لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
ابتدائی تعارف: ابراہیم ذوق 22 اگست 1790ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ محمد رمضان مغل فوج میں ایک معمولی سپاہی تھے۔ ابراہیم ذوق کا بچپن غربت میں گزرا اور وہ بچپن میں چیچک کا شکار بھی ہوئے لیکن وہ اس بیماری سے صحت یاب ہو گئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایک مقامی مدرسے میں ہوئی۔ حافظ غلام رسول ان کے استاد تھے حافظ غلام رسول خود بھی شاعر تھے اور “شوق” تخلص کرتے تھے۔ انہی کی وجہ ذوق کو شاعری کا شوق پیدا ہوا اور انھوں نے ہی ذوق کو “ذوق” تخلص دیا ۔ کچھ عرصہ بعد ذوق نے مولوی عبد الرزاق کے مدرسہ میں داخلہ لے لیا۔ یہاں ان کے بچپن کے دوست میر کاظم علی بیقرار ان کے ہم سبق تھے ۔ بیقرار نواب رضی خاں ، وکیل سلطانی کے بھانجے اور بہادر شاہ ظفر کے ملازم خاص تھے ۔جو اس وقت تک محض ولی عہد تھے ،بادشاہ اکبر شاہ ثانی تھے۔بیقرار کے ہی توسط سے ذوق کی رسائی قلعہ تک ہوئی ۔
شاعری ایک فن لطیف ہے اور شاعری کی طرف رغبت ذوق کی شرافت نفس کی دلیل ہے۔ذوق نے بہرحال طالب علمی کے زمانہ میں اس شوق کو اپنی طبیعت پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے اپنے شوق اور محنت سے مروجہ علوم مثلا ً نجوم،طب تاریخ وغیرہ میں تعلیم حاصل کی اور ہر فن میں طاق ہو گئے۔
قسمت سے ہی مجبور ہوں اے ذوق وگرنہ
ہر فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا
شاعری کا سلسلہ بہرحال جاری تھا اور وہ اپنی غزلیں اپنے استاد شوق کو ہی دکھاتے تھے۔لیکن جلد ہی وہ شوق کی اصلاح سے غیر مطمئن ہو گئے اور اپنے زمانہ کے مشہور استاد شاہ نصیر کی شاگردی اختیار کر لی۔
دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پہلے حافظ غلام رسول کے مکتب میں تعلیم پائی۔ حافظ صاحب کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ ذوق بھی شعر کہنے لگے۔ اس زمانے میں شاہ نصیر دہلوی کا طوطی بول رہا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہو گئے۔ دل لگا کر محنت کی اور ان کی شاعرانہ مقبولیت بڑھنے لگی۔ بہت جلد علمی و ادبی حلقوں میں ان کا وقار اتنا بلند ہو گیا کہ قلعہ معلیٰ تک رسائی ہو گئی۔ خود ولی عہد سلطنت بہادر شاہ ظفر ان کو اپنا کلام دکھانے لگے۔ شاہ اکبر ثانی نے ایک قصیدہ کے صلہ میں ملک الشعراء خاقانی ہند کا خطاب مرحمت فرمایا۔ شروع میں چار روپے ماہانہ پر ظفر کے استاد مقرر ہوئے۔ آخر میں یہ تنخواہ سو روپیہ تک پہنچ گئی۔
غالب ، شاہ نصیر اور استاد ذوق :غالب ،شاہ نصیر اور استاد ذوق کا زمانہ ایک ہی ہے ۔ استاد ذوق اور غالب کا شمار بہادر شاہ ظفر کے اساتذہ میں ہوتا ہے ۔ذوق کی زندگی کے واقعات زیادہ تر ان کی شاعرانہ زندگی اور سخنوری کے معرکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ذوق سے پہلے شہر میں شاہ نصیر کی استادی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ وہ سنگلاخ زمینوں اور مشکل ردیفوں جیسے “سر پر طرہ ہار گلے میں’ اور ” فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں” کے ساتھ غزلیں کہہ کر شہر کو مرعوب کئے ہوئے تھے۔ ذوق جب ان سے زیادہ مقبول اور مشہور ہو گئے تو انہوں نے ذوق کو نیچا دکھانے کے لئے بہت سے ہتھکنڈے اپنائے لیکن ہر معرکہ میں ذوق ظفر یاب ہوئے۔ذوق نے کبھی اپنی جانب سے چھیڑ چھاڑ کی ابتدا نہیں کی اور نہ کبھی ہجو لکھی۔ غالب کبھی کبھی چٹکیاں لیتے تھے۔شاعری میں ذوق کا سلسلہ شاہ نصیر سے ہوتا ہوا سودا تک پہنچتا تھا ۔ذوق کے کلام میں میر کی سی درد مندی اور کسک کے فقدان پر پھبتی کستے ہوے غالب نے کہا ۔
غالب اپنا بھی عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
غالب نے اپنے مقطع میں ناسخ کا نام لے کر یہ بھی اشارہ کر دیا کہ استاد ذوق معنوی ناسخ بھی میر سے متاثر تھے اور تمہارے کلام میر کی کوئی جھلک تک نہیں۔اس کے جواب میں ذوق نے کہا
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
“یعنی تمھارے یہاں کب میر جیسا سوز و گداز ہے بس خیالی مضمون باندھتے ہو ۔ شہزادہ جوان بخت کی شادی کے موقع پر غالب نے اک سہرا لکھا جس میں شاعرانہ تعلی سے کام لیتے ہوئے انھوں نے کہا۔
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرف دار نہیں
دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بہتر سہرا
یہ بات بہادر شاہ کو گراں گزری۔گویا ان پر چوٹ کی جا رہی ہے کہ وہ سخن فہم نہیں تبھی غالب کو چھوڑ کر ذوق کو استاد بنا رکھا ہے۔ انھوں نے ذوق سے فرمائش کی کہ اس سہرے کا جواب لکھا جائے۔ذوق نے سہرا لکھا اور مقطع میں غالب کے شعر کا جواب دے دیا ۔
جن کو دعوائے سخن ہے یہ انہیں دکھلا دو دیکھو اس طرح سے کے تہ ہیں سخنور سہرا”۔
بہر حال غالب ذوق پر چوٹیں کس ہی دیا کرتے تھے مگر اس خوبی سے کہ نام اپنا ڈالتے تھے اور سمجھنے والے سمجھ جاتے تھا کہ روئے سخن کس طرف ہے جیسا کہ ایک بار بہادر شاہ ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
اسلوب بیاں : استاد ذوق بلند پایا قصیدہ نگار اور غزل گو تھے ۔ غزل میں داخلی جذبات کیفیات کی بجائے بیان اظہار اور زبان پر زور دیتے ہیں ۔ ان کی زبان صاف ستھری کوثر و تسلیم میں دھلی ہوئی دلی کی ٹکسالی زبان ہے ۔ انتخاب الفاظ اور محاورات اور ان کے بر محل استعمال پر خاص قدرت رکھتے ہیں ۔ روانی ، موسیقی ، مضامین کی بلندی اور زور تخیل ان کی شاعری کی بنیادی وصف ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر کی مدح میں لکھے گئے ان کے قصائد ، مضامین کے تنوع زور بیاں اور نادر الوجود تشبیہات اور خوش الفاظ و ترکیب کی وجہ سے انتہائی قابل قدر خیال کیے جاتے ہیں ۔ ذوق کو عربی اور فارسی پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدّت و ندرت تھی۔ ان کی تمام عمر شعر گوئی میں بسر ہوئی ۔
وفات : 16 نومبر 1854ء کو دہلی میں ذوق نے وفات پائی۔ ان کی قبر دہلی کے بوسیدہ پہاڑی علاقے گنج میں واقع ہے۔ ان کا مزار بحال کیا گیا ہے لیکن بد قسمتی سے ان کی رہائش گاہ کی شناخت نہیں ہو سکی ۔ مرنے سے چند روز قبل یہ شعر لکھا ۔
کہتے آج ذوق جہاں سے گذر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
Discover more from Shami Voice
Subscribe to get the latest posts sent to your email.