شہزاد احمد کی شاعری

شہزاد احمد کی شاعری اور فکر و فن ۔ آج کی اس پوسٹ میں ہم ساٹھ کی دہائی کے مشہور غزل گو شاعر شہزاد احمد کا بطور غزل گو شاعر ، بطور نظم گو شاعر ، بطور نثر نگار اور بطور مترجم مطالعہ کریں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ شہزاد احمد کی سوانح حیات ، علمی و فکری رحجانات و رویوں اور تصانیف پر سیر حاصل بحث کریں گے ۔

اب تو انسان کی عظمت بھی کوئی چیز نہیں

لوگ پتھر کو خدا مان لیا کرتے تھے

ابتدائی زندگی کا تعارف: 

 اردو ادب کے معروف شاعر ، ادیب ، نقاد ، مترجم اور مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر شہزاد احمد 16 اپریل 1932ء کو مشرقی پنجاب کے مشہور تجارتی اور ادبی شہر امرتسر کے ایک ممتاز خاندان میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام ڈاکٹر حافظ بشیر تھا ۔ شہزاد احمد کے والد نے طب کے موضوع پر اردو میں کئی کتابیں تحریر کیں ۔ شہزاد احمد نے میٹرک کا امتحان امرتسر سے پاس کیا ۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور منتقل ہوا ۔ انھوں نے ایم ۔ اے ۔ او کالج لاہور سے بی ۔ اے کیا اور اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ہی 1952ء نفسیات میں اور 1955ء میں فلسفہ میں ایم ۔ اے کیا ۔

عملی زندگی کا تعارف : حصول رزق کے لیے انھوں نے مختلف ملازمتیں کیں وہ مختلف رسائل میں لکھتے رہے ۔ ان کے علاوہ محمود شام کے ساتھ مل کر ایک رسالے ” معیار ” کا بھی اجراء کیا ۔ انھیں 1997ء میں صدارتی ایوارڈ برائے ” حسن کارکردگی ” عطا کیا گیا ۔ اردو کے جدید شعراء میں ایک اہم نام شہزاد احمد ہے ۔ جنھوں نے زندگی کے بدلتے ہوئے حالات اور جدید تقاضوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ۔ وہ جذباتی سطح پر متوازن ، تخلیقی سطح پر متحرک اور مکرمی سطح پر فعال ہیں ۔

شہزاد احمد نے پہلی سرکاری ملازمت تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی بہاول پور میں بطور پبلک ریلیشنز آفیسر سر انجام دی اور انھوں نے تھل ترقیاتی ادارے کی یہ اعلیٰ ملازمت ترک کی تو ایگل سائیکل بنانے والوں کی فرم میں ملازمت اختیار کی ۔ ذولفقار علی بھٹو  کے دور میں وہ روٹی پلانٹ کے جنرل مینجر مقرر ہوئے ۔ پھر پاکستان ٹیلی ویژن پر اسکرپٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے ۔

 اسلوب بیاں اور ادبی خدمات : اسلوب کی تازہ کاری سے انھوں نے غزل کو نئی جہت سے آشنا کیا ۔ ان کا تخلیقی عمل صرف اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتا بلکہ انہوں نے انسانی مسائل اور عالم گیر حقائق کی روشنی میں اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کی ہے ۔ ان کے ہاں انسانی فطرت کی پیچیدگیوں کے ساتھ حالات و واقعات کا خارجی و داخلی آہنگ بھی موجود ہے ۔ انہوں نے مطالعہ اور احساس و تخیل سے انسانی فطرت کو جانچنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کی غزل ان کے ہاں لوگوں کا نوحہ ہے جن میں منافقت رچی بسی ہے اور احساس زیاں سے عاری ہے ۔ کبھی کبھی سائنسی ، نفسیاتی اور فلسفیانہ افکار کی کثرت سے غزل کی روایات مجروح ہوتی نظر آتی ہے لیکن بحیثیت مجموعی انھوں نے غزل کی روایات کی پاسداری کی ہے ۔ ڈاکٹر انور سدید نے انہیں نئی غزل کا مزاج دان کہا ہے ۔شہزاد احمد کی شاعری کی پہلی کتاب “صدف” 1958ءمیں شائع ہوئی۔ اس کے بعد چھپنے والی کتابوں میں  جلتی بجھتی آنکھیں ،  آدھ کھلا دریچہ  ، خالی آسمان ، بکھر جانے کی رُت ، دیوار پر دستک ،  ٹوٹا ہوا پُل ، کون اسے جاتا دیکھے ، پیشانی میں سورج ، اترے مری خاک پر ستارہ اور مٹی جیسے لوگ بہت مشہور ہیں۔ شہزاد احمد نے پنجابی شاعری بھی کی ہے اور پنجابی شاعری کی کتابیں اس سے الگ ہیں۔ 

شہزاد احمد  نے اردو ادب کے حوالے سے نثری ادب میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان کی نثر کی کتابوں میں مذہب، تہذیب اور موت ، ذہن انسانی کا حیاتیاتی پس منظر ، سائنسی انقلاب اور دوسرا رخ  وغیرہ شامل ہیں۔ نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام نے اپنی ایک کتاب ان سے ترجمہ کرائی جو  ” ارمان اور حقیقت” کے نام سے شائع ہوئی۔ تخلیقی رویے، سائنس کے عظیم مضامین اور نفسیاتی طریقِ علاج میں مسلمانوں کا حصہ ان کی ترجمہ شدہ کم از کم دس کتابیں اب بھی زیرِ اشاعت ہیں۔

 اس کے علاوہ شہزاد احمد شعر و نقد ، نفسیات اور فلسفہ کے موضوعات پر انتہائی اہم مضامین احاطہ تحریر میں لا چکے ہیں اور متعدد اہم ترین سائنسی موضوعات پر معروف کتب کے تراجم بھی ان کے نام کے ساتھ یادگار ہو چکے ہیں۔ اسلام اور فلسفہ ان کا محبوب موضوع ہے اور اس سلسلے میں ان کی تصانیف اور تراجم پاکستانی ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں ۔

 شہزادہ احمد بطور غزل گو شاعر : شعری سطح پہ شہزاد احمد نے کلاسیکی روایت کے ساتھ جدید اسلوب اور افکار کو بڑی خوبی سے برتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا شمار رجحان ساز شعرا میں ہوتا ہے ۔  ساٹھ کی دہائی میں بعض شعراء نے جدید طرز احساس کو اپنی شاعری کی بنیاد بنایا۔ ان میں شہزاد احمد کا نام سر فہرست ہے۔ ان کی شاعری میں شعری طرز احساس کے ساتھ ساتھ ایک نیا لہجہ بھی ملتا ہے۔ انھوں نے بہت لکھا اور غزل کے میدان میں اپنی ایک الگ حیثیت منوائی۔ انھوں نے شاعری پر تیس کتابوں کے علاوہ نفسیات پر بھی کئی کتابیں تصنیف کیں۔  شہزاد احمد نے پنجابی شاعری بھی کی ہے اور اس کے علاوہ نظم نگاری میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں مگر ان کا اصل میدان غزل ہے ۔ غزل کی صنف انھوں نے نئے نئے تجربات کیے ہیں ۔ ہماری شاعری اور بالخصوص غزل کا بنیادی موضوع محبت اور اس سے وابستہ احساسات و جذبات کا فنکارانہ اظہار رہا ہے ۔ شہزاد احمد اردو کا پہلا غزل گو شاعر ہے جس نے غزل کے اس بنیادی موضوع کو تجربے کے علاوہ علم کی سطح پر بھی برتا ہے اور یوں وہ محبت کی نفسیات کا ماہر غزل گو تسلیم کیا گیا ہے۔

شہزاد احمد بطور نظم گو شاعر : شہزاد احمد نے غزل کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی لکھیں ہیں ۔ ان کی نظمیں ان کی غزل کے ایک ایک شعر کی تشریحات محسوس ہوتی ہیں ۔ ان میں غزل کا سا حسن و بے ساختگی ہے۔ نظم کے سلسلے میں مشکل یہ ہے کہ اس کے لیے خیال و احساس کی ایک جامعیت ، ایک مرکزیت ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے تو جس طرح یہ ضروری نہیں کہ کامیاب نظم نگار اچھی غزل کہنے پر بھی قدرت رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ کامیاب غزل گو اچھی نظم تخلیق کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔ مگر غزل گو شہزاد احمد نے اپنی تخلیقی ہمہ گیریت سے اس مفروضے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ان کی نظمیں جہاں انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آراستہ ہیں۔ وہیں ان کا معیار بھی شہزاد کی غزل کی طرح صاف ستھرا اور بلند ہے۔ شہزاد احمد نے غزل اور نظم کے علاوہ نفسیات پر بھی کتابیں لکھی ہیں اور بعض غیر معمولی کتابوں کے ترجمے بھی کیے ہیں اور نفسیات اور فلسفے کے ساتھ ساتھ سائنسی موضوعات پر بھی بہت محنت اور کاوش سے لکھا ہے۔ شہزاد احمد اردو ادب کی ایک ہمہ گیر اور ہمہ صف اور سرمایہ افختار شخصیت ہیں۔

شہزاد احمد بطور نثر نگار: جیسا کہ ابھی ہم نے اوپر شہزاد احمد کی غزل اور نظم پر بحث کی کہ انھوں نے دونوں میدانوں میں اپنی قابلیت کا سکہ جمایا ۔ اسی طرح ان کا نثری ادب بھی اردو ادب کا اہم سرمایہ گردانا جاتا ہے ۔ شہزاد احمد کا نثری سرمایہ خرد افروزی اور روشن خیالی کا ایک درخشاں باب ہے۔ ان کے علمی و فکری مضامین کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ ان کتابوں میں مذہب، تہذیب موت (فرائیڈ کے نظریہٴ جبلت مرگ کا مطالعہ ) ، ذہن انسانی : حدود اور امکانات (ذہن کا ایک حیاتیاتی مطالعہ ) ، سائنسی انقلاب : یقین سے امکان تک، دوسرا رخ، فرائیڈ کی نفسیات کے دو دور (تحلیل نفسی کا ایک مطالعہ ) ، ارتقاء اور رد ارتقاء وغیرہ میں انھوں نے اپنی علمی کاوشوں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ہر میدان کے فاتح رہے ہیں ۔

شہزاد احمد بطور مترجم : ایک اور اہم خوبی جن کے وہ مالک تھے وہ یہ کہ شہزاد احمد ایک اچھے ترجمہ نگار بھی تھے ۔ انھوں نے فلسفہ ، تاریخ، طب اور نفسیات پر مبنی بہت سی کتب کا ترجمہ کیا ۔ انھوں نے بہت سی کتب کا ترجمہ کر کے ہمارے لیے آسانی کا ساماں فراہم کیا ۔ جن سے ہم شب و روز استفادہ کر رہے ۔ ان کتب میں سے چند ایک یہ ہیں: آپ سوچتے کیوں نہیں؟ ، نفسی طریق علاج میں مسلمانوں کا حصہ (ڈاکٹر اجمل کے مضامین ) ، اسلامی فکر کی نئی تشکیل (خطبات اقبال ) ، اسلامی فلسفے کی تاریخ (ماجد فخری) ، اسلام کی پہچان (فرتھ جوف شواں ) ، اسلامی آرٹ (نیٹس برک ہارٹ ) ، اسلامی ثقافت (ڈاکٹر افضل اقبال ) ، ارمان اور حقیقت (ڈاکٹر عبدالسلام ) اور مسلم فلسفے کی تاریخ (مرتبہ : ایم ایم شریف )

 مجموعہ ہائے کلام :

شعری تصانیف : صدف ، جلتی بجتی آنکھیں ، آدھ کھلا دریچہ ، خالی آسمان ، بچھڑ جانے کی رت ، دیوار پہ دستک ، ٹوٹا ہوا پل ، کون اسے جاتا دیکھے ، پیشانی میں سورج ، معلوم سے آگے ، اندھیرا دیکھ سکتا ہے ، ایک چراغ اور بھی ، آنے والا کل ، مٹی جیسے لوگ ، دیوار پہ دستک ( کلیات) اور  اترے میری خاک پہ ستارا وغیرہ ۔

نثری تصانیف:  شہزاد احمد نے غزل کے ساتھ ساتھ نثری ادب میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے ہیں ۔ ان کی چند ایک نثری ادب پر مشتمل کتابیں حسبِ ذیل ہیں:  مذہب ، تہذیب اور موت ، اسلامی فکر کی نئی تشکیل ، ذہن انسانی کا حیاتیاتی پس منظر ، سائنسی انقلاب ، ارمان اور حقیقت اور دوسرا رخ وغیرہ ۔

وفات : شہزاد احمد کا انتقال یکم اگست 2012ء بمطابق 12 رمضان المبارک 1433ھ بروز بدھ شام چار بجے لاہور میں ہوا۔ مرحوم کی عمر 80 برس تھی۔ شہزاد احمد نے سوگواران میں دو بیٹے اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں ۔

شہزاد احمد کی مشہور غزلوں کے چند مشہور اشعار ملاحظہ ہوں:

رخصت ہوا تو آنکھ  ملا کر نہیں گیا

وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا

اپنی تصویر کو آنکھوں سے لگاتا کیا ہے

اک نظر میری طرف بھی ترا جاتا کیا ہے

رکھوں کسی سے توقع تو کیا رکھوں شہزاد

خدا نے بھی تو زمیں پر گرا کے چھوڑ دیا

جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا

تب اس کو پہلی ملاقات کا خیال آیا

میں جو روتا ہوں تو کہتے ہو کہ ایسا نہ کرو

تم اگر میری جگہ ہو تو بھلا کیا نہ کرو

نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے

وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے

 

چھوڑنے میں نہیں جاتا اسے دروازے تک

لوٹ آتا ہوں کہ اب کون اسے جاتا دیکھے

نوٹ : امید کرتا ہوں کہ آپ شہزاد احمد کے بارے میں تفصیل سے پڑھ چکے ہوں گے ۔ اگر اس پوسٹ میں آپ کو کوئی غلطی نظر آئے یا اس کو مزید بہتر کیسے کیا جائے تو کومنٹس میں ہماری ضرور اصلاح فرمائیں اور اگر اس سے متعلقہ کچھ سمجھ نہ پائیں تو بھی کومنٹس کر کے پوچھ سکتے ہیں ۔

 شکریہ


Discover more from Shami Voice

Subscribe to get the latest posts sent to your email.

Leave a Reply