ مصحفیؔ کے یہاں شبنم کی نرمی اور شعلۂ گل کی گرمی کا ایسا امتزاج ہے جو اس کی خاص اپنی چیز ہے۔ اس کے نغموں کی شبنم سے دھلی ہوئی پنکھڑیاں ان گلہائے رنگارنگ کا نظارہ کراتی ہیں جن کی رگیں دُکھی ہوئی ہیں اور جن کی چٹیل مسکراہٹ سے بھینی بھینی بوئے درد آتی ہے۔” مندرجہ بالا آرا کو دیکھنے کے بعد ہم بآسانی کہ سکتے ہیں کہ مصحفیؔ ایسے شاعر ہیں جن کو زندگی نے نہ کھل کر ہنسنے کا موقع دیا نہ کھل کر رونے کا، پھر بھی وہ اپنے پیچھے شاعری کا وہ سرمایہ چھوڑ گئے جو ان کی ابدی زندگی کا ضامن ہے ۔

تصانیف: اردو ، عربی اور فارسی پر کمال دسترس رکھنے والے شاعر نے اردو ادب کو آٹھ دیوان عطا کیے ۔ اس کے علاوہ فارسی کا ایک دیوان بھی مصحفی کو کامیاب شاعروں کی فہرست میں لاتا ہے۔اردو شعراء کے تین تذکرے بھی ان سے منصوب ہیں ۔ وفات : مصحفی نے 76 سال کی عمر میں 1240ھ بمطابق 1824ء میں لکھنؤ میں وفات پائی ۔

حسرت پہ اس مسافر بے کس کی روئیے

جو تھک گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply